Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
ان لوگوں نے ان اعمال و احکام کی پیروی کی جنہیں شیاطین ، سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کر کے پڑھا کرتے تھے حالانکہ سلیمان کبھی کفر کا مرتکب نہیں ہوا تھا بلکہ یہ انہی شیطانوں کا کفر تھا کہ لوگوں کو جادوگری سکھلاتے تھے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ بابل میں دو فرشتوں ہاروت ماروت پر اس طرح کی کوئی بات نازل ہوئی تھی ” وہ جو کچھ بھی کسی کو سکھلاتے تھے تو یہ کہہ دیتے تھے کہ دیکھو ہمارا وجود تو ایک فتنہ ہے پھر تم کیوں کفر میں مبتلا ہوتے ہو ؟ لیکن اس کے باوجود لوگ ان سے (ایسے ایسے اعمال و اقوال) سیکھتے جن کے ذریعے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈالنا چاہتے “ وہ کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اِلّا یہ کہ اللہ کے حکم سے کسی کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہو یہ لوگ کتاب الٰہی [ کو چھوڑ کر ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو انہیں سراسر نقصان پہنچانے والی ہیں انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جو کوئی جادوگری کا خریدار ہوتا ہے اس کے لیے آخرت کی برکتوں میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، پس افسوس ان کی اس خریداری پر ! کیا ہی بری جنس ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی نجات فروخت کردی ! کاش وہ اس حقیقت کی خبر رکھتے
یہود کے کتاب اللہ چھوڑنے کی ایک واضح دلیل : 193: یہود کے کتاب اللہ کو وراء ظہور پھینکنے کی ایک دلیل یہ ہے کہ انہوں نے کتاب اللہ یعنی تورات کو چھوڑ کر شیاطین انس کی پیروی شروع کردی تھی۔ مذہبی لوگوں کی عزت و حرمت کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ کتاب الٰہی کے محافظ اور اس کی تعلیمات کے ناشر ہوتے ہیں لیکن جس وقت وہ اس فرض جلیل کو ترک کردیتے ہیں تو ان کی عزت بھی جاتی رہتی ہے اور وہ ” خیر البریۃ “ کی بجائے ” شر البریۃ “ بن جاتے ہیں۔ ان کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ باوجود اس بدعملی اور بدکرداری کے لوگ ان کا احترام کریں۔ نذریں اور ہدیئے ان کے سامنے پیش ہوں اور عوام الناس انہیں اپنا امام و پیشوا تسلیم کریں چونکہ ان کے پاس صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور اخلاق فاضلہ سے دور ہوتے ہیں اس لئے خدع و فریب اور حیلہ سازی سے کام لے کر اپنی عزت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان آیات میں علماء یہود کی اس قسم کی شرارتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے اور صرف نبی ہی نہیں بلکہ بادشاہ وقت بھی تھے قرآن کریم میں سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا لیکن سورة نمل میں ان کو عطا کردہ ” آیات بینات “ کی تفصیل بھی موجود ہے لیکن بنی اسرائیل نے ان کی ذات اقدس کی طرف صدہا فرضی کہانیاں اور مافوق الفطرت عجائب وغرائب منسوب کے ہیں ، جس طرح مسلمانوں میں امیر حمزہ کے ایک فرضی ہیرو کی نسبت سے حیرت انگیز واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ سلاطین کی پہلی کتاب میں سلیمان کی طرف کفر اور معبود انِ باطل کی پرستش بھی منسوب کی گئی ہے لیکن اس کا اصل حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ نقل کفر کفر نباشد۔ چناچہ بیان کیا جاتا ہے کہ : ” اس کی سات سو جو روئیں اور بیگمات تھیں اور تین سو حرمین (یعنی لونڈیاں) اور اس کی جو روؤں نے اس کے دل کو پھیرا کیونکہ ایسا ہوا کہ جب سلیان بوڑھا ہوا اور اس کی جو روؤں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا اور اس کا دل خداوند اپنے خدا کی طرف کامل نہ تھا ، اور سلیمان نے خداوند کی نظر میں بدی کی اور اس نے خداوند کی پوری پیروی اپنے باپ دادوں کی طرح نہ کی۔ سو از بس کہ اس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے جو اسے دوبارہ دکھائی دیا برگشتہ ہوا ، اس لئے خداوند سلیمان پر غضبناک ہوا۔ “ (سلاطین 11 : 3 ، 4 ، 5 ، 6 ، 9) اس بیان سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ یہودنا مسعودنے اپنی کتاب کے اندر بھی ردو بدل کیا اور تورات کی عبارات کو بدلنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اس طرح انہوں نے فسق و فجور کی راہ اختیار کی۔ حضرت سلیمان ؓ کی حکومت میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے اور ان تمام باتوں کو سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے۔ قرآن کریم نے اس جلیل القدر پیغمبر کی معصومیت اور طہارت کا اعلان کیا اور بتادیا کہ اللہ کا پیغمبر کبھی کفر و مشرکانہ رسوم کا مرتکب نہیں ہوسکتا بلکہ یہ تمام تر شرارت یہودیوں کی ہے جو ایک پیکر قد و سیت اور مجسمہ پاکبازی کو کافر بناتے ہیں اور اس طرح اعلان کرتے ہیں کہ عہد عتیق میں لفظی و معنوی تحریف ہوئی ہے۔ صحائف آسمانی میں سے قرآن کریم صرف ان امور کی تصدیق کرتا ہے جو حقیقت میں ایسے ہی ہیں اور جہاں غلطی ہوتی ہے فوراً اس سے علیحدگی اختیار کرتا ہے اور سچائی کا اعلان کردیتا ہے۔ بابلؔ عہد قدیم کا ایک نہایت ہی بار و نق اور شاندار شہر تھا کسی زمانہ میں وہ تہذیب و شائستگی کا مرکز تھا اس کی جائے و قوع دریائے فرات کے کنارے تھی۔ عراق عرب کا دارالسلطنت ہونا اس کی شہرت و عظمت کا اور زیادہ باعث بن گیا۔ اس کے کھنڈرات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم الشان شہر تمدن و حضارت کا گھر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی فصیل 55 میل لمبی ، 34 فٹ بلند اور 85 فٹ چوڑی تھی جس وقت بخت نصر نے یہودیوں کو تباہ کیا ہے یہ شہر اپنے انتہائی عروج پر تھا۔ یہودی قید ہو کر بابل میں آباد ہوگئے۔ اب ان کے لئے حکومت کی جگہ غلامی ، عزت کی جگہ ذلت اور تخت سلطنت کی جگہ غربت و مسکنت تھی۔ اللہ کا وعدہ ان کے حق میں پورا ہوا : وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا 004 فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ 1ؕوَ کَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا 005 (بنی اسرائیل 17 : 4 ، 5) ” اور دیکھو ہم نے کتاب یعنی تورات میں بنی اسرائیل کو اس فیصلہ کی خبر دے دی تھی کہ تم ضرور ملک میں دو مرتبہ خرابی پھیلاؤ گے اور بڑی سخت درجہ کی سرکشی کرو گے پھر جب ان دو وقتوں میں سے پہلا وقت آگیا تو اے بنی اسرائیل ! ہم نے تم پر اپنے ایسے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی خوفناک تھے پس وہ تمہاری آبادیوں کے اندر پھیل گئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔ “ قرآن کریم نے اکثر تاریخی حقائق کی طرح ان کی تفصیلات میں گئے بغیر یہاں بھی صرف اشارہ کردینا کافی سمجھا ہے یہود کا یہ شوق ان کی قدیم تاریخ سے قطع نظر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی قائم تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہودی نسل و یہود خصلت پروفیسر مار گولیس جس کی اسلام دشمنی ضرب المثل بنی ہوئی ہے۔ اپنی انگریزی سیرت رسول میں معاصر یہود عرب کے سلسلہ میں لکھتا ہے کہ ” یہ لوگ فن سحر کے ماہر تھا اور بغیر میدان جنگ میں آنے کے سفلی عملیات کو ترجیح دیتے تھے۔ “ (ص : 189) شیاطین سے مراد شیاطین انس ہیں یعنی وہ سرکش و خبیث انسان جو حضرت سلیمان ؓ کے خلاف بغاوت میں پیش پیش تھے اور آپ پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے تھے اور سحر و کہانت کے بھی ماہر تھے یعنی دربار سلیمانی کے باغی سردار و سرغنہ جن کا مفصل ذکر عہد عتیق کے بعض صحیفوں میں ملتا ہے۔ سیدنا سلیمان بن داؤدعلیہما السلام (930 ق م تا 990 ق م) اسرائیلی سلسلہ کے ایک نامور پیغمبر گزرے ہیں ، اور اپنے والد ماجد ہی کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑے تاجدار تھے۔ شام و فلسطین کے علاوہ آپ کے حدود حکومت مشرق کی سمت میں عراق کے دریائے فرات کے ساحل تک اور مغرب میں سرحد مصر تک وسیع تھے۔ آپ کی سلطنت کی عظمت و شوکت پر دوست و دشمن سب کا اتفاق ہے۔ اسلام میں اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی و اخلاقی مرتبہ یعنی نبوت و رسالت کے ساتھ جس طرح فقر و مسکنت جمع ہوسکتے ہیں اسی طرح دولت و امارت ، حکومت و سیاست بھی اسلام کا رب و الٰہ ، غریبوں امیروں ، ناداروں اور زرداروں سب کا یکساں ہے۔ آیت کا ماحصل یہ ہے کہ جس طرح ان یہود کے آباؤ اجداد عہد سلیمانی میں شیطانی مشغلوں یعنی سحر و کہانت میں لگے رہے اسی طرح آج بھی بجائے نبی کی ہدایتوں پر چلنے کے انہیں سفلی مشغلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) نے تو کبھی کفر نہیں کیا۔ اس سے یہ بات واضح کردی کہ سحر و جادو کیا ہے ؟ فرمایا کہ کفر کے سوا کچھ بھی نہیں بلکہ کفر سے بھی بڑھ کر ہے اور جب یہ کہا جائے کہ یہ بات کفر سے بھی بڑھ کر ہے تو اس کا صاف صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ کفر بھی اور شرانگیزی بھی۔ جس طرح کافر صرف کافر ہی نہ ہو بلکہ شرانگیز بھی ہو تو اس کی سزا قتل ہے اسی طرح جادوگر کی سزا بھی اسلام میں قتل ہے کیونکہ ہر جادوگر کافر بھی ہوتا ہے اور شرانگیز بھی۔ ہاروت و ماروت فرضی شخصیتیں ہیں فرشتے نہیں : 194: ” وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ “ میں ما نافیہ ہے اور یہ جملہ معترضہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ کہنا کہ جادو بھی آسمان سے فرشتوں پر نازل ہوا ہے اور فرشتوں ہی نے ہمیں یہ سکھایا ہے اس لئے یہ بھی صحائف آسمانی کی طرح آسمانی چیز ہے اور مقدس ہے۔ یہود کا یہ کہنا سراسر باطل اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔ فرشتوں پر ہرگز کوئی جادو نازل نہیں کیا گیا اور یہ پوری کہانی ہی گویا فرضی ہے جو یہود کے علماء نے اپنے پاس سے گھڑی ہے جس کو وہ اس طرح بیان کرتے ہیں ” وہ جو کچھ بھی کسی کو سکھلاتے تھے تو یہ کہے بغیر نہیں سکھاتے تھے کہ دیکھو ہمارا وجود تک ایک فتنہ ہے پھر تم کیوں کفر میں مبتلا ہوتے ہو ؟ لیکن ان کے اس طرح کہنے کے باوجود لوگ ان سے ایسے ایسے اعمال و اقوال سیکھتے ہیں جن کے ذریعے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیتے۔ “ یہ صرف کہانی اس لئے گھڑی گئی کہ فرشتوں کی پوزیشن بھی صاف رہے اور ان کے نظریہ پر بھی زد نہ آئے اس کو کہتے ہیں کہ ” سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے “ اس طرح کے بیان سے ان کا اصل مطلب یہ تھا کہ فرشتوں کی بزرگی بھی قائم رہے اور ہمارا کام بھی بن جائے ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ” چپڑی اور دو دو نہیں ہوسکتیں “ دراصل بات وہی ہے کہ یہود جب بابل میں آباد ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں کے رہنے والے دو فرشتوں ہاروت و ماروت کے فرضی ناموں کی بہت قدر و منزلت کرتے ہیں تو انہوں نے غلط اور دوراز کار روایات کا انبار لگا دیا جن کو کوئی سلیم الفطرت انسان قبول نہیں کرسکتا انہوں نے اپنی عادت کے مطابق نئے نئے شعبدے بنا کر ہاروت و ماروت کے ذمے لگائے اور اس طرح لوگوں کو متاثر کر کے اپنا الو ّ سیدھا کیا ان کا خیال تھا کہ اس طرح شاید ہماری کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ بحال ہوجائے گی۔ بنی اسرائیل کے علماء کاہل تو پہلے ہی تھے کیونکہ مفت کی روٹیاں کھا کھا کر کام کرنے کی صلاحیت سلب کرچکے تھے اور چاہتے تھے کہ بغیر کام کئے لوگ ان کی تعریف کریں اس لئے انہوں نے ان شعبدوں کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور اس طرح ” ہم خرما و ہم صواب “ کے محاورہ کے مصداق ہوئے۔ افسوں گری کا مشغلہ کرنے والوں کا اصلی نشانہ کیا تھا ؟ 195: سحر و جادو کا جو منتر ان میں بہت مقبولیت حاصل کرچکا تھا وہ تھا جس سے میاں بیوی میں ناچاقی پیداہو تاکہ یہ اس پر ڈورے ڈال کر اپنے عشق کے جال میں پھانس لیں اس طرح وہ حرام کاری کا بازار گرم رکھتے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز بھی ملاحظہ ہو کہ ان کے کردار کے چہرہ پر جس بدنما داغ کی نشاندہی نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے کی اس کو آج وہ خود اپنی تحقیق کے آئینہ میں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جیوش انسائیکلو پیڈیا کی یہ عبارت پڑھئے ” سحر کی سب سے زیادہ عام متداول صورت اس نقش کی تھی جو عشق و محبت کے لیے دیا جاتا تھا خاص کر وہ نقش جو ناجائز آشنائیوں کے لئے لکھا جاتا تھا۔ “ (جیوش انسائیکلو پیڈیا ج 6 ، ص 255) سحر کا اثر اذن الٰہی ، چہ معنی دارد : 196: اس حکم الٰہی میں یہ بتایا جارہا ہے کہ سحر اور اس پر مرتب ہونے والے آثار کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیسے سبب و مسبب کا۔ ظاہر ہے کہ سبب تب ہی مؤثر ہوتا ہے جب اذن الٰہی ہو اور اگر اذن الٰہی نہ ہو تو سبب معطل ہوجاتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ سحر کوئی ایسی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر بھی غالب ہو اور اگر وہ نہ چاہے تب بھی جادو کا اثر ہو کر رہے۔ ہر قسم کا اختیار رکھنے والی تو وہ ذات ہے جس کے اذن و اجازت پر ہرچیز کے وجود و عدم کا دارومدار ہے سحر پر بھی اگر آثار مرتب ہوتے ہیں تو خود بخود نہیں بلکہ اذن الٰہی کے ملنے کے بعد۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سحر کفر ہے تو اس پر آثار مرتب ہونے کا اللہ تعالیٰ اذن ہی کیوں دیتا ہے ؟ حقیقت میں تو یہ سوال ہی صحیح نہیں ہے بہرحال ہم بحث کو لمبا کرنا نہیں چاہتے۔ یاد رہے کہ اس کے لئے ایک چیز ہمیشہ مد نظر رہنا ضروری ہے وہ یہ کہ اللہ کے ارادہ و مشیت اور اس کے حکم و رضا میں بڑا فرق ہے۔ وہ کسی بری چیز کا حکم نہیں دیتا اور نہ ہی اس کے کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ ہاں ! تکوینی قانون کے باعث ان اشیاء سے اس کی مشیت متعلق ہوتی رہتی ہے اس نے یہ حکم نہیں دیا کہ کسی سوئے ہوئے بےگناہ کا سر قلم کردو لیکن اس کے اذن کے بغیر نہ سر کٹتا ہے اور نہ موت آتی ہے۔ اسی طرح انبیاء کرام اور اللہ کے نیک بندوں کو اذیت دینا اور انہیں قتل کرنا اسی کی مشیت سے وقوع پذیر ہوتا ہے لیکن اس نے نہ کبھی اس کا حکم دیا ہے نہ وہ ایسے جرائم سے خوش ہوتا ہے۔ اس اذن و مشیت میں وہ مصلحتیں اور اسرار ہوتے ہیں جن کو زبان قلم بیان کرنے سے قاصر ہے اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس قادر مطلق نے جو قانون قدرت بنائے ہیں ان کے خلاف ممکن نہیں اور وہ ایسا رب ہے کہ اپنے قانون کا نہ خلاف کرتا ہے اور نہ ہی ہونے دیتا ہے اور یہی اس کے قادر ہونے کی اصل دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے حق نے یہاں باذن اللہ کے معنی تقدیر الٰہی اور قضا و قدر کے لئے ہیں۔ سحر کیا ہے ؟ کفر ہے ، حرام کاری ہے ، مکر و فریب ہے : 197 : سحر کا اصلی معنی ہے کسی چیز کی حقیقت کو بدل دینا گویا جب ساحر جھوٹ کو سچ کر کے دکھاتا ہے یا چیز اپنی حقیقت کے خلاف نظر آتی ہے تو گویا اس نے یعنی سحر کرنے والے نے اس شے کی حقیقت کو اس طرح دکھایا کہ وہ بالکل بدل گئی یا مختلف نظر آنے لگی۔ آپ نے کبھی دیکھا ہوگا کہ مداری کیا کرتا ہے ؟ کبھی ایک چیز کو دو ، تین ، چار بنادیتا ہے کبھی کوئی چیز موجود دکھائی نہیں دیتی اور پھر وہاں دکھائی دینے لگتی ہے۔ کبھی روپے اور پیسے اور انگوٹھیاں بنتی نظر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فی الحقیقت وہ ایک چیز دو تین چار بنا لیتا ہے ہرگز نہیں صرف دیکھنے والے کو ایسا نظر آتا ہے اس کو سب لوگ سحر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ خود بھی ان چیزوں کو جادو ہی کے نام سے بلاتا ہے اور یاد کرتا ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں ہوتی صرف وہ اپنے ہاتھ کی صفائی دکھاتا ہے ایک کام و فعل کو اس انداز میں کرتا ہے کہ وہ کرتا کچھ ہے اور دکھائی کچھ دیتا ہے۔ کبھی آپ نے شعلہ جوالہ پر نظر کی ہوگی ایک باریک چھڑی کے ایک سرا کو آگ لگا کر چھڑی کو دونوں ہاتھوں میں گھما کر دیکھا ہوگا کہ خصوصاً رات کے اندھیرے میں آپ کو نظر آئے گا گویا ایک آگ کا دائرہ قائم ہوگیا ہے۔ کیا فی الواقع وہاں کوئی دائرہ موجودہ ہوتا ہے ؟ نہیں۔ پھر دکھائی کیوں دیتا ہے ؟ اس لئے کہ اس چھڑی کو گھمانے سے دائرہ قائم ہوجاتا ہے۔ بس اس سے سمجھ لو کہ دائرہ بھی نہیں ہوتا اور نظر بھی آتا ہے سحر یہی ہے کہ ہوتا بھی کچھ نہیں لیکن کچھ ہوتا نظر بھی آتا ہے۔ انسان کے اندر ہرچیز کی صلاحیت موجود ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اس کے خمیر میں ایسی قوتیں و دیعت کردی گئی ہیں جو اس طرح موجود ہوتی ہیں کہ نظر تو نہیں آتیں لیکن ان کے اثر ہی سے ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر قوت و ہمہ موجود ہے۔ اسی قوت کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ انسان دنیا میں ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے جو نئی نئی ایجاد ہوتی ہیں سب اسی قوت کے زیر اثر ہیں پھر ہر انسان میں یہ قوت تو موجود ہوتی ہے لیکن کسی نے اس سے کام لے کر ایک چیز کو ایجاد کیا اور کسی کی وہ قوت بیدار ہی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کوئی نئی ایجاد دیکھتا ہے تو تعجب کرتا ہے مگر اس کا اس طرح ہونا اس کی سمجھ میں نہیں آتا جو موجد ہے وہ جانتا ہے کہ یہ کس طرح ایجاد ہوئی ہے لیکن جس کو معلوم نہیں وہ حیران و ششدر رہ رہ کر اپنے حال میں اس کا ہونا معلوم کرلیتا ہے ، اور بار بار اس طرح ہونے سے اس کا تعجب اگرچہ جاتا رہتا ہے لیکن دراصل اس کو اس کے ہونے کی تفہیم اب بھی نہیں ہوتی۔ جادو گر اپنے مکر و فریب اور دھوکہ سے دوسروں کی قوت و ہمہ کو تسخیر کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر جس کی قوت و ہمہ جتنی کمزور ہوگی اتناہی اس سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے اور اپنے مکر و فریب اور کفر و دھوکہ دہی کو ” کالا علم “ ” جادو “ اور ” سحر “ کے نام سے تعبیر کرتا ہے اسی طرح کبھی اس کا نام ” سحر سلیمانی “ ” نقش سلیمانی “ ” بنگال کا جادو “ ” کالا علم “ ” جنات کا علم “ اور کبھی ” جنات کی پکڑ “ اور ” سایہ “ جیسے ناموں سے معروف کیا جاتا ہے۔ علمائے یہود نامسعود اپنے کفر و فسق کے باعث اس میں مبتلا تھے لیکن بد قسمتی سے آج یہی حال ہمارے عالموں ، صوفیوں اور قاریوں کا ہے یہود کی پیروی میں انہوں نے بھی اپنی کتاب قرآن کریم کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا ہے اور اب تعویذوں اور گنڈوں پر زور ہے۔ یہی ان کی آمدنی کے ذرائع ہیں اور انہیں سے اپنی عزت و منزلت جہلاء کے دلوں میں قائم کئے ہوئے ہیں بعض ارباب علم و فضل نے تو تمام قرآن کریم ہی کو تعویذات کا مجموعہ بنادیا ہے اور اعمال قرآنی کے نام سے کتابیں شائع کر کے اپنے زعم باطل میں تحقیقات کا جدید باب مفتوح کردیا ہے۔ پھر جن مولویوں ، صوفیوں ، پیروں اور قاریوں کا ذریعہ معاش صرف تعویذات رہ گئے ہیں وہ اللہ کے نام پر کہاں اپنے آپ کو قربان کرسکتے ہیں وہ تو دنیا میں کاہلی اور سستی کے نمونے ہیں۔ کاش وہ اس فریب خوردہ زندگی کو ترک کر کے تبلیغ دعوت اسلام اور قرآن کو اپنا مقصد حیات بناتے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار اور لعنت کہ انہوں نے یہود کی نقالی میں دین اسلام کو برباد کرنے کی کوشش کی اللہ نے ان کی آخرت برباد کی اور دنیا میں بھی وہ اللہ کے نیک بندوں کی نگاہوں میں ذلیل و خواہ ٹھہرے۔ زیر نظر آیت کی تفسیر میں ہاروت و ماروت کو فرشتے قرار دے کر جس طرح سحر و جادو کی تعلیم کا ذمہ دار ان کو ٹھہرایا گیا ہے اور جس طرح ان کو بےحیائی اور بدکاری کا مرتکب قرار دیا گیا ہے وہ سب فرضی قِصّہ ہے جس کا تعلق یہودیت سے ہے اسلام ایسے نظریات سے بالکل پاک ہے۔ ہاں ! مفسرین اسلام میں سے جن لوگوں نے ایسی واہی تباہی کی روایات کو اپنی تفسیروں میں جگہ دی ہے ان کا مقصد دراصل اسرائیلیات سے روشناس کرانا ہے اور کچھ نہیں۔ ہم بھی یہاں مشتے از خروارے کچھ تحریر کرتے ہیں تاکہ قارئین کو سحر و جادو کی اصلیت معلوم ہوجائے اور وہ ایسی چیزوں کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں بلکہ نکال پھینکنے کی کوشش کریں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ سحر یا جادو اسلام کی نظر میں نہ صرف مشرقی دنیا میں بلکہ مغربی دنیا میں بھی جادو کا عقیدہ مدت تک باقی رہا اور ہنوز موجود ہے کسی نے اس سے انکار نہیں کیا بلکہ یورپ بالخصوص لندن میں تو وہ داخل قانون ہوگیا تھا۔ اس جادو کے عقیدہ نے بےگناہوں پر ظلم کئے ہیں ، گھروں کو برباد کیا ہے اور قوموں کی قومیں اس ظالم عقیدہ کی لپیٹ میں آکر صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں تورات و انجیل کے صفحات نے اس کی کہیں تردید نہیں کی اور اگر کی تھی تو ان علماء سوء نے اس کو بدل دیا ہے کیونکہ آج ان کتب آسمانی میں اس کی تردید نظر نہیں آتی۔ مگر پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے صرف اس وہمی علم کی بلکہ اس شخص کی جو جادو جاننے کا معترف ہو سخت تضحیک کی ہے اور اس کو صرف حقیر ہی نہیں بلکہ کافر و فاسق جانا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر سحر یعنی جادو کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر ان مقامات کو غور سے پڑھنے والا آج بھی سمجھ سکتا ہے کہ درحقیقت جادو کوئی چیز نہیں اور جو لوگ اس وہمی علم پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ مرتبہ انسانیت سے بھی خارج ہیں قرآن کریم میں ایسے لوگوں پر افسوس کیا گیا ہے جو جادو اور اسکے وہمی اثرات کو مانتے ہیں اور ہر ایسی شے کو جو انکی سمجھ میں نہ آجائے جادو کے نام سے تعبیر کرتے ہیں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ کفار ہمارے نبی کریم ﷺ کو جادو گر کہتے تھے اور قرآن کریم کو جادو سے تعبیر کرتے تھے۔ ایسے لوگ ازلی گمراہ تھے جو جادو کی ایک ہستی قائم کر کے انتخاب کائنات کی نسبت یہ ہرزہ درائی کرتے تھے۔ ہم قرآن کریم کی ان آیتوں پر جن میں جادو کا بیان ہے مضمون کے اخیر حصہ میں بیان کریں گے اور ان کی حقیقت بتائیں گے۔ پہلے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کا سحر کی نسبت کیا خیال ہے اور وہ اسے کیا سمجھتے ہیں ؟ ہمیں معلوم ہے کہ جادو کو برحق سمجھنا بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے ہمارے عقائد میں بھی داخل ہوگیا ہے تاہم ہمیں اس کی گہری تحقیق کرنی چائیے اور بتانا چاہیے کہ قرآن کریم اس کی نسبت کیا رائے دیتا ہے اور علمائے وقت کیا فرماتے ہیں ؟ سحر کی ابتداء اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں جن شیاطین اور آدمی مل جل کر رہتے تھے۔ شیاطین یا جنوں نے حضرت سلیمان کی امت کو ارواح خبیثہ کی پرستش کے طریقے اور ان پر قبضہ پانے کے قاعدے بتانے شروع کئے۔ اس تعلیم سے اللہ کی پرستش میں فرق آنے لگا جب سلیمان کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے وزیر آصف بن برخیا کو حکم دیا کہ کل طرق اور قوائد ارواح پرستی کو تم ایک کتاب میں قلم بند کرو۔ فوراً حکم کی تعمیل کی گئی اور ان اسماء کی ایک کتاب بن کر تیار ہوگئی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کتاب کو اپنی کرسی کے نیچے جس پر آپ بیٹھا کرتے دفن کردیا۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ پھر ارواح پرستی کا علم مٹ گیا۔ جب تک سلیمان (علیہ السلام) زندہ رہے یہی کیفیت رہی۔ مگر جب آپ کی وفات ہوگئی اور آپ کا وزیر آصف بن برخیا بھی رحلت کر گیا تو جنوں اور شیطانوں نے عجیب چالاکی کی یعنی لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ سلیمان نے جادو کے زور سے یہ کُل حکومت کی تھی اور اسی سحر کی وجہ سے وحشی جِنّ ، شیاطین سب ان کے مطیع ہوگئے تھے وہ ان جادو وؤں کی کتاب کو اپنی کرسی کے نیچے دفن کرگئے ہیں اگر وہاں سے کھود کر نکال لی جائے تو تمام جادو بآسانی آسکتے ہیں اور ہر شخص سلیمان کی طرح تمام عالم کی مخلوق پر قبضہ رکھ سکتا ہے۔ شیاطین اور اجنہ کے اس اغوا میں آ کے لوگوں نے کرسی کے پایہ والے مقام کو کھود ڈالا اور اس میں سے وہ کتاب نکال لی اور جو جادو کے اسم اس میں تحریر تھے سب پڑھنے شروع کردیئے۔ ان سے عجائب وغرائب چیزوں کا ظہور ہوا۔ الہامی کتابوں کو لوگوں نے مطلق دیکھنا چھوڑ دیا ، اور ہر شخص سحر کی کتاب ازبر کرنے کی فکر میں لگ گیا۔ ان کی تمام ہمت افسوں گری اور جادو ٹونے میں صرف ہونے لگی۔ تمام وہ خیالات جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) خدا پرستی کی بابت ان میں رائج کرگئے تھے۔ بتدریج نسیاً منسیاً ہوگئے۔ ہر قسم کے افسوں ان کے معبود بن گئے اور وہ ان ہی فاسد خیالات کی پرستش کرنے لگے۔ جب اجنہ اور شیاطین نے دیکھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی امت پوری گمراہ ہوگئی اور اب وہ بھولے سے بھی رب ذوالجلال کا نام نہیں لیتی وہ رفتہ رفتہ گم ہونے شروع ہوئے اور اخیر لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہوگئے۔ اس وجہ سے یہودیوں کے دین کو بہت سخت صدمہ پہنچا۔ کتاب اللہ سے اعراض کرنے سے ان کے روحانی امراض بڑھنے لگے۔ بتوں اور ارواح خبیثہ اور اسلاف شیاطین کے ورد نے انہیں دین و دنیا کا نہ رکھا۔ وہ ان روحوں اور بتوں پر نذریں اور قربانیاں چڑھانے لگے اور ان کی پرستش کرنے لگے یہی گویا کفر کی پہلی سیڑھی تھی۔ دوسرا کفر ان کا یہ تھا وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سوء ظن کرنے لگے اور انہیں یقین ہوگیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی بت پرستی کرتے تھے اور ان کا پختہ عقیدہ ہوگیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بہت بڑے جادو گر تھے ۔ یہ ان کے کفر کا دوسرا درجہ تھا۔ ابن جریر نے شہر بن حوشب سے روایت کیا ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ محمد کو دیکھو کہ وہ صادقوں کے ساتھ کاذب کو بھی ملاتا ہے حالانکہ سلیمان بت پرست اور جادو گر تھا اسے یہ معصوم پیغمبروں کی فہرست میں رکھتا ہے۔ وہ ایسا جادو گر تھا کہ اپنے جادو کے زور سے ہوا کا گھوڑا بنا کہ اس پر سوار ہوتا تھا۔ جب یہودیوں نے اس طرح کا شورو غل مچایا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فوراً اس کی تردید فرما دی اور فرمایا کہ : وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ ، یعنی سلیمان نے ہرگز کبھی کفر نہیں کیا۔ اگر کوئی پیغمبر ایسا کرے تو وہ بھی کفر سے نہیں بچ سکتا۔ بھلا معصوم پیغمبروں کو سحر و افسوس گری اور بتوں پر نذر قربانی چڑھانے سے کیا تعلق ہے ؟ چونکہ یہودیوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ذات پر بہتان عظیم اٹھایا تھا۔ اس لئے وہ کافر مطلق ہوگئے اور ان کے کفر میں ذرا برابر بھی شبہ نہ رہا۔ وہ اسی وجہ سے سحر کی تعلیم کرنے لگے جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ : یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ 1ۗ، یعنی وہ لوگوں کو اعمال سحر کی تعلیم کرتے تھے ان کے افتراء اور دروغ سے لوگوں نے دھوکا کھا کے جادو اور افسوس گری میں اپنے کو متوجہ کرلیا ۔ عام طور پر پورا یقین ہوگیا تھا کہ در حقیقت سحر بذات خود کوئی بری چیز نہیں کیونکہ جب پیغمبروں نے اس سے چشم پوشی نہیں کی بلکہ اپنی کامیابی کا اسے بہت بڑا آلہ بنایا پھر اس کا سیکھنا کسی طرح بھی برا نہیں ہو سکتا۔ وہ جادو کے سیکھنے میں بتوں کی تعظیم کرتے تھے ۔ جو رب العزت کی شایاں شان تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان ارواح خبیثہ کو غیب دانی میں بہت بڑی دسترس حاصل ہے ۔ وہ مشکل کشائی میں ید طولیٰ رکھتی ہیں۔ اگر انہیں مسخر کرلیا جائے تو دین و دنیا کی ہرچیز با سانی حاصل ہو سکتی ہے۔ علمائے اسلام تحریر فرماتے ہیں کہ اس قسم کے سحر جس میں غیر اللہ کی قربانی کی جائے ۔ اور اح کو عالم غیب اور مشکل کشا سمجھ جائے یا بتوں کو سجدہ کیا جائے یہ بہت بڑا کفر ہے اگر کوئی مسلمان ایسا کرے تو وہ مرتد ہے اور اس پر فتویٰ ارتداد جاری کیا جائے ساتھ ہی اس کو توبہ کی بھی مہلت دی گئی ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ اگر مرد ہے تو اسے تین دن کی مہلت دینی چاہئے تاکہ وہ توبہ کرے اور ایسے قول و فعل پر لعنت کرے اور اگر تین دن تک وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردینا چاہئے اور اس کا جنازہ نہ کرنا چاہئے اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہ کیا جائے نہ مسلمان اس کو ہاتھ لگائیں اور اگر کوئی عورت ہے اور اس نے ایسا کیا ہے تو امام شافعی (رح) کی رائے یہ ہے کہ مرد کی طرح تین دن کی مہلت اس کو بھی دینی چاہئے اگر تین دن میں وہ باز آگئی اور اس نے توبہ کرلی تو خیر ، نہ توبہ کی تو اسے بھی قتل کردینا چاہئے اور جو مرد کے جنازے کے ساتھ سلوک ہوا ہے وہی اس کے ساتھ بھی ہونا چاہئے مگر امام ابوحنیفہ (رح) کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کردینا چاہئے تا آنکہ وہ توبہ کرلے۔ سحر و جادو کی کہانیاں اور داستانیں لمبی ہیں کہ ان کا بیان کرنا بیکار بھی ہے اور ناجائز بھی۔ مؤرخین کے بیان کے مطابق اس پر کئی دور آئے ہیں جن ادوار میں اس کو بہت ترقی ہوئی ہے مثلاً نمرود کے زمانہ میں جو بابل کا بادشاہ تھا اس شعبدہ بازی نے بہت ترقی کی ان لوگوں نے چھ طلسم بنائے تھے جو ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے ۔ سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعدشیاطین جن و انس نے اس میں بہت کچھ اضافے کئے اور سب سے مشہور دور وہ آیا جو ہاروت و ماروت کا دور شمار کیا جاتا ہے۔ قِصّہ ہاروتؔ و ماروتؔ اس قِصّہ کی جتنی روایات ہیں سب غیر معتبر اور واہی تباہی کی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے اس جگہ اس کا ذکر کرنا اس لئے ضرروری سمجھا گیا ہے کہ آج بھی بد قسمتی سے ہاروت و ماروت کا فرشتے بتایا جاتا اور پھر ان کے جادو کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں جن سے عوام کا ذہن پختہ ہوتا ہے اور اس طرح بدطینت اور خبیث قسم کے لوگ اپنی خباثت سے لوگوں کو متاثر کر کے اپنی دکاندای کو خوب چمکائے بیٹھے ہیں۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کی اصلاح ہو۔ اس قِصّہ کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ہاروت و ماروت دو فرشتے تھے اور وہ دونوں ہی زبردست قسم کے جادو گر تھے ان کی عدیم المثال جادو گری اور اس کی بےنظیر قوت کا بیان کچھ اس طرح ہے کہ ایک عورت قبیلہ دو مۃ الجندل میں سے رسول کریم ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کی تلاش میں آئی اور کہنے لگی کہ مجھے نبی کریم ﷺ کا پتہ بتاؤ میں کچھ دریافت کرنا چاہتی ہوں۔ جب اس کو بتایا گیا کہ نبی کریم ﷺ تو وفات پاگئے تو وہ بہت پریشان ہوئی اور افسوس کیا آخر کار اس سے پوچھا گیا کہ تجھ کو کیا پوچھنا ہے تو بیان کیا کہ میرا خداوند مجھ سے بہت بد سلوکی کیا کرتا تھا اور کم بخت نے صلح کی طرف میل نہ کی میں اس جان کنی میں ہر وقت سولی پر رہتی تھی کہ ایک دن ایک بڑھیا میرے مکان پر آئی میں نے اپنی مصیبت اس سے بھی دہرائی اور اپنا افسوسناک حال کہا اس نے جواب دیا کہ بیٹی یہ کوئی بڑی بات نہیں ، جو کچھ میں کہوں اگر تو کرے تو تیرا شوہر تیرا غلام بن جائے گا اگر تو بیٹھتے جوتی اور اٹھتے لات مارے گی تو وہ اف تک نہیں کرے گا میں نے جواب دیا کہ میری جان سخت عذاب میں ہے بڑی بی ، میرا خاوند میرا مطیع ہوجائے گا۔ تو جو کچھ تم بتاو گی میں کرنے کو تیار ہوں ۔ مختصر یہ کہ جب اخیر شب ہوئی تو وہ بڑھیا میرے پاس آئی اور اپنے ساتھ دو کالے کتے لائی ایک کتے پر آپ سوار ہوئی اور دوسرے پر مجھے سوار کیا ۔ ہم دونوں روانہ ہوئیں ادھر گھر سے نکلے تھے ادھر شہر بابل میں پہنچ گئے۔ میں نے وہاں جا کر دیکھا کہ وہاں دو مرد الٹے لٹکے ہوئے ہیں انہوں نے میری صورت دیکھتے ہی کہا کہ تو یہاں کیوں آئی ؟ بڑھیا کے اشارہ سے میں نے جواب دیا کہ جادو سیکھنے آئی ہوں۔ وہ دونوں بیک زبان بولے کہ جادو کفر ہے اور جو اسے سیکھتا ہے کافر ہوجاتا ہے جا اپنے گھر جا اور اپنے کام کر ۔ میں نے کہا کے میں تو بغیر جادو سیکھے یہاں سے نہیں جاؤں گی بلکہ یہیں مروں گی وہ جوں جوں مجھے منع کرتے تھے میں اسی قدر اصرار کرتی رہی۔ جب بہت کچھ اصرار ہوچکا اور میں نے بہت الحاح وزاری کرلی تو انہوں نے مجھے کہا کہ اٹھ اور اس تنور کے قریب جا کر اس پر پیشاب کر دے۔ جب میں اس تنور کے پاس پہنچی تو مجھے بہت خوف آیا اور میں وہاں سے بغیر پیشاب کئے واپس آگئی اور ان سے کہا کہ میں پیشاب کر آئی انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ تو نے وہاں پر کیا دیکھا تھا ؟ میں نے انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ تو جھوٹ بولتی ہے تو نے پیشاب نہیں کیا۔ بس ابھی تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تو یہاں سے چلی جا تاکہ تو کافر نہ ہوجائے ، میں نے پھرجانے سے انکار کیا انہوں نے کہا کہ تو نہیں مانتی ضد کرتی ہے تو جا ذرا اس تنور میں پیشاب کر آ ، میں پھر دل کو مضبوط کر کے گئی پھر خوف و ہراس طاری ہوا بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور دل گھبرانے لگا میں اسی طرح واپس آئی انہوں نے مجھ سے کہا کہ تو واپس چلی جا اور کفر مت کر لیکن میں نے بھی دوبارہ اور سہ بارہ ایسے ہی واپس گھر لوٹ آنے سے انکار کیا۔ لیکن جب تیسری بار وہاں پہنچی تو ہمت کر کے میں نے وہاں پیشاب کر ہی دیا۔ پیشاب کرتے ہی میں نے ایک گھوڑ سوار کو وہاں سے نکلتے دیکھا جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھا۔ سر پر خود ِفولادی ، بدن میں زرہ اور سینہ پر چار آئینہ لگائے ہوئے اس سج دھج سے نکلا کہ میرا دل دہل گیا وہ تنور سے نکلتے ہی آسمان کی طرف اڑتا چلا گیا اور میری نظر سے غائب ہوگیا۔ میں ان کے پاس گئی اور سوار کا حال بیان کیا انہوں نے کہا کہ اب تو سچ کہتی ہے وہ سوار تیرا ایمان تھا جو تجھ سے نکل کر آسمان پر چلا گیا۔ بس اب تو جادو کے فن میں کامل ہوگئی۔ میں نے اپنی رفیقہ بڑھیا سے کہا کہ میں تو جادو سیکھنے آئی تھی لیکن ابھی تک تو کچھ بھی نہیں سیکھا اور واپس چلی جاؤں تو آنے کا فائدہ ؟ اس بڑھیا نے کہا تیرا خیال غلط ہے تو نے ہرچیز سیکھ لی اب جو تو چاہے گی وہ ہوگا۔ میں نے کہا میں کیونکر یقین کروں ؟ اس نے کہا کہ تو ایک دانہ گیہوں کا زمین میں ڈال اور کہہ کہ اے دانے اُگ آ۔ چناچہ میں نے ایسا ہی کیا وہ دانہ فوراً اگ گیا۔ میں نے کہا بڑا ہو تو وہ بڑا ہوگیا میں نے کہا خوشہ لا وہ خوشہ لے آیا۔ میں نے کہا خشک ہوجا وہ خشک ہوگیا جو میں نے ہر طرح آزما لیا اور میں پوری اتری تو اب ایمان کے خیال سے میری آنکھیں کھلیں۔ میں سخت نادم ہوئی اور مجھے ایمان جانے کا بہت افسوس ہوا ۔ میں نبی کریم ﷺ کے پاس اس لئے آئی تھی کہ میرے درد دل کا کچھ علاج ہو اور میرا گیا ہوا ایمان واپس آجائے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ تو نے اس کے بعد کسی کو اپنے جادو سے تکلیف دی ہے میں نے حلفاً بیان کیا کہ میں نے آج تک کسی کو کوئی دکھ نہیں دیا اور نہ ہی دو بار اپنا جادو کسی پر آزما کر دیکھا ہے۔ مجھے مختلف صحابہ کے پاس بھیجا گیا مگر کسی صحابی نے مجھے اس کا کوئی علاج نہ بتایا۔ آخر کار مجھے عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس جانے کا کہا گیا انہوں نے بھی ساری داستان سنی اور میری اپیل پر غور کیا اور کہنے لگے کہ اب یہ بتا کہ تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے۔ میں نے کہا ہاں ! فرمایا جا ان کی خدمت میں لگ جا تیرا ایمان واپس لوٹ آئے گا۔ اور ہاروت و ماروت کے متعلق یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ جب حضرت ادریس (علیہ السلام) کے زمانہ میں لوگوں کے اعمال بد نے آسمانوں پر پرواز کی تو فرشتوں میں بحث و مباحثہ اور قیل و قال شروع ہوئی اور انہوں نے بنی آدم کی سخت تحقیر کی اور صرف توہین آمیز کلمات ہی نہیں کہے بلکہ ان پر لعن طعن کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ تم بنی آدم پر اس قدر لعن طعن کیوں کرتے ہو اور ان پر کیوں اس قدر خفا ہو چونکہ ہم نے ان میں غضب اور خواہش نفسانی کو ملا دیا ہے اس لئے ان سے یہ افعال سرزد ہوتے ہیں اگر میں تمہیں بھی زمین میں نازل کروں اور تم میں بھی غضب اور خواہش نفسانی کی ترکیب کردوں تو تم سے بھی ایسے ہی گناہ سرزد ہونے لگیں فرشتوں نے عرض کیا اے پروردگار ! اگر ہماری سرشت میں غضب اور خواہش نفسانی کی آمیزش بھی ہوجائے۔ جب بھی ہم کبھی ایسے کبیرہ گناہوں کے مرتکب نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے گروہ میں سے دو فرشتوں کو منتخب کرلو تاکہ انہیں زمین پر بھیجا جائے اور پھر تم حقیقت کھل جائے گی۔ فرشتوں نے اپنے گروہ پر نظر دوڑائی تو ہاروت و ماروت سے بہت عبادت گزار اور ہر وقت تسبیح و بندگی میں غرق کسی کو نہ پایا۔ اخیر سب نے متفق ہو کر ان دو فرشتوں کو منتخب کیا اور اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی سرشت میں غضب و خواہش نفسانی کا مادہ ملا دیا اور دنیا میں انہیں بھیجا تاکہ وہ لوگوں پر جا کے حکومت کریں اور انہیں آپس میں لڑنے جھگڑ نے نہ دیں۔ قتل و غارت کو موقوف کردیں اور عدل و انصاف کی چاشنی ان کو چکھائیں۔ فرائض عبودیت کی پوری پوری تعلیم کریں اور ساتھ ہی یہ بھی رعایت کی گئی کہ وہ دن بھر تو اپنے مقررہ فرائض کی انجام دہی کرتے رہیں اور شام کو آسمان پر اُڑ کر چلے آئیں۔ اس کیلئے انہیں اسم اعظم سکھا دیا گیا کہ ادھر انہوں نے اسم اعظم پڑھا اور وہ آسمان پر اڑ کر چلے گئے۔ مہینہ بھر تو وہ یوں ہی آتے جاتے رہے اور انہوں نے ربانی فرائض کی حسب خواہش انجام دہی کی۔ ان کی شہرت بھی شہر میں بہت ہوگئی کہ دو شخص آسمان سے اترتے ہیں اور فلاں موضع میں رہتے ہیں نہایت نیک دل ہیں جو کچھ کہتے ہیں ہوجاتا ہے اور جو بات بتاتے ہیں وہ بالکل ٹھیک اسی طرح ہوجاتی ہے اور وہ مقدمات و خصومات کا فیصلہ بھی بالکل صحیح اور حق کے مطابق کرتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ایک عورت زہرہ نامی ان کے پاس آئی۔ یہ عورت جس قدر خوبصورت تھی اس قدر عمدہ لباس بھی پہنے ہوئے تھے۔ اس کا خاوند اس پر بہت زیادتی کرتا تھا۔ اس نے ان دونوں فرشتوں سے داد خواہی کی ، یہ عورت ایرانی تھی۔ اس نے آکر ان سے کہا کہ مجھے اسم اعظم سیکھنے کا شوق ہے اور اسی لئے میں آپ صاحبوں کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ اگر مجھے اسم اعظم آجائے گا تو اس مصیبت سے رہائی پانے کی کوئی سبیل نکل آئے گی۔ ہاروت و ماروت نے جوں ہی اس کی صورت پر نظر کی دل ہاتھ سے دے بیٹھے اور اس پر فریفتہ ہوگئے تمام وعدے و عید جو اپنے خالق سے کئے تھے دل سے محو ہوگئے ان کی بالکل یہی کیفیت ہوگئی۔ ؎ نہ تنہا در دہش بازم دل و دیں ۔ خدائے جان شیریں جان شیریں ہوش و حواس درست نہ رہے محبت کی آگ دل میں بھڑکی اور اسی بےخودی میں وصل کی درخواست کی۔ اس عورت نے کہا یہ ہونا ایک محال امر ہے کیونکہ میرے اور تمہارے مذہب میں فرق ہے۔ میرا شوہر بہت بڑا باغیرت ہے اگر اسے اشارۃً بھی یہ معلوم ہوگیا کہ میرا اور آپ کا کوئی تعلق ہے تو وہ مجھے قتل کردے گا۔ ہاں ! اس کی ایک ترکیب ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اول تو تم میرے معبود کو سجدہ کرو۔ پھر میرے خاوند کو قتل کر ڈالو تو میں تمہاری ہوجاؤں گی۔ یہ سنتے ہی ہاروت و ماروت نے کہا معاذ اللہ ! ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ سوائے اللہ کے ہم کسی کو سجدہ کریں اور اس طرح بلاوجہ کسی شخص کو قتل کریں۔ ہم سے یہ کبھی نہیں ہوسکے گا۔ توبہ توبہ ان باتوں کا ہمارے سامنے نام بھی نہ لیجیو۔ زہرہ یہ سن کر اٹھ بیٹھی اور چلتے چلتے یہ کہہ گئی کہ اگر یہ منظور نہیں ہے تو پھر میرا وصل بھی ممکن نہیں۔ ہاروت و ماروت نے انکار کرنے سے تو کردیا مگر ان کے دل میں محبت کی آگ بھڑک چکی تھی اور اس کی لپٹیں زیادہ ہوتی جاتی تھیں۔ ان کی زہرہؔ کے چلے جانے سے بالکل یہی حالت ہوگئی تھی۔ زدیدہ رفتی و مردم ہاں نفس فریاد کہ بےتو مردم و انگاہ چنیں بہ آسانی کسے کہ تشنہ لب ناز ست می داند کہ موج آب حیات است چین پیشانی نہشت غمزہ اسلام دشمنت کہ دو روز محبت تو کنم جمع با مسلمانی جب بیتابی و پریشانی بڑھی تو دوسرے دن زہرہ کو پیغام بھیجا کہ ہم آج تیرے ہاں مہمان رہنا چاہتے ہیں۔ اگر تو قبول کرے گی تو ہماری اس میں بہت شرف افزائی ہے۔ زہرہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ بسر و چشم تشریف لائیے آپ ہی کا گھر ہے۔ غرض یہ دونوں وقت مقررہ پر وہاں پہنچے۔ زہرہ نے پہلے ہی سے مکان کی آراستگی کر رکھی تھی۔ خود بھی خوب بن سنور کر آراستہ ہوگئی تھی۔ شراب کے شیشے بھی تیار تھے کہ ہاروت و ماروت پہنچے زہرہ نے بڑی خاطر کی اس کی زبان حال سے یہ بےساختہ نکل رہا تھا۔ ؎ وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے ۔ کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں پہلے سے بھی زیادہ اس کا حسن و جمال ان کے دل میں کھب گیا اور ایک غیر معمولی جوش اٹھا جس سے ان کی خواہش وصل کا اظہار ہوگیا۔ زہرہ نے کہا سنو ! صاحب بات یہ ہے کہ اگر آپ میرا وصل چاہتے ہیں تو میں چار شرطیں پیش کرتی ہوں ان میں سے کسی ایک پر اگر آپ عمل کرلیں گے تو میں آپ کی ہوجاؤں گی۔ ہاروت و ماروت نے پر جوش اور پر شوق لہجہ میں دریافت کیا : ” سرت گردیم و قربانت شویم “ فرمائیے۔ اس نے کہا ایک شرط تو یہ ہے کہ میرے بت کو سجدہ کرو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ میرے خاوند کو مار ڈالو۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو میرے ہاتھ سے جام شراب پی لو۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو مجھے اسم اعظم سکھا دو ۔ یہ چاروں شرطیں پیش کردی ہیں اب آپ کو اختیار ہے کہ ان میں سے جس شرط پر آپ آسانی سے عمل در آمد کرسکیں کرلیں میں حاضر ہوں۔ ہاروت و ماروت نے باہم مشورہ کیا کہ سجدہ کرنا اللہ کے سوا دوسرے کو کفر ہے قتل کرنا بھی جرم عظیم ہے جو کبھی معاف نہیں ہوسکتا۔ اسم اعظم بھی نہیں بتا سکتے کیونکہ گویا اللہ کا راز ہے۔ ہاں ! شراپ پی لینا کچھ بڑا بھاری گناہ نہیں ہے۔ باہم اس امر کا فیصلہ کر کے انہوں نے شراپ پی اور پی بھی اس قدر کہ بدمست ہوگئے۔ اس بدمستی میں زہرہ کے بت کو سجدہ بھی کیا۔ اس کے خاوند کو قتل بھی کیا اور اسے اسم اعظم بھی بتادیا بعض روایتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ جونہی زہرہ کو اسم اعظم کی تعلیم ہوئی اس کی روح نے آسمان کی طرف صعود کیا اور اللہ کے حکم سے وہ روح سیارہ زہرہ کی روح کے ساتھ مل گئی جو اب تک آسمان پر چمکتی ہے ادھر جب ہاروت و ماروت کو ہوش آیا تو اپنے کو اسم اعظم اور تجلیات ربانیہ سے خالی پایا۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے گئے دونوں جہان کے کام سے ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے خالق ارض و سماء نے فوراً فرشتوں کی طرف خطاب کر کے ہاروت و ماروت کے حال کی طرف ان کی توجہ دلائی ، اور ارشاد باری ہوا کہ یہ دونوں فرشتے باوجودیکہ میری تجلیات سے منور تھے اور شب بھرا نہیں آسمان پر رکھا جاتا تھا تاکہ میرے نور کے قریب رہیں۔ دیکھو تو کہ اس عنایت پر بھی یہ کیسی شرمناک معصیت میں گرفتار ہوئے۔ بیچارے بنی آدم کو یہ تجلیات اور حضوری کہاں اگر وہ گرفتار معصیت ہوں تو زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے فرشتوں نے اپنی خطا کا اقرار کیا اور اہل زمین کے لئے دعائے مغفرت کرنے لگے جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ۠ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ 1ؕ ۔ اب ہاروت و ماروت کی حالت سخت پشیمانی میں زبوں ترین ہوتی گئی۔ اخیر وہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنی پوری کیفیت بیان کیا اور کہا کہ آپ ہماری شفاعت اللہ تعالیٰ کے پاس کریں تاکہ ہمارا قصور معاف ہو اور ہم اپنے اصلی جائے قیام پر چلے جائیں۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے فرمایا ٹھہرو جمعہ آنے دو میں تمہاری بات رب العرش کے حضور عرض کروں گا۔ دوسرے دن ہفتہ کو یہ دونوں حضرت ادریس (علیہ السلام) کے پاس آئے انہوں نے کہا میں نے تمہاری سفارش کی تھی قبول نہیں ہوئی۔ اب کے جمعہ کو پھر دریافت کروں گا ۔ چناچہ دوسرے جمعہ کو دریافت کیا گیا تو یہ جواب ملا کہ ہاروت و ماروت سے دریافت کیا جائے کہ دنیا کا عذاب چاہتے ہو یا آخرت کا اگر وہ دنیا کا عذاب چاہیں تو انہیں دنیا کا عذاب دیا جائے اور جو آخرت کا عذاب چاہیں تو آخرت کا ہو حضرت ادریس (علیہ السلام) نے یہی فرمادیا۔ ہاروت و ماروت نے باہم مشورہ کیا کہ عذاب دنیا فانی ہے اور عذاب ِآخرت باقی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ہم عذاب ِدنیا کو اختیار کریں۔ مشورہ کے بعد انہوں نے اپنی مرضی ظاہر کردی کہ ہم عذاب ِدنیا چاہتے ہیں۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نے بارگاہ عالی میں یہی عرض کردیا۔ فوراً فرشتوں کو حکم ہوا کہ لوہے کی آتشیں زنجیریں لے کے جاؤ اور ان کا بند بند جکڑ کر کنوئیں میں اوندھا لٹکا دو ، اور اس کنوئیں میں تیز آگ برابر بھڑکتی رہے اور باری باری ایک فرشتہ ہر وقت موجود رہے جو آتشیں کوڑوں سے شب و روز انہیں مارتا رہے جب تک قیامت نہ ہو ان کی یہی کیفیت رہے اور ان پر یہی عذاب ہوتا رہے۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب ایک فرشتہ کوڑے بازی سے فارغ ہوجاتا ہے تو پھر نیا فرشتہ آتا ہے اور جو فرشتہ ایک بار ہوجاتا ہے دوبارہ نہیں آتا۔ پیاس کے مارے ان کے منہ میں کانٹے پڑ رہے ہیں ، اور زبان تالو خشک ہوا جاتا ہے جب ان پر تشنگی کا غلبہ ہوتا ہے تو ان کے پاس پانی لے جاتے ہیں۔ جب وہ پانی کے لئے منہ کھولتے ہیں تو پانی علیحدہ کرلیا جاتا ہے۔ ہاروت و ماروت کے قِصّہ کو ہمارے بعض علماء نے بالکل صحیح تسلیم کرلیا اور وہ دعویٰ کرتے ہیں اخبار و آثار میں یہ قِصّہ مرفوعاً بیان ہوا ہے کہ جو تواتر کی حد تک پہنچا ہوا ہے پھر اسے نہ ماننے اور یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی۔ لیکن امام فخر الدین رازی اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اس کی تکذیب کی ہے۔ ہم نے وہ روایتیں جو ہاروت و ماروت وغیرہ کی نسبت آئی ہیں عمداً قلم انداز کردی ہے کیونکہ انہیں ایک ہی جگہ جمع کرنے سے بےمزا طول ہوجاتا ورنہ بیان تو اتنا طویل ہے کہ جس کی حدود پایاں ہی نہیں اور اس قِصّہ کے موید اصحاب نے وہ وہ دلائل اس کی صحت میں پیش کئے ہیں گویا یہ قِصّہ یقینی ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی تفاوت نہیں اور پھر کچھ ایسے ربط کے ساتھ بحث کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس قِصّہ کو ایک اہم اور ضروری خیال کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ زہرہ کی روح سیارہ کی روح کے ساتھ بالکل مل چکی ہے اور پھر اس کی تصدیق میں چند روایتیں بھی بہم پہنچائی ہیں جن میں سے صرف ایک ہدیہ ناظرین ہے تاکہ نمونہ قائم رہے۔ زبیر ابن بکار ابن مردودیہ دیلمی حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ مسخ شدہ صورتیں کتنی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا تیرہ ہیں اور وہ یہ ہیں : ہاتھی ، ریچھ ، سور ، بندر ، مار ماہی ، سوسمار ، طوطا ، بچھو ، عموص ، مکڑی ، خرگوش ، سہیل ، زہرہ۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ ! ان کے مسخ ہونے کی کیا وجہ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ! ہاتھی پہلے آدمی تھا مگر اسے خلاف وضع فطری افعال کا بہت شوق تھا اور اس کی تمام عمر لواطت اور اسی قسم کے افعال شنیعہ میں گزری اخیر وہ ہاتھی بنا دیا گیا۔ ریچھ مخنث تھا جو مثل عورتوں کے اپنے کو آراستہ کیا کرتا تھا۔ سور نصاریٰ کی ایک جماعت تھی جس نے مائدہ کی نازل شدہ نعمت سے کفران کیا تھا۔ بندر یہودی تھے کہ شنبہ کے دن انہوں نے مچھلی کا شکار کیا۔ مار ماہی دیوث شخص تھا کہ اپنی بیوی اور غیر مردوں میں دلالی کرتا تھا۔ سوسمار ایک بادیہ نشین دہقان تھا کہ حاجیوں کے قافلہ کو لوٹا کرتا تھا۔ طوطا وہ شخص تھا جو درخت سے میوے چرایا کرتا تھا۔ بچھو ایک زبان دراز شخص تھا اور جس کی زبان درازی سے کسی کو پناہ نہ تھی۔ عموص چغل خور شخص تھا کہ اپنی چغل خوری کی وجہ سے اپنے دوستوں میں لڑائی کرا دیتا تھا۔ مکڑی ایک عورت تھی جس نے اپنے خاوند پر جادو کر کے اسے قتل کرادیا تھا۔ خرگوش بھی ایک عورت تھی کہ ایام کے بعد غسل طہارت نہ کرتی تھی۔ سہیل یمن میں ایک چوکیدار تھا جو لوگوں سے جبراً چیزیں چھین لیا کرتا تھا۔ زہرہ ایک بادشاہ کی لڑکی تھی جس نے اپنے حسن و جمال سے ہاروت و ماروت کو اپنا مفتون بنا لیا تھا۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون نبی رحمت ﷺ پر جادو کا اثر : بہت سی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ پر بھی یہودیوں نے جادو کیا تھا اور اس کا گونہ اثر بھی آپ ﷺ پر ہوا تھا مگر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ آپ ﷺ پر اس کا ثر ہوا تھا اس سلسلہ میں بہت سی روایات اس طرح کی ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ، اور جو صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے وہ اس طرح ہے کہ یہود نے جادو کیا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا تو انہوں نے شور و غوغا شروع کردیا کہ ہم نے جادو کیا ہے بس ابھی اس کا نتیجہ ظاہر ہونے ہی والا ہے۔ وحی الٰہی نے آپ ﷺ کو اطلاع دی کہ یہود نے جو کچھ کیا ہے۔ ان پر واضح کردو کہ ہم پر اس کا نہ تو کوئی اثر ہوا اور نہ ہی ہوگا تم جو کچھ مزید بھی چاہتے ہو کرلو۔ حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک پرانے کنوئیں کی اطلاع دی کہ لبید نے جو کچھ کیا ہے وہ اس کنویں میں رکھا گیا پھر اس کو نکلوا کر لوگوں کو دکھا کر دوبارہ وہاں رکھوا دیا تاکہ وہ سمجھ لیں ہم پر اس کا اثر نہیں ہوسکتا۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب مسلمانوں ہی کے منہ سے ایسی بیوقوفی کی باتیں سننے میں آتی ہیں اور خصوصاً زمرہ علماء میں سے یہ بات سن کر تو ہم کانپ جاتے ہیں اور نہایت ہی تعجب ہوتا ہے کہ کس غلط فہمی سے مسلمانوں اور خصوصاً علماء نے خود ذات اقدس و اطہر سے بھی جادو کے معاملہ میں درگزر نہیں کی اور جادو کا اثر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے کس ذات اقدس کو نشانہ بنایا۔ ہم زور دار الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہیں اور ہمارا چیلنج ہے کہ کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نبی کریم ﷺ پر جادو نے اثر دکھایا۔ بلکہ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ جادو نام کی کوئی چیز سوائے اس کے نہیں کہ وہ ایک طریقہ سے دوسرے انسان کی قوت و ہمہ کو تسخیر کرنا ہے جس میں صرف اور صرف وہم پرستی ہے اور انسان دراصل اپنی ہی قوت و ہمہ کی کمزوری کے باعث متاثر ہوجاتا ہے لیکن اگر ان ساری باتوں پر یقین بھی کرلیا جائے کہ جادو ہے اور جو کچھ ان واہی تباہی کی روایات میں بیان ہوا ہے وہ سب صحیح ہے ، نہیں بلکہ تھوڑی دیر کے لئے ہم مان لیں کہ تمام دنیا جادوگروں سے بھری ہوئی ہے اور ان میں سے ایک ایک جادوگر ایسا ہے جو آسانی سے آسمان میں چھید کرسکتا ہے اور پھر سب مل کر قوت لگائیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ پر جادو کریں ممکن ہی نہیں تھا کہ نبی کریم ﷺ پر اس کا خفیف سا اثر بھی ہوتا۔ خاکم بد ہن اگر ہم یہ تسلیم کرلیں ذرا بھی رسول اللہ ﷺ پر اثر ہوا ۔ افسوس اس شخص پر جو محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایسا یقین رکھے جو ذات پاک عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجی گئی ہو ، جس کی پیدائش ہی سے روح القدس ہم قرین رہے۔ جس کا ایک ایک لفظ بہت بڑا زبردست قانون کا حکم رکھتا ہو اس پر نا پاک روحوں کی قوت کچھ بھی نہیں چل سکتی۔ اس کی نگاہوں میں وہ تاثیر تھی کہ وہ ایک نظر سے صد ہزار جادوئوں کو توڑ سکتا تھا۔ نگاہ کیا اس کا مقدس نام ہزاروں سحروں کے قلعوں کو تسخیر کے لئے کافی تھا اور ہے اب بھی اس مقدس نام میں بہت بڑی قوت باقی ہے اور اب بھی اس میں زندہ روح نبوت موجود ہے۔ ہم اسے قیامت تک تسلیم نہیں کرسکتے کہ ناپاک روحوں کی قوت اس پر غلبہ پا سکے۔ جس کی نسبت یقین کرنا ہمارا ایمان ہے ^بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر جو کچھ ہمارے علماء نے جادو کی نسبت لکھا ہے اس میں سے ہزارواں حصہ بھی صحیح نہیں لیکن تھوڑی دیر کے لئے اس کو صحیح مان بھی لیں تو اس سے کیا استنباط ہوتا ہے اور جادو کیا شے ہوئی ؟ جس نے صرف گزشتہ عبارت کو بغور پڑھا ہے وہ خوب سمجھ سکتا ہے کہ جادو کے معنی غیر اللہ کی پرستش کرنے کے ہیں اور غیر اللہ سے مدد چاہنے بلکہ انہیں بھی قادر مطلق سمجھنے کے ہیں جو سرا سر کفر اور شرک ہے نہیں بلکہ فساد فی الارض بھی ہے جس کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ فقہائے اسلام نے ایسے مسلمان کو جو جادو کرتا ہے اور جادو گر معروف ہے وہ مرد ہو یا عورت ، اس کی سزا قتل ہی مقرر کی ہے جادو کے زور سے قتل کر ڈالنے کے یہی معنی ہیں کہ اسے الٰہ واحد کی پرستش سے باز رکھ کر سورج ، چاند ، درخت ، پہاڑ ، پتھر ، لکڑی اور پتھر کی پرستش سے لگا دیا گیا گویا اسے جان سے مار ڈالا ، جو شخص جادو کو تسلیم کرتا ہے گویا اس نے کفر و شرک کو درست تسلیم کرلیا ۔ پھر وہ مسلمان کیسے رہ گیا ؟ قرآن کریم ہی ہمارا فیصلہ کرنے والا ہے اس سے ہم اپنے دعویٰ کی تصدیق لاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں سحر کا ذکر آیا ہے وہاں اس کی حقارت اور تضحیک کی گئی ہے اور سحر کی گفتگو ہمیشہ کافروں کی زبان سے بیان کی گئی ہے جہاں فرمایا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ قرآن تو نرا جادو ہے۔ کافر کہتے ہیں کہ محمد تو جادو گر ہیں۔ ذرا غور کرو کہ اس کے کیا معنی ہوئے یعنی کفار کی یہ ساری باتیں ناقابل تسلیم اور محض لغو ہے۔ کہیں یہ نہیں فرمایا کہ جادو بر حق ہے اور کرنے والا کافر ہے۔ جیسا کہ ہمارے عقائد کی کتابوں میں لکھا گیا ہے ایک جگہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے : وَ لَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْۤا اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ 007 ” اے پیغمبر السلام ! اگر تم ان سے کہو کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جائو گے تو جو لوگ منکر ہیں اسے سن کر ضرور کہیں گے کہ یہ صریح جادو گروں کی سی باتیں ہیں۔ “ (ہود 11 : 7) یہاں اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت کا بیان فرمایا ہے اور اس جگہ جادو گر کے معنی فریبی اور مکار کے پائے جاتے ہیں ۔ منکرین قیامت نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کو کہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے محض دھوکا خیال کیا ہے اور انہیں اس کا یقین نہیں آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے بھی یہی بیان کیا کہ جو لوگ فریب دیتے ہیں وہ ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں حق کو ان باتوں سے کچھ سروکار نہیں ہے۔ آج بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کوئی شہر اور قریہ ایسا نہیں ملتا ہے جہاں ایسے افسوں گر اور شعبدہ باز موجود نہ ہوں لیکن اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے کہ ان افسوں گروں اور شعبدہ بازوں کو مداری اور نٹ کہنے کے بجائے پیر جی ، شاہ جی ، قاری جی ، حافظ جی ، صوفی جی کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ پھر ان میں وہ بھی ہیں جو عقیدہ کے لحاظ سے بڑے مو ّحد ، بڑے متقی ، بڑے عالم ، دیو بندی اور اہلحدیث فکر کے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے عقیدت مندوں ، مقتدیوں ، مریدوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں کو یہی باور کراتے ہیں کہ جادو حق ہے۔ جادو کیا جاتا ہے ، جادو کرنا ، جادو کا اثر اتارنا ، جادو سے امراض کا دور کرنا ، گم شدہ چیزیں معلوم کرنا ، کاروبار چلانا اور دشمنوں کا کاروبار بند کرانا ، میاں بیوی میں جدائی کرانا ، میاں بیوی میں محبت و پیار پیدا کرنا ، کسی کو اقتدار میں لانا یا نکالنا ، یہ سب صحیح ہے اور ہم یہ سب کام کرسکتے ہیں۔ ان لوگوں نے اتنی فرضی کہانیاں اور جھوٹی داستانیں بنا رکھی ہیں کہ وہ ان کو بیان کرتے کرتے نہیں تھکتے۔ ایسی ایسی چالیں (Tricks) چلتے ہیں کہ بڑے بڑے سمجھدار لوگ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ یہ سب شیاطین ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خواہ وہ کسی فکر کا بھی ہو پکا کافر ہے ، دھوکا باز ہے۔ فریبی اور مکار ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ اسلام ان خیالات باطلہ اور اوہام ناقصہ سے بالکل پاک ہے اس کے تمام اصول قوانین قدرت کے مطابق ہیں اور اس سے اسے باقی کل ادیان پر شرف حاصل ہیں۔ اس نے ادنیٰ ادنیٰ باتوں کا بھی اللہ ہی پر بھروسہ کرنا تعلیم کیا ہے۔ علمائے کرام معصوم نہیں تھے کہ ان کی ہر رائے قابل تسلیم ہو اور اس میں خطا کا احتمال نہ ہو۔ وہ خود ہی قرآن کریم میں یہ فرماتا ہے کہ کوئی نفع اور ضرر نہیں پہنچا سکتا مگر جسے اللہ چاہے اور پھر اس کے مقا بل میں جادو کو ایک ایسا قوی تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کی طاقت معاذ اللہ ، اللہ سے بھی بڑھا دی ہے۔ یہ خیالات باطلہ مصریوں ، کلدانیوں ، یونانیوں اور ایرانیوں کے تھے۔ جب یہ قومیں مسلمان ہوئیں تو انہوں نے اپنے قدیم خیالات کی تائید میں قرآن کریم کی آیتوں سے کھینچ تان کر مطلب نکل لیا۔ ہم پر فرض نہیں ہے کہ ہم ان وہمی روایتوں اور علمائے کرام کے اقوال کو کتاب و سنت کی طرح بلا چون و چرا مان لیں ۔ ہمیں اللہ نے فہم سلیم عطا کی ہے جس سے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا ؟ اندھی تقلید اندھوں ہی کا کام ہے بینا آدمی کبھی اندھی تقلید نہیں کرسکتا یہ علماء علماء کہاں ہیں ؟ بیوقوفوں اور سفیہوں کا ٹولہ ہے۔ حالی ؔاپنے وقت میں انہی کا ماتم کرتا گیا ؎ بہت لوگ بن کر ہوا خواہ امت سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت سدا گائوں در گائوں نوبت بہ نوبت پڑے بھرتے ہیں کرتے تحصیل دولت یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے راہنما اب لقب ان کا ہے وارث انبیاء اب بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر کہ تھے ان کے اسلاف مقبول داور کرشمے ہیں جا جا کے جھوٹے دکھاتے مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے اے ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے اسلام ! تو ان بیہودہ خیالات سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔ تیری بزرگی ، تیرا جلال ، تیرا نور ان اوہام کی تاریکی کو کبھی کا صاف کرچکا ہے۔ جو تیرے مقدس اصول کو نہیں سمجھتے نہ سمجھیں ، ان کی عقل کا قصور ہے۔ ان کی غلطی سے تجھ میں ذرا سے نقصان نہیں آسکتا۔ تیرا واجب الاحترام اور مقدس بانی عالمین کی رحمت ہے۔ اس نے نئے سرے سے اس اَن دیکھے الٰہ مطلق کی پرستش سکھائی۔ جس کی قدرت کے ہاتھ ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور جس کی عقل کاملہ ذرہ ذرہ پر محیط ہے۔ اے سر دفتر پیغمبران ! تیرا جلال ابد تک قائم ہو۔ تو نے دنیا کو ہلاکت سے نجات دی۔ تجھ میں ان اوہام اور وساوس باطلہ کا نام و نشان کیوں ہو۔ تو ہر ایک الزام سے پاک ہے ۔ تیرے عظمت مسلّم ہے۔ یہ تیری صداقت اور من اللہ ہونے کی شہادت ہے کہ آج تیرا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا ہے اور تجھ میں وہی زندہ روح ہنوز باقی ہے جو ابتدائے ظہور سے تجھ میں ودیعت کی گئی تھی۔ تیری رو ان خس و خاشاک کو بہا کرلے جا رہی ہے جو تیرے راستہ میں حائل ہونا چاہتے ہیں۔ تو اللہ کا برگزیدہ ہے اور تیری برگزیدگی مسلّم ہے۔ جب کہ تیرا بانی انبیائے سابقین کا سچا محسن ہے اسی طرح تو بھی ادیان سابقہ کا مصلح ہے جو تیری عظمت کو نظر انداز کرتے ہیں کرنے دے۔ دیکھ وہ کب تک تجھ سے چشم پوشی کرتے ہیں ؟ ہم پر اپنا پورا نو چمکا اور ہمیں اپنے جلال میں لے لے۔ آمین ثم امین۔
Top