Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَكُلَّمَا : کیا جب بھی عَاهَدُوْا ۔ عَهْدًا : انہوں نے عہد کیا۔ کوئی عہد نَبَذَهٗ : توڑدیا اس کو فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان میں سے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : اکثر ان کے لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے
جب کبھی بھی ان لوگوں نے اتباع حق کا کوئی عہد کیا تو کسی نہ کسی گروہ نے ضرور ہی اسے پس پشت ڈال دیا اور ان لوگوں میں بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جن کے دل ایمان کی دولت سے خالی ہیں
یہود کی اس سرکشی کا بیان کہ ” وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہوگیا “ : 189: جیسا کے آپ پیچھے پڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ غداری ، عہد شکنی ، نافرمانی اور سر کشی کی ایک مسلسل تاریخ ہے۔ تورات کے صفحے ، انجیل کے اوراق اور قدیم مؤرخین یہود کے دفتر کے دفتر سب اس سرگذشت سے لبریز ہیں اور یہاں اشارہ ان کی اس قومی خصوصیت کی طرف ہے کہ عہد کرنا اور توڑنا ان کو ورثہ میں ملا ہے یہ گویا ان کو کبھی محسوس بھی نہیں ہوتا کہ عہد کرنا اور توڑدینا کوئی جرم کی بات ہے۔ جرم تو وہ ہوتا ہے کہ کم ازکم کرنے والا بھی اس کو جرم سمجھے اور پھر کرے۔ ان کی حالت تو ایسی ہوچکی ہے کہ انہوں نے اس جرم کو کبھی جرم خیال ہی نہیں کیا۔ یعنی ایفائے عہد تو الگ رہا ان میں سے بہت سے لوگ تو ایسے ہیں کہ وہ سرے سے اس کے قائل ہی نہیں کبھی اطاعت کا عہد و پیمان کیا تھا اور لَا یُؤْمِنُوْنَکے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ اپنا کتابوں اور صحیفوں پر کب ایمان رکھتے ہیں جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ آخری نبی ﷺ کی تصدیق کرنے کا عہد تو ان کی اپنی کتاب میں موجود ہے اور پھر جب وہ اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ پر ایمان نہیں لاتے تو یہ بات ثبات ہوگئی کہ ان کا ایمان اپنی کتاب پر بھی مطلق نہیں ہے۔ کیا ایمان نام کی کوئی چیز بھی ان کے ہاں تسلیم ہے ؟ 190: مثل مشہور ہے کہ ” جو ماں کا نہیں وہ خالہ کا کب ہوگا۔ “ جن کے متعلق یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کا ایمان اپنی کتاب پر نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی کتاب کو تسلیم کرنے کا رواجاً ایک ڈھونگ رچایا ہے کہ جس قوم سے وہ وابستہ ہیں وہ قوم اس کو روایتاً مانتی چلی آرہی ہے۔ اس ناظہ سے ان کو بھی یہ بات کہنا پڑتی ہے ورنہ ان کے نزدیک ایسی ساری باتیں ہی ڈھکو سلے ہیں تو پھر ایسے لوگوں سے آپ کیا امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کی کتاب یعنی قرآن کریم کو اللہ کی کتاب اور آپ کے نبی محمد ﷺ کو وہ اللہ کا نبی مان لیں گے گویا ان کے ہاں ایمان نام کی کوئی چیز تسلیم ہی نہیں ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے کہہ لینے دیں کہ اس وقت مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو رواجاً اسلام ، اسلام کا نام لیتے ہیں اور ان کی کثرت اوپر کی سوسائٹی میں زیادہ ہے ۔ وہ یہ رٹ محض اس لئے لگاتے ہیں کہ اس ملک کی کثیر آبادی کا یہ مذہب ہے اور اس کا اگر وہ نام لینا ہی چھوڑ دیں تو وہ اس ملک میں ایک دن حکومت نہیں کرسکتے اور حکومت سے وہ نکلنا نہیں چاہتے گویا یہ انکی ایک مجبوری ہے کہ مسلمانوں کے سے نام رکھیں ، ملک کے کا غذات میں اندراج کراتے وقت اسلام کا خانہ پر کریں ، ختنہ کریں اور اہل قبلہ میں داخل ہوجائیں حلال حرام کی تمیز کئے بغیر مال اکٹھا کریں ۔ غریب عوام کو دبانے کے لئے دن رات کو شاں رہیں ایسی ایسی سکیمیں بنائیں کہ غریب روز بروز غریب اور امیر روز بروز امیر ہوتا جائے لیکن غریبوں کی ہمدردی کے بیانات اخبارات میں دیتے رہیں غریب اگر گروہ بندیوں میں تقسیم ہیں تو ہوا کریں۔ اگر شرک کے گڑھے میں گرتے ہوں تو گراکریں۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں تو ہوا کریں۔ کیونکہ ان ساری باتوں میں ان کا فائدہ ہے۔ ملک میں امن ہو تو آخر کیوں ؟ لوگ آپس میں صلح و آشتی سے رہیں تو کیوں ؟ غریب اگر سکھ کا سانس لیں تو کیوں ؟ سب لوگ اگر مل جل کر اسلامی زندگی کزاریں تو کیوں ؟ یہ ساری باتیں انکے سراسر نقصان کی ہیں آج وہ وقت نہیں ہے کہ جو ہم کہتے ہیں شاید وہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ اچھا اور کوئی سمجھے نہ سمجھے قوم کے سیاسی لیڈر اور مذہبی راہنما اور آخرت کے ٹھیکہ دار سب سمجھتے ہیں۔ لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس نے ہدایت پانے کا جو قانون بنا دیا ہے اسی کے مطابق ہدایت دیتا ہے۔ ہم دست بدعا ہیں کہ اے اللہ ! ان رہنمایانِ اسلام کی رہنمائی فرما اور ان کو سیدھی راہ پر چلا تاکہ اس ملک کے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔ آمین !
Top