Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 96
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا
قُلْ
: کہہ دیں
كَفٰى
: کافی ہے
بِاللّٰهِ
: اللہ کی
شَهِيْدًۢا
: گواہ
بَيْنِيْ
: میرے درمیان
وَبَيْنَكُمْ
: اور تمہارے درمیان
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
كَانَ
: ہے
بِعِبَادِهٖ
: اپنے بندوں کا
خَبِيْرًۢا
: خبر رکھنے والا
بَصِيْرًا
: دیکھنے والا
آپ ﷺ کہہ دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی بس کرتی ہے یقینا وہ اپنے بندوں کے حال سے واقف اور سب کچھ دیکھنے والا ہے
(سابقہ آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ) 14۔ آنحضرت ﷺ کے حمل میں ہونے کی جو نشانیاں تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس رات کو قریش کے سب جانور بولنے لگے اور کہنے لگے کہ کعبہ کے خدا کی قسم ! آنحضرت ﷺ شکم مادر میں آگئے ‘ وہ دنیا جہان کی امان اور اہل دنیا کے چراغ ہیں ، قریش اور دیگر قبائل کی کاہنہ عورتوں میں کوئی عورت ایسی نہ تھی کہ اس کا جن اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگیا ہو اور ان سے کہانت کا علم چھین لیا گیا اور دنیا کے تمام بادشاہوں کے تخت اوندھے ہوگئے اور سلاطین اس دن گونگے ہوگئے ، مشرق کے وحشی جانوروں نے مغرب کے وحشی جانوروں کو جا کر بشارت دی ، اسی طرح ایک دریا نے دوسرے دریا کو خوشخبری سنائی اور پورے ایام حمل میں ہر ماہ آسمان و زمین سے یہ ندا سنی جانے لگی کہ بشارت ہو کہ حضرت ابو القاسم ﷺ کے زمین پر ظاہر ہونے کا زمانہ قریب آیا۔ حضور ﷺ کی والدہ فرماتی تھیں کہ جب میرے حمل کے چھ مہینے گزرے تو خواب میں کسی نے مجھ کو پاؤں سے ٹھوکر دے کر کہا کہ ” اے آمنہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) تمام جہان کا سردار تیرے پیٹ میں ہے ، جب وہ پیدا ہو تو اس کا نام محمد ﷺ رکھنا اور اپنی حالت کو چھپائے رکھنا ‘ ۔ کہتی ہیں کہ جب والادت کا زمانہ آیا تو عورتوں کو جو پیش آتا ہے وہ مجھ کو بھی پیش آیا اور کسی کو میری اس حالت کی خبر نہ تھی ‘ میں گھر میں تنہا تھی ‘ عبدالمطلب خانہ کعبہ کے طواف کو گئے تھے تو میں نے ایک زور کی آواز سنی جس سے میں ڈر گئی ‘ میں نے دیکھا کہ ایک سپید مرغ ہے جو اپنے بازو کو میرے دل پر مل رہا ہے ‘ اس سے میری تمام وحشت دور ہوگئی اور درد کی تکلیف بھی جاتی رہی ، پھر ایک طرف دیکھا کہ سپید شربت ہے ‘ پیاسی تھی ‘ دودھ سمجھ کر اس کو پی گئی ‘ اس کے پینے سے ایک نور مجھ سے نکل کر بلند ہوا پھر میں نے دیکھا کہ چند عورتیں جن کے قد لمبے لمبے ہیں گویا عبدالمطلب کی بیٹیاں ہیں ‘ وہ مجھے غور سے دیکھ رہی ہیں ‘ میں تعجب کر رہی ہو کہ ان کو کیسے میرا حال معلوم ہوا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ان عورتوں نے کہا ہم ہم فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم اور یہ حوریں ہیں میرا درد بڑھ گیا ‘ ہر گھڑی آواز اور زیادہ بلند تھی اور خوفناک ہوتی جاتی تھی ‘ اتنے میں ایک سپید دیبا کی چادر آسمان و زمین کے درمیان پھیل نظر آئی اور آواز آئی کہ ” اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لو ۔ “ میں نے دیکھا کہ چند مرد ہوا میں معلق ہیں ان کے ہاتھوں میں چاندی کے آفتابے ہیں اور میرے بدن سے موتی کے طرح پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے جس میں مشک خالص سے بہتر خوشبو تھی اور میں دل میں کہہ رہی تھی کہ کاش عبدالمطلب اس وقت پاس ہوتے ‘ پھر میں نے پرندوں کا ایک غول دیکھا جو نہیں معلوم کدھر سے آئے اور میرے کمرے میں گھس آئے ‘ ان کی منقاریں زمرد کی اور بازو یاقو کے تھے ‘ میری آنکھوں سے اس وقت پردے اٹھا دئیے گئے تو اس وقت مشرق ومغرب سب میری نگاہوں کے سامنے تھے ‘ تین جھنڈے نظر آئے ‘ ایک مشرق میں ‘ ایک مغرب میں اور ایک خانہ کعبہ کی چھت پر ‘ اب درد زیادہ بڑھ گیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھے کچھ عورتیں ٹیک لگائے بیٹھی ہیں اور اتنی عورتیں بھر گئیں کہ مجھے گھر کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی ‘ اسی اثنا میں بچہ پیدا ہوا ‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ سجدہ میں پڑا تھا اور دو انگلیوں کو آسمان کی طرف دعا کی طرح اٹھائے تھا ‘ پھر ایک سیاہ بادل نظرآیا جو آسمان سے اتر کر نیچے آیا اور بچہ پر چھا گیا اور بچہ میری نگاہ سے چھپ گیا ‘ اتنے میں ایک منادی سنی کہ ” محمد ﷺ کو زمین پورب اور پچھم گھما دو اور سمندروں کے اندر لے جاؤ کہ سب ان کے نام نامی اور شکل و صورت کو پہچان لیں اور جان لیں کہ یہ مٹانے والے ہیں ، یہ اپنے زمانہ میں شرک کا نام ونشان مٹادیں گے ۔ “ پھر تھوڑی ہی دیر میں بادل ہٹ گیا اور آپ ﷺ دودھ سے زیادہ سفید کپڑے میں لپٹے نظر آئے جس کے نچے سبز ریشم تھا ‘ ہاتھوں میں سفید موتیوں کی تین کنجیاں تھیں اور ایک آواز آئی کہ محمد ﷺ کو فتح ونصرت اور نبوت کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ “ میں نے دل پر جبر کر کے یہ پوری حکایت نقل کی ہے ‘ یہ اس لئے کہ میلاد کے عام جلسوں کی رونق ان ہی روایتوں سے ہے ۔ یہ روایت ابو نعیم میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کی ہے اور سند کا سلسلہ بھی ہر طرح درست ہے مگر اگر کسی کو اسماء الرجال سے آگاہی نہ بھی ہو اور وہ صرف ادب عربی کا صحیح ذوق رکھتا ہو تو وہ فقط روایت کے الفاظ اور عبارت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کردے گا کہ یہ تیسری چوتھی صدی کی بنائی ہوئی ہے ، اس روایت میں یحی بن عبداللہ الباہلی اور ابوبکر بن ابی مریم ہیں ‘ پہلا شخص بالکل ضعیف ہے اور دوسرا ناقابل حجت ہے اس کے آگے کے روای سعید بن عمرو الانصاری اور ان کے باپ عمرو الانصاری کا کوئی پتہ نہیں ۔ 15۔ اسی قسم کی ایک اور روایت حضرت عباس ؓ سے نقل کی جاتی ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ میرے چھوٹے بھائی عبداللہ جب پیدا ہوئے تو انکے چہرے پر سورج کی سی روشنی تھی اور والد نے ایک دفعہ خواب دیکھا ، بنو مخزوم کی ایک کاہنہ نے یہ خوب سن کر پیش گوئی کہ کہ ” اس لڑکے کی پشت سے ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو تمام دنیا پر حکومت کرے گا ، جب آمنہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے سے بچہ پیدا ہوا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ولادت کے اثنا میں تم کو کیا کیا نظر آیا ؟ انہوں نے کہا کہ جب مجھے درد ہونے لگا تو میں نے بڑے زور کی آواز سنی جو انسانوں کی آواز کی طرح نہ تھی اور سبز ریشم کا پھریرا یا قوت کے جھنڈے میں لگا ہوا آسمان و زمین کے بیچ میں گڑا نظر ؤیا اور میں نے دیکھا کہ بچہ کے سر سے روشنی کی کرنیں نکل نکل کر آسمان تک جاتی ہیں ، شام کے تمام محل آگ کا شعلہ معلوم ہوتے تھے اور اپنے پاس مرغابیوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا جس نے بچہ کو سجدہ کیا پھر اپنے پروں کو کھول دیا اور سعیرہ اسدیہ کو دیکھا کہ وہ کہتی ہوئی گزری کہ تیرے اس بچہ نے بتوں اور کاہنوں کو بڑا صدمہ پہنچایا ‘ ہائے سعیرہ ہلاک ہوگئی ‘ پھر ایک بلند وبالا ‘ سپید رنگ جوان نظر آیا جس نے بچہ کو میرے ہاتھ سے لے لیا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایا ، اس کے ہاتھ میں سونے کا طشت تھا بچہ کے پیٹ کو پھاڑا پھر اس کے دل کو نکالا ‘ اس میں سے ایک سیاہ داغ نکال کر پھینک دیا ۔ پھر سبز حریر کی ایک تھیلی کھولی ، جس میں سپید کی طرح کوئی چیز تھی ‘ اس کو سینہ میں بھرا ‘ پھر سپید حریر کی ایک تھیلی کھولی ‘ اس میں سے ایک انگوٹھی نکال کر مونڈے کے برابر مہر کی اور اس کو ایک کرتہ پہنا دیا اے عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہ میں نے دیکھا ۔ اس روایت کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ کہنا نہیں ہے کہ ناقلین نے اس کے ضعف کو خود تسلیم کیا ہے اور حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ ” اس روایت اور اس سے پہلے کی دو روایتوں (13 ، 14) میں سخت نکارت ہے اور میں نے اپنی اس کتاب (خصائص) میں ان تینوں سے زیادہ منکر کوئی روایت نقل نہیں کی اور میرا دل ان کے لکھنے کو نہیں چاہتا تھا لیکن میں نے محض ابو نعیم کی تقلید میں لکھ دیا ہے ، جن روایتوں کو حافظ سیوطی لکھنے کے قابل نہ سمجھیں آپ ان کے ضعیف کے درجہ کو سمجھ سکتے ہیں ‘ سیوطی اس روایت کا ماخذ ابو نعیم کو بتاتے ہیں مگر یہ روایت دلائل ابی نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ملی ، یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عباس ؓ آنحضرت ﷺ سے ایک دو سال ہی بڑے تھے ‘ جب آمنہ نے وفات پائی تو وہ سات آٹھ برس کے بچہ ہوں گے ۔ 16۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آمنہ آنحضرت ﷺ کی ولادت کا قصہ بیان کر رہی تھیں کہ ” میں حیرت میں تھی کہ تین آدمی دکھائی دیئے جن کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے تھے ‘ ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ تھا جس سے مشک کی سی خوشبو آرہی تھی ‘ دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت تھا جس کے چار گوشے تھے اور ہر گوشہ میں سپید موتی رکھا تھا اور ایک آواز آئی اے حبیب اللہ ! یہ پوری دنیا ‘ مشرق ومغرب ‘ خشکی وتری سب مجسم ہو کر آئی ہے ‘ اس کے جس گوشہ کو چاہے مٹھی میں لے لیجئے ، “ آمنہ کہتی ہیں کہ میں نے گھوم کر دیکھا کہ بچہ کہاں ہاتھ رکھتا ہے ؟ میں نے دیکھا کہ اس نے بیچ میں ہاتھ رکھتاتو کہنے والے کی آواز سنی کہ ” محمد ﷺ نے کعبہ کے خدا کی قسم ! کعبہ پر قبضہ کرلیا ‘ ہاں یہ کعبہ اس کا قبلہ اور مسکن بنے گا ۔ “ تیسرے کے ہاتھ میں سپید حریر لپٹا تھا ‘ اس نے اس کو کھولا تو اس میں ایک انگوٹھی نکلی جس کو دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت کرتی تھیں ‘ پھر وہ میرے پاس آیا تو طشت والے اس انگوٹھی کو لے کر اس آفتابہ سے ساتھ بار اس کو دھویا اور بچہ کے مونڈھے پر مہر کردی اور حریر میں اس کو لپیٹ کر مشک خالص کے تاگے سے اس کو باندھ دیا اور تھوڑی دیر تک اپنے بازوؤں میں لپٹائے رکھا ، حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ یہ رضوان جنت تھا ، پھر بچہ کے کان میں کچھ کہا جس کو آدمنہ کہتی ہیں کہ میں سمجھ نہ سکی اور پھر اس نے کہا ” اے محمد ﷺ بشارت ہو کہ کسی نبی کو کوئی ایسا علم عطا نہیں کیا گیا جو تم کو نہیں بتا دیا گیا ‘ تم سب پیغمبروں سے زیادہ شجاع بنائے گئے ، تم کو فتح ونصرت کی کنجی دی گئی اور رعب وادب بخشا گیا تو تمہارا نام سنے گا اس نے تم کو کبھی دیکھا بھی نہ ہو تو وہ کانپ جائے گا اے خدا کے خلیفہ ! اس روایت کا ماخذ یہ ہے کہ یحییٰ بن عائز المتوفی 378 ھ نے اپنی کتاب میلاد میں اس کا ذکر کیا ہے ‘ ابن دحیہ محدث نے بڑی جرات کرکے اس خبر کو ” غریب “ کہا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس غریب کہنا بھی اس کی توثیق ہے ‘ یہ تمام تر بےاصل اور بےبنیاد ہے ۔ 17۔ آمنہ کہتی ہیں کہ جب ولادت ہوئی تو ایک بہت بڑا ابر کا ٹکڑا آیا جس میں سے گھوڑے کے ہنہنانے اور پروں کے پھڑپھڑانے اور لوگوں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں وہ ابر کا ٹکڑا بچہ کے اوپر آکر چھا گیا اور بچہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ۔ البتہ منادی کی آواز سنائی دی کہ محمد ﷺ کو ملکوں ملکوں پھراؤ اور سمندروں کی تہوں میں لے جاؤ کہ تمام دنیا ان کے نام ونشان کو پہچان لے اور جن وانس ! چرند وپرند ‘ ملائکہ بلکہ ہر ذی روح کے سامنے ان کو لے جاؤ ان کو آدم (علیہ السلام) کا خلق شیث (علیہ السلام) کی معرفت ‘ نوح (علیہ السلام) کی شجاعت ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کی دوستی اسمعیل (علیہ السلام) کی زبان ‘ اسحاق (علیہ السلام) کی رضا ‘ صالح (علیہ السلام) کی فصاحت ‘ لوط (علیہ السلام) کی حکمت ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کی سختی ‘ ایوب (علیہ السلام) کا صبر ‘ یونس (علیہ السلام) کی طاعت ‘ یوشع (علیہ السلام) کا جہاد اور داؤد (علیہ السلام) کی آواز ‘ دانیال (علیہ السلام) کی محبت ‘ الیاس (علیہ السلام) کا وقار ‘ یحی (علیہ السلام) کی پاک دامنی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا زہد عطا کرو اور تمام پیغمبروں کے اخلاق میں ان کو غوطہ دو ‘ آمنہ کہتی ہیں کہ پھر یہ منظر ہٹ گیا تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ سبز حریر میں لپٹے ہیں اور اس کے اندر سے پانی ٹپک رہا ہے ، آواز آئی ” ہاں محمد ﷺ نے تمام دنیا پر قبضہ کرلیا اور کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے حلقہ اطاعت میں نہ آگئی ہو ۔ “ کہتی ہیں کہ پھر میں نے دیکھا تو نظر آیا کہ آپ ﷺ کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح ہے اور مشک خالص کی سی خوشبو آپ ﷺ سے نکل رہی ہے دفعتا تین آدمی نظر آئے ‘ ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ ہے ‘ دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت ہے اور تیسرے کے ہاتھ میں سپید ریشم ہے ‘ اس نے سپید ریشم کو کھول کر اس میں سے انگوٹھی جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں نکالی ، پہلے اس نے انگوٹھی کو سات دفعہ اس آفتابہ کے پانی سے دھویا پھر مونڈھے پر مہر کرکے بچہ کو تھوڑی دیر کے لئے اپنے بازوؤں میں لپیٹ لیا اور پھر مجھے واپس کردیا ۔ اس حکایت کی بنیاد یہ ہے کہ قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں السعادۃ والبشری نامی ایک میلاد کی کتاب سے اس کو نقل کیا ہے اور السعادۃ والبشری کا مصنف کہتا ہے کہ اس نے خطیب سے اس کو لیا ہے ‘ روایات کے لحاظ سے خطیب کی تاریخ کا جو درجہ ہے وہ کس کو معلوم نہیں ‘ قسطلانی نے اس روایت کو ابو نعیم کی طرف بھی منسوب کیا ہے مگر دلائل ابو نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں تو اس کا پتہ نہیں ، غنیمت ہے کہ حافظ قسطلانی نے خود تصریح کردی ہے کہ اس میں سخت نکارت ہے ۔ “ 18۔ آمنہ کہتی ہیں کہ ” جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو ایک روشنی چمکی جس سے تمام مشرق ومغرب روشن ہوگیا اور آپ ﷺ دونوں ہاتھ ٹیک کر زمین پر گر پڑے (شاید مقصود یہ کہنا ہے کہ آپ ﷺ سجدہ میں گئے) پھر مٹھی سے مٹھی اٹھائی (اہل میلاد اس سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے روئے زمین پر قبضہ کرلیا) اور آسمان کی طرف سراٹھایا ۔ یہ حکایت ابن سعد میں متعدد طریقوں سے مذکور ہے مگر اس میں سے کوئی قوی نہیں ‘ اسی کے قریب قریب ابو نعیم اور طبرانی میں روایتیں ہیں ان کا بھی یہی حال ہے ۔ 19۔ جس شب کو آپ ﷺ پیدا ہوئے قریش کے بڑے بڑے سردار جلسہ جمائے بیٹھے تھے ‘ ایک یہودی نے جو مکہ میں سوداگری کرتا تھا ان سے آکر دریافت کیا کہ آج تمہارے یہاں کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے ؟ سب نے اپنی لاعلمی ظاہر کی اس نے کہا ” اللہ اکبر ! تم کو نہیں معلوم تو خیر ‘ میں نے جو کہتا ہوں اس کو سن رکھو ‘ آج شب کو اس پچھلی امت کا نبی پیدا ہوگیا ‘ اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں ایک نشانی ہے ‘ اس میں گھوڑے کے ایال کی طرح کچھ اوپر تلے بال ہیں ۔ وہ دو دن تک دودھ نہ پیئے گا ‘ کیونکہ ایک جن نے اس کے منہ میں انگلی ڈال دی ہے جس سے وہ دودھ نہیں پی سکتا ۔ جب جلسہ چھٹ گیا اور لوگ گھروں کو لوٹے تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مطلب کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے ، لوگو اس یہودی کو آمنہ کے گھر لائے ، اس نے بچہ کی پیٹھ پر تل دیکھا تو غش کھا کر گر پڑا ‘ جب ہوش آیا ‘ لوگوں نے سبب پوچھا اس نے کہا ” خدا کی قسم ! اسرائیل کے گھرانے سے نبوت رخصت ہوگئی ، اے قریش ! تم اس پیدائش سے خوش ہو ‘ ہوشیار ! خدا کی قسم ! ایک دن یہ تم پر ایسا حملہ کرے گا جس کی خبر چاردانگ عالم میں پھیلے گی ۔ “ یہ روایت مستدرک حاکم میں ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے مگر اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم کا کسی روایت کو صحیح کہنا ہمیشہ تنقید کا محتاج رہتا ہے ، چناچہ حافظ ذہبی نے تلخیص مستدرک (جلد 2 ص 602) میں حاکم کی تردید کی ہے ‘ اس کا سلسلہ روایت یہ ہے کہ یعقوب ابن سفیان فسوی ابو غسان محمد یحییٰ کنانی سے اور یہ اپنے باپ (یحیٰ بن علی کنانی) سے اور وہ محمد بن اسحاق (مصنف سیرت) سے روایت کرتے ہیں ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن اسحاق نے خود اپنی سیرت سے روایت نہیں لی ہے ، ابو غسان محمد بن یحییٰ کو گو بعض محدثین نے اچھا کہا ہے مگر محدث سلیمانی نے ان کو منکر الحدیث کہا ہے ۔ (ایسی باتیں بیان کرنے والا جن کی تصدیق دیگر متعبر بیانات سے نہیں ہوتی) کہا ہے ابن حزم نے ان کو مجہول کہا ہے ‘ بہرحال ان تک غنیمت ہے ‘ مگر ان کے باپ یحییٰ بن علی کا کہیں کوئی ذکر نہیں کہ یہ کون تھے اور کب تھے ؟ اسی قسم کی ایک اور روایت خیص راہب کے متعلق ابو جعفر بن ابی شیبہ سے ہے اور ابو نعیم نے دلائل میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں اس کو ذکر کیا ہے لیکن زرقانی نے لکھ دیا ہے کہ ابو جعفر بن ابی شیبہ نامعتبر ہے ۔ 20۔ حضرت عباس ؓ آنحضرت ﷺ سے ذکر کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! ﷺ مجھ کو جس نشانی نے آپ ﷺ کے مذہب میں داخل ہونے کا خیال دلایا وہ یہ ہے کہ جب آپ ﷺ گہوارہ میں تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ چاند سے اور چاند آپ ﷺ سے باتیں کرتا تھا اور انگلی سے آپ ﷺ اس کو جدھر اشارہ کرتے تھے ادھر جھک جاتا تھا ‘ فرمایا ہاں میں اس سے اور وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور رونے سے بہلاتا تھا اور عرش کے نیچے جا کر جب وہ تسبیح کرتا تھا تو میں اس کی آواز سنتا تھا ۔ “ یہ حکایت دلائل بیہقی ‘ کتاب المائتین صابونی ‘ تاریخ خطیب اور تاریخ ابن عساکر میں ہے مگر خود بیہقی نے تصریح کردی ہے کہ یہ حضرت احمد بن ابراہیم جبلی کی روایت ہے اور وہ مجہول ہے ‘ صابونی نے روایت لکھ کر کہا ہے کہ ” یہ سند اور متن دونوں لحاظ سے غریب ہے ۔ “ علاوہ ازیں حضرت عباس ؓ آنحضرت ﷺ سے شاید ایک دو سال ہی بڑے تھے ‘ آنحضرت ﷺ کی شیر خوارگی کے عالم میں وہ خود شیر خوار ہوں گے ۔ 21۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج 6 ص 344) میں واقدی کی سیر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے گہوارہ میں کلام کیا ۔ ابن سبع المتوفی کی خصائص میں ہے کہ فرشتے آپ ﷺ کا گہوارہ ہلاتے تھے اور (پیدائش کے بعد) سب سے پہلے فقرہ زبان مبارک سے یہ نکلا الحمد للہ کبیرا والحمد اللہ کثیرا “۔ ابن عائذ وغیرہ میلاد کی بعض اور کتابوں میں اور فقرے بھی منسوب ہیں ‘ مثلا کہ آپ ﷺ نے ” الا الہ الا اللہ یا جلال ربی الرفیع پڑھا۔ واقدی کی سیر سے مراد اگر واقدی کی مغازی ہے تو اس کا مطبوعہ کلکتہ نسخہ جو میرے پیش نظر ہے اس میں یہ واقعہ مذکور نہیں اور اگر ہوتا بھی تو واقدی کا اعتبار کیا ہے ؟ ابن سبع اور ابن عائذ وغیرہ زمانہ متاخر کے لوگ ہیں اور قدماء سے روایت کی نقل میں بےاحتیاط میں کسی قدیم ماخذ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ‘ معلوم نہیں یہ روایتیں انہوں نے کہاں سے لیں ۔ 22۔ آنحضرت ﷺ کی رضاعت اور شیر خوارگی کے زمانہ کے فضائل اور معجزات جب آپ ﷺ کو حلیمہ سعدیہ ؓ اپنے گھر لے جاتی ہیں ‘ ابن اسحاق ‘ ابن راہویہ ‘ ابو یعلی ‘ طبرانی ‘ بیہقی ‘ ابو نعیم ‘ ابن عساکر اور ابن سعد میں بتفصیل مذکور ہیں ۔ حلیمہ سعید ؓ کا آنا اور آپ ﷺ کا ان کو دیکھ کر مسکرانا ‘ حلیمہ ؓ کے خشک سینوں میں دودھ کا بھر آنا ‘ آپ ﷺ کا صرف ایک طرف کے سینہ سے سیر ہوجانا اور دوسری طرف کا اپنے رضاعی بھائی کے لئے بنظرانصاف چھوڑ دینا ‘ آپ ﷺ کے سوار ہوتے ہیں حلیمہ ؓ کو کمزور دبلی پتلی گدھی کا تیز رو ‘ طاقتور اور فربہ ہوجانا اور حلیمہ ؓ کے قبیلہ کی قحط زدہ زمین کا سرسبز و شاداب اور ہرا بھرا ہوجانا ‘ حلیمہ ؓ کی بکریوں کا موٹا ہونا اور سب سے زیادہ دودھ دینا ‘ آپ ﷺ کا غیر معمولی نشو ونما پانا ‘ دو برس کے سن میں آپ ﷺ کے سینہ کا چاک ہونا ‘ حیمہ ؓ کا اس واقعہ سے ڈر کر آپ ﷺ کو آمنہ کے پاس واپس لانا ‘ آمنہ کا حلیمہ ؓ کو تسلی دینا یہ تمام واقعات ان کتابوں میں بہ تفصیل مذکورہ ہیں ۔ یہ واقعات دو طریقوں سے مروی ہیں ایک طریقہ کا مشترک راوی جہم بن ابی جہم ایک مجہول شخص ہے اور دوسرے کا مشترک راوی واقدی ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ پہلے طریقہ سے اس کو ابن اسحاق ‘ ابن راہویہ ‘ ابو یعلی ‘ طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے ‘ اس کا سلسلہ یہ ہے کہ ابن اسحاق نے کہا کہ مجھ سے جہم بن ابی جہم مولی حارث بن حاطب حمجی نے کہا اور وہ کہتا ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے خود بیان کیا یا کسی ایسے شخص نے بیان کیا جس نے عبداللہ بن جعفر سے سنا اور عبداللہ بن جعفر نے حلیمہ سعدیہ سے سنا ، اس روایت میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جہم اس روایت کا خود عبداللہ بن جعفر سے سننا یقینی نہیں بتاتا ‘ بلکہ وہ کہتا ہے کہ ” عبداللہ بن جعفر یا کسی نے ان سے سن کر مجھ سے کہا ۔ “ معلوم نہیں وہ کون تھا ؟ سننا یقینی نہیں بتاتا ‘ بلکہ وہ کہتا ہے کہ ” عبداللہ بن جعفر یا کسی نے ان سے سن کر مجھ سے کہا ۔ “ معلوم نہیں وہ کون تھا ؟ اور کیسا تھا ؟ ابو نعیم وغیرہ متاخرین نے اس روایت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ شک سرے سے نظر انداز ہوگیا ہے ، اور کیسا تھا ؟ ابو نعیم وغیرہ متاخرین نے اس روایت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ شک سرے سے نظر انداز ہوگیا ہے ۔ اگر بالفرض جہم نے عبداللہ بن جعفر سے سنا تو عبداللہ بن جعفر کا جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آٹھ نو برس کے تھے اور اگر بالفرض جہم نے عبداللہ بن جعفر سے سنا تو عبداللہ بن جعفر کا جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آٹھ نو برس کے تھے اور 7 ھ کے بعد حبش کے ملک سے مدینہ آئے تھے ، حلیمہ ؓ سے ملنا اور ان سے نقل روایت کرنا محتاج ثبوت ہے ۔ بلکہ علماء سیرورجال میں خود حلیمہ ؓ سے ملنا اور ان کے بعد آپ سے ملاقات میں اختلاف ہے ‘ صرف ایک دفعہ غزوہ ہوازن کے موقع پر ان کا آنا کسی کسی نے بیان کیا ہے مگر اس موقع پر عبداللہ بن جعفر کا جو کمسن تھے ‘ موجود ہونا اور ان سے ملنا مطلق ثابت نہیں ‘ جہم بن ابی جہم جو اس روایت کا سربنیاد ہے ذہبی نے میزان الاعتدال میں اسی روایت کی تقریب سے اس کا نام لکھ کر لکھا ہے لا یعرف یعنی معلوم نہیں یہ کون تھا ۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جس کا مرکزی راوی واقدی ہے ، اس سلسلہ سے ابن سعد ‘ ابو نعیم اور ابن عساکر نے اس واقعہ کو لکھا ہے ‘ یہ سلسلہ علاوہ ازیں کہ واقدی کے واسطہ سے ہے موقوف بھی ہے یعنی کسی صحابی تک وہ نہیں پہنچتا ، اس کو واقدی زکریا بن یحییٰ بن یزید سعدی سے اور وہ اپنے باپ یحییٰ بن زید سعدی سے نقل کرتا ہے ، ابن سعد نے دوسری جگہ (ج اول ص 97) ایک اور سلسلہ سے اس کو واقدی سے روایت کیا ہے اور واقدی عبداللہ بن زید بن اسلم سے اور عبداللہ اپنے باپ زید بن اسلم تابعی سے نقل کرتے ہیں یہ سلسلہ بھی علاوہ ازیں کہ اس کا پہلا راوی وہی واقدی ہے ۔ اور روایت بھی موقوف ہے ‘ زید مذکور کی نسبت اہل مدینہ کلام کرتے تھے اور ان کے بیٹے عبداللہ کو اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے ‘ اس لئے یہ سلسلہ بھی استناد کے قابل نہیں ہے ، ابو نعیم نے تیسری روایت میں واقدی کے واسطہ سے ان واقعات کو بےسند لکھا ہے ۔ 23۔ شق صدر یعنی سینہ مبارک کے چاک ہونے کا واقعہ معراج میں پیش آنا مسلم ہے ‘ مگر بعض لوگوں نے بچپن کے زمانہ مین بھی اس واقعہ کا پیش آنا بیان کیا ہے ‘ بچپن کے وقت کی تعین میں ان روایتوں میں اختلاف ہے ، اکثر روایتوں میں یہ ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کے پاس قیام کے زمانہ میں یہ پیش آیا ‘ جب عمر شریف غالبا صرف چار برس کی تھی ایک دو روایتوں میں ہے کہ اس وقت آپ ﷺ دس برس کے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ عہد طفولیت میں شق صدر کی جس قدر روایتیں ہیں ‘ صحیح مسلم کی روایت کے علاوہ وہ تمام تر ضعیف ہیں ، صحیح مسلم کی روایت میں حماد بن سلمہ کی غلطی سے معراج کا واقعہ عہد طفولیت میں بیان ہوگیا ہے ۔ 24۔ حضرت حلیمہ ؓ کے پاس قیام کے زمانہ میں ایک اور واقعہ بھی راویوں نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر بعض یہودیوں نے یا عرب قیافہ شناسوں نے (روایت میں اختلاف ہے ) یہ معلوم کرلیا کہ نبی آخر الزمان ہیں اور یہی ہماری آبائی کیش اور مذہب کو دنیا سے مٹائیں گے یہ سمجھ کر انہوں نے آپ ﷺ کو خود قتل کرنا چاہا یا دوسروں کو آپ ﷺ کے قتل پر آمادہ کرنا چاہا (روایت میں اختلاف ہے) ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ اس پیش آیا جب حلیمہ ؓ آپ ﷺ کو پہلے پہل مکہ مکرمہ سے لے کر عکاظ کے میلہ میں آئیں ، وہاں قبیلہ ہذیل کا ایک قیافہ شناس بڈھا تھا ، عورتیں اپنے اپنے بچوں کو لے کر اس کے پاس آتی تھیں اور فال نکلواتی تھیں ، اس کی نظر جب آنحضرت ﷺ پر پڑی تو وہ چلا اٹھا کہ اس کو قتل کر ڈالو ‘ مگر آپ ﷺ لوگوں کی نظر سے غائب ہوچکے تھے حلیمہ ؓ آپ ﷺ کو لے کر چل دیں تھیں ، لوگوں نے بڈھے سے واقعہ پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے ابھی وہ بچہ دیکھا جو تمہارے اہل مذہب کو قتل کرے گا اور تمہارے بتوں کو توڑے گا اور وہ کامیاب ہوگا ، اس کے بعد لوگوں نے آپ ﷺ کو بہت ڈھونڈا مگر آپ ﷺ نہ ملے ، حضرت حلیمہ ؓ نے اس کے بعد آپ ﷺ کو پھر کسی قیافہ شناس اور فال دیکھنے والے کے سامنے پیش نہ کیا ، ایک اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد اس بڈھے کی عقل جاتی رہی اور وہ کفر ہی کی حالت میں مر گیا ۔ دوسری روایت میں یہ واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت آمنہ ؓ نے حلیمہ ؓ کو کہہ دیا تھا کہ میرے بچہ کو یہودیوں سے بچائے رکھنا ، اتفاق سے جب وہ آپ ﷺ کو لے کر چلیں تو کچھ یہودی راستہ میں مل گئے ، انہوں نے آپ ﷺ کا حال سن کر ایک دوسرے سے کہا کہ ” اس کو مار ڈالو “۔ پھر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا یہ بچہ یتیم ہے ؟ حلیمہ ؓ نے کہا ” نہیں ! میں اس کی ماں ہوں اور اپنے شوہر کو بتایا کہ وہ اس کا باپ ہے ، انہوں نے کہا ” اگر یہ یتیم ہوتا تو ہم اس کو قتل کر ڈالتے (یعنی آخری پیغمبر کی ایک علامت یتیمی بھی تھی اور چونکہ ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ علامت بچہ میں نہیں پائی جاتی ‘ اس سے اس کا یقین جاتا رہا ۔ ) یہ روایتیں ابن سعد جلد اول ص 71 ‘ 90 میں ہیں ‘ مگر حالت یہ ہے کہ پہلی روایتوں کا ماخذ واقدی کی داستانیں ہیں اور اس پر بھی ان کے سلسلے ناتمام ہیں ، آخری روایت کا سلسلہ یہ ہے کہ عمرو بن عاصم کلابی ‘ ہمام بن یحییٰ ‘ اسحاق بن عبداللہ ‘ گو یہ تینوں عموما ثقہ اصحاب ہیں مگر ان کی یہ روایت موقوف ہے ‘ یعنی آخری راوی اسحاق بن عبداللہ گو تابعی ہیں ‘ مگر وہ کسی صحابی سے اس کا سننا ظاہر نہیں کرتے ‘ معلوم نہیں یہ روایت ان کو کہاں سے پہنچی ؟ تقریبا اسی واقعہ کو ابو نعیم نے دلائل میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ” حلیمہ ؓ جب آپ ﷺ کو مکہ سے لے کر روانہ ہوئیں تو ایک وادی میں پہنچ کر ان کو حبش کے کچھ لوگ ملے (جو غالبا عیسائی ہوں گے) حلیمہ ؓ ان کے ساتھ ہوگئیں انہوں نے جب آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو آپ ﷺ کی نسبت کچھ دریافت کیا ، اس کے بعد بہت غور سے انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھنا شروع کیا ، دونوں مونڈھوں کے بیچ میں جو مہر نبوت تھی وہ دیکھی ‘ آپ ﷺ کی آنکھوں میں تھوڑی سرخی تھی اس کو دیکھتے رہے ‘ پھر پوچھا کہ ” کیا بچہ کی آنکھوں میں یہ سرخی کسی بیماری سے ہے ؟ “ حضرت حلیمہ ؓ نے کہا نہیں ! یہ ہمیشہ سے اسی طرح ہے ‘ انہوں نے کہا ” خدا کی قسم ! یہ پیغمبر ہے ۔ “ یہ کہہ کر انہوں نے چاہا کہ بچہ کو حضرت حلیمہ ؓ سے چھین لیں ‘ لیکن خدا نے آپ ﷺ کی حفاظت کی ۔ “ ابو نعیم کی اس روایت کا سلسلہ نہایت ضعیف اور کمزور ہے اور اس کے رواۃ مجہول الحال لوگ ہیں ۔ 25۔ کہتے ہیں کہ پیار اور محبت سے حضرت حلیمہ ؓ آپ ﷺ کو دھوپ میں نکلنے نہیں دیتی تھیں ، ایک دن آپ ﷺ اپنی رضاعی بہن کے ساتھ دھوپ میں نکل پڑے حضرت حلیمہ ؓ نے دیکھا تو لڑکی پر خفا ہوئیں کہ تم دھوپ میں کیوں لے گئیں ؟ لڑکی نے کہا اماں جان میرے بھائی کو دھوپ نہیں لگتی ‘ میں نے دیکھا کہ اس پر بادل سایہ کئے تھے جدھر وہ جاتا تھا وہ بھی چلتے تھے اور جہاں وہ رک جاتا تھا وہ بھی رک جاتے تھے ، اس کیفیت سے وہ یہاں تک پہنچا ہے ۔ “ ابن سعد نے دو طریقوں سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ‘ ایک میں تو صرف واقدی کا حوالہ ہے اور اس کے آگے کوئی نام نہیں دیا ہے (ص 7 ج 1 ول) اور دوسرے میں ہے کہ واقدی نے معاذ بن محمد سے اور اس نے عطاء سے اور عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا ، ابن سعد کے علاوہ ابو نعیم ، ابن عساکر اور ابن طرماح نے بھی اس سلسلہ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے مگر اس سلسلہ میں واقدی کے علاوہ معاذ بن محمد مجہول اور نامعتبر ہے ۔ یہاں تک تو ہم نے فضائل ومعجزات کی غلط اور ضعیف روایتوں کی مسلسل تنقید کی ہے ‘ اگر اسی طرح ہم آخر تک نبھانا چاہیں تو یہ دفتران اوراق میں نہیں سما سکتا ، اس لئے ہم صرف مشہور ترین روایتوں کی تنقید پر قناعت کرتے ہیں ۔ 26۔ سب سے مشہور بحیرا راہب کا قصہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ” جب آپ ﷺ دس بارہ برس کے تھے تو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کا سفر کیا ‘ راہ میں ایک عیسائی خانقاہ ملی ‘ جس میں بحیرا نامی ایک راہب رہا کرتا تھا ‘ اس نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اور علامتوں سے پہچان کر یہ جان لیا کہ پیغمبر آخر الزمان اور سردار عالم یہی ہیں ‘ اس نے دیکھا کہ ابر آپ ﷺ پر سایہ فگن ہے ، جس درخت کے نیچے آپ ﷺ بیٹھے ہیں ‘ اس کی شاخیں آپ ﷺ پر جھکی آتی ہیں ، اس نے آپ ﷺ کی خاطر قافلہ کی دعوت کی اور ابو طالب سے باصرار کہا کہ اس بچہ کو مکہ واپس لے جاؤ ، ورنہ رومی اگر اس کو پہچان گئے تو اس کو قتل کر ڈالیں گے (شاید اس لئے کہ آپ ﷺ کے ہاتھوں ان کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا ) ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ رومیوں کا ایک گروہ پہنچ گیا ‘ دریافت سے ظاہر ہوا کہ رومیوں کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان کے ظہور کا وقت آگیا ہے ‘ اس لئے رومیوں نے تحقیق حال کے لئے ہر طرف اپنے دستے روانہ کئے ہیں ، بحیرا نے ان سے کہا کہ ” خدا کی تقدیر ٹل نہیں سکتی ‘ اس لئے بہتر ہے کہ تم واپس جاؤ ۔ “ وہ رک گئے اور ادھر ابو طالب نے آنحضرت ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا اور حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت بلال ؓ کو آپ ﷺ کے ساتھ کردیا اور بحیرا نے کیک اور ناشہ آپ ﷺ کے ساتھ کیا ۔ یہ روایت اختصار اور تفصیل کے ساتھ سیرت کی اکثر کتابوں میں اور بعض حدیثوں میں بھی مذکور ہے مگر ابن اسحاق اور ابن سعد وغیرہ کتب سیر میں اس کے متعلق جس قدر رورایتیں ہیں ان سب کے سلسلے میں کمزور اور ٹوٹے ہوئے ہیں اس قصہ کا سب سے محفوظ طریقہ سند وہ ہے جس میں عبدالرحمن بن عزوان جو ابو نوح قراد کے نام سے مشہور ہے ‘ یونس بن اسحاق سے اور وہ ابوبکر بن ابی موسیٰ سے اور وہ اپنے باپ ابو موسیٰ اشعری ؓ سے اس کی روایت کرتے ہیں ۔ یہ قصہ اس سلسلہ سند کے ساتھ جامع ترمذی ‘ مستدرک حاکم ‘ مصنف ابن بی شیبہ ‘ دلائل بیہقی اور دلائل ابی نعیم میں مذکور ہے ‘ ترمذی نے اس کو حسن و غریب اور حاکم نے صحیح کہا ہے ، استاذ مرحوم نے سیرت کی پہلی جلد (طبع اول ص 130) و (طبع دوم ص 168) میں اس روایت پر پوری تنقید کی ہے اور عبدالرحمن بن عزوان کو اس سلسلہ میں مجروح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اس روایت کو موضوع سمجھتے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلہ سند میں نہ صرف عبدالرحمن بن عزوان بلکہ دوسرے راوی بھی جرح کے قابل ہیں ۔ ا : سب سے اول یہ کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ مسلمان ہو کر 7 ھ میں یمن سے مدینہ آئے تھے اور یہ واقعہ اس سے 50 برس پہلے کا ہے ، حضرت ابو موسیٰ ؓ نہ تو خود آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے اور نہ کسی اور شریک واقعہ کی زبان سے اپنا سننا بیان کرتے ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے ۔ ب : اس واقعہ کو حضرت ابو موسیٰ ؓ سے ان کے صاحبزادے ابوبکر روایت کرتے ہیں ، مگر ان کی نسبت کلام ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کوئی روایت سنی بھی ہے یا نہیں ؟ چناچہ ناقدین فن کو اس باب میں بہت کچھ شک ہے ۔ امام ابن حنبل (رح) نے اس سے قطعی انکار کیا ہے ، بناء بریں یہ روایت مقطع ہے ، اس کے سوا ابن سعد نے لکھا ہے کہ ” وہ ضعیف سمجھے جاتے ہیں ۔ “ ج : ابوبکر سے یونس بن اسحاق اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں ، گو متعدد محدثین نے ان کی توثیق کی ہے ، تاہم عام فیصلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف ہیں ‘ یحییٰ کہتے ہیں کہ ان میں سختی بےپروائی تھی ، شعبہ نے ان پر تدلیس کا الزام قائم کیا ہے امام احمد انکی اپنے باپ سے روایت کو ضعیف اور ان کی عام روایتوں کو مضطرب اور ” ایسی ویسی ‘ کہتے ہیں ، ابو حاتم کی رائے ہے کہ وہ راستہ گو ہیں ‘ لیکن ان کی اپنی باپ سے حجت نہیں ۔ ساجی کا قول ہے کہ وہ سچے ہیں اور بعض محدثین نے ان کو ضعیف کہا ہے ، ابو حاکم کا بیان ہے کہ اکثر ان کو اپنی روایتوں میں وہم ہوجاتا تھا ۔ د : چوتھا راوی عبدالرحمن بن عزوان ہے جس کا نام مستدرک اور ابو نعیم میں ابو نوح قراد ہے ، اس کو اگرچہ بہت سے لوگوں نے ثقہ کہا ہے تاہم وہ متعدد منکر روایتوں کا راوی ہے ، ممالیک والی جھوٹی حدیث اسی نے روایت کی ہے ۔ ابواحمد حاکم کا بیان ہے کہ اس نے امام لیث سے ایک منکر روایت نقل کی ہے ابن حبان نے لکھا ہے کہ ” وہ غلطیاں کرتا تھا اور امام لیث اور مالک سے ممالیک والی حدیث نقل کرنے کی وجہ سے اس کی طرف دل میں خلجان ہے ۔ “ ہ : حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں کہ ” عبدالرحمن بن عزوان کی منکر روایتوں میں سب سے زیادہ منکر بحیرا راہب کا قصہ ہے ‘ اس قصے کے غلط ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس میں یہ ہے کہ ابوبکر ؓ نے بلال ؓ کو آپ ﷺ کے ساتھ کردیا حالانکہ حضرت ابوبکر ؓ اس وقت بچہ تھے اور حضرت بلال ؓ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ و : حاکم نے مستدرک میں اس وقعہ کو نقل کرکے لکھا ہے کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق ہے ۔ حافظ ذہبی مستدرک کی تلخیص میں اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ” میں اس روایت کو بنایا ہوا خیال کرتا ہوں کیونکہ اس میں بعض واقعات غلط ہیں ۔ (مستدرک حاکم ج 2 ص 615) ق : امام بیہقی اس کی صحت کو صرف اس قدر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ” قصہ اہل سیر میں مشہور ہے ۔ “ حافظ سیوطی نے خصائص میں امام موصوف کے اس فقرہ سے یہ سمجھا ہے کہ وہ بھی اس کے ضعف کے قائل ہیں اس لئے اصل روایت میں ابن سعد وغیرہ ہے چند اور سلسلے نقل کئے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ۔ 27۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ دوسری دفعہ کے سفر شام میں جب آپ 6 حضرت خدیجہ ؓ کا مال تجارت لے کے بصری تک تشریف لے گئے تھے ‘ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ اسی سفر میں حضرت خدیجہ ؓ کا غلام میسرہ بھی تھا اس کی زبانی روایت ہے کہ ہر جگہ ابر آپ ﷺ پر سایہ فگن رہتا ، کبھی فرشتے اپنے پروں کا سایہ کرتے تھے ، ایک عیسائی خانقاہ کے قریب جہاں نسطورا راہب رہتا تھا ‘ آپ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا راہب نے یہ دیکھا تو میسرہ سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے ؟ اس نے نام ونشان بتایا ، راہب نے کہا کہ ” اس درخت کے نیچے پیغمبر کے سوا اور کوئی نہیں ٹھہرا ہے ؟ پھر دریافت کیا کہ ان آنکھوں میں ہمیشہ یہ سرخی رہتی ہے ؟ غلام نے اثبات میں جواب دیا ، راہب نے کہا تو یہ یقینا آخر زمانہ کا پیغمبر ہے ‘ تم کبھی اس کی رفاقت نہ چھوڑنا ، “ اسی درمیان میں ایک شخص سے خرید وفروخت میں کوئی جھگڑا پیش آیا ‘ خریدار نے آپ ﷺ سے کہا ” تم لات وعزی کی قسم کھاؤ ۔ “ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں ان کی قسم نہیں کھاتا ۔ “ راہب نے میسرہ سے کہا خدا کی قسم ! یہ پیغمبر ہے اس کی صفتیں ہماری کتابوں میں لکھی ہیں ۔ “ میسرہ کا بیان ہے کہ جب دوپہر کی سخت دھوپ پڑتی تو دو فرشتے آپ ﷺ پر سایہ کرلیتے ، جب آپ ﷺ تجارت سے فارغ ہو کر مکہ آرہے تھے اتفاق سے اس وقت حضرت خدیجہ ؓ چند سہیلیوں کے ساتھ چھت پر تھیں حضرت خدیجہ ؓ کی نظر آپ ﷺ پر پڑی کہ آپ ﷺ اونٹ پر سوار ہیں اور دو فرشتے آپ ﷺ پر سایہ فگن ہیں ۔ انہوں نے یہ منظر اپنی سہیلیوں کو دکھایا اور میسرہ سے اس کا تذکرہ کیا ، میسرہ نے کہا پورے سفر میں یہی تماشا دیکھتا آیا ہوں اور اس کے بعد اس نے نسطورا راہب کی گفتگو بھی ان سے دہرائی ۔ یہ واقعہ ابن اسحاق ‘ ابن سعد ‘ ابو نعیم اور ابن عساکر میں ہے ، ابن اسحاق میں اس روایت کی کوئی سند نہیں ‘ بقیہ کتابوں میں اس کی سند یہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین واقدی سے اور واقدی موسیٰ بن شیبہ سے اور وہ عمیرہ بنت عبداللہ بن کعب سے اور عمیرہ ام سعد بنت کعب سے اور وہ یعلی بن منیہ صحابی کی بہن نفیسہ بنت مینہ ؓ جو صحابیہ تھیں سے روایت کرتے ہیں ‘ واقدی کی بےاعتباری تو محتاج بیان نہیں ‘ اس کے علاوہ موسیٰ بن شیبہ کی نسبت امام احمد بن حنبل (رح) کہتے ہیں احادیثہ مناکیر اس کی حدیثیں منکر ہیں ۔ عمیرہ بنت ابن کعب اور ام سعد کا حال نہیں معلوم ۔ ابن اسحاق ‘ ابن سعد ‘ بیہقی اور ابو نعیم میں ہے کہ قریش نے جب بنو ہاشم کا مقاطعہ کرکے شعب ابی طالب میں محصور کیا اور باہم ایک معاہدہ مرتب کرکے خانہ کعبہ میں رکھ دیا تو چند سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے دیمک کو بھیجا جس نے کاغذ کا کھالیا ، ایک روایت میں ہے کہ خدا کا نام چھوڑ کر باقی عبارت کو جس میں بنو ہاشم کے مقاطعہ کا عہد تھا اس نے کھالیا تھا اور دوسری روایت میں ہے کہ خدا کا نام کھالیا تھا اور بقیہ عبارت چھوڑ دی تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اس واقعہ سے مطلع فرمایا ۔ آنحضرت ﷺ نے ابو طالب سے اس کا ذکر کیا ، ابو طالب نے قریش کو اس کی خبر کی اور بالآخر اس واقعہ کے جھوٹ سے سچ ہونے پر معاہدہ باقی رہنے یا ٹوٹ جانے کا فیصلہ قرار دیا ، کفار نے جب کاغذ کو اتار کر دیکھا تو آنحضرت ﷺ کے قول کی تصدیق ہوگئی۔ ابن اسحاق کی روایت بےسند ہے ‘ بقیہ تمام روایتیں یا واقدی اور ابن لہیعہ سے ہیں جن کا اعتبار نہیں اور یا ثقات سے ہیں تو وہ تمام تر مرسل ہیں ، ان مرسل روایتوں میں اگر کوئی بہتر روایت ہے تو وہ بیہقی ہیں موسیٰ بن عقبہ کی ہے جو امام زہری سے اس کو روایت کرتے ہیں مگر وہ زہری تک پہنچ کر رہ جاتی ہے ، کسی صحابی تک نہیں پہنچتی ۔ 29۔ مشہور ہے کہ ہجرت میں جب آپ ﷺ نے غار ثور میں پناہ لی تو خدا کے حکم سے فورا غار کے منہ پر بنولے یا ببول کا درخت اگ آیا ‘ جس کی ڈالیاں پھیل کر چھاگئیں ‘ کبوتر کے ایک جوڑے نے آکر وہاں انڈے دے دیئے اور مکڑی نے جالے تن دیئے تاکہ مشرکین کو آنحضرت ﷺ کے اس کے اندر ہونے کا گمان نہ ہو ‘ درخت کے اگنے ‘ کبوتر کے انڈے دینے ‘ مکڑی کے جالے تننے ، ان تینوں کا ذکر صرف ابو مصعب مکی کی روایت میں ہے ‘ بقیہ روایتوں میں صرف کبوتروں کے انڈے دینے اور مکڑی کے جالا تننے کا بیان ہے ، بہرحال یہ واقعہ کتب سیر میں ابن اسحاق ابن سعد ‘ دلائل بیہقی اور ابونعیم میں اور کتب حدیث میں سے ابن مردویہ اور بزار میں ہے ، ابن مردویہ ‘ بزار اور بیہقی میں جو روایت ہے نیز ابن سعد اور ابو نعیم کی ایک روایت ابو مصعب مکی سے ہے جو متعدد صحابہ سے اس واقعہ کا سنناظاہر کرتا ہے ، ابو مصعب سے ون بن عمرو القیسی اس کی روایت کرتا ہے لیکن یہ دونوں صاحب پایہ اعتبار سے گرے ہوئے ہی ‘ ابو مصعب مکی مجہول ہے اور عون بن عمرو کی نسبت ابن معین کہتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں ، امام بخاری (رح) فرماتے ہیں کہ وہ ” منکرالحدیث اور مجہول “۔ ابو نعیم میں عون بن عمرو کے بجائے عوین بن عمرو القیسی لکھا ہے ‘ یہ عوین بن عمرو بھی بےاعتبار ہے ، عقیلی نے اس کا ضعفاء میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی روایتوں کی تصدیق نہیں ہوتی اور اس روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ ابو مصعب مجہول ہے ، (سان میزان ترجمہ ابو مصعب مکی وعون بن عمرو اور میزان الاعتدال ترجمہ عون بن عمرو اور عوین بن عمرو) شبلی نعمانی (رح) نے واقعہ ہجرت میں صرف ابو مصعب کی روایت پر تنقید کی ہے ، مگر واقعہ یہ ہے کہ ابو مصعب کے علاوہ اور دوسرے سلسلوں سے بھی یہ مروی ہے چناچہ ابن سعد نے ایک اور طریقہ سے اس واقعہ کی روایت کی ہے مگر اس روایت کا ہر سلسلہ واقدی ہے جس نے متعدد روایتوں کو یکجا کر کے انکی ایک مشترک روایت ہجرت تیار کی ہے ، اس واقعہ کی بہترین روایت وہ ہے جو مسند ابن حنبل میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : فمروا بالغار فراواعلی بابہ نسج العنکبوت فقالوا لودخل ھھنالم یکن نسبح العنکبوت علی بابہ (ج اول ص 348) کفار آپ ﷺ کی تلاش میں غار کے منہ تک پہنچ گئے ‘ دیکھا کہ منہ پر مکڑی کے جال ہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر محمد ﷺ اس کے اندر جاتے تو یہ جال نہ ہوتے ۔ لیکن ان الفاظ سے اس واقعہ کا غیر معمولی ہونا ظاہر نہیں ہوتا ، البتہ اس روایت کی بنا پر اس کو تائیدات میں جگہ دی جاسکتی ہے تاہم یہ روایت بھی قوی نہیں ‘ اس کے روای مقسم ہیں جو اپنے آپ کو مولی ابن عباس ؓ کہتے ہیں اور ان سے عثمان الجزری نامی ایک شخص روایت کرتا ہے ، مقسم کی اگرچہ متعدد محدثین نے توثیق کی ہے اور امام بخاری (رح) نے صحیح میں ان سے حجامت کی روایت نقل کی ہے مگر وہ خود کتاب الاضعفاء میں ان کو ضعیف کہتے ہیں ، ابن سعد نے بھی ان کو ضعیف کہا ہے ‘ ساجی نے لکھا ہے کہ لوگوں نے انکی روایت میں کلام کیا ہے ابن حزم نے لکھا ہے کہ ” وہ قوی نہیں “ اور عثمان الجزری جو عثمان بن عمرو بن ساج الجزری ہے اور کہیں عثمان بن ساج کے نام سے مشہور ہے ۔ گوابن حبان نے اپنے مشہور تساہل کی بنا پر اس کو ثقات میں داخل کیا ہے مگر محدث ابو حاتم کہتے ہیں کہ ” اس کی حدیث لکھی جائے ‘ حجت میں پیش نہ کی جائے ، “ علامہ ذہبی میزان میں اور حافظ ابن حجر نے لسان میں صرف ابو حاتم کا قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نسبت محدثین کا آخری فیصلہ یہی ہے ۔ 30۔ روایتوں میں ہے کہ اسی سفر میں راستہ میں ایک جگہ بکریوں کے ایک چرواہے سے آپ ﷺ نے دودھ طلب کیا ‘ اس نے معذرت کی کہ کوئی دودھ والی بکری نہیں ‘ لیکن آپ ﷺ نے اس کی اجازت سے ایک دودھ والی بکری کے تھن میں ہاتھ لگایا ‘ فورا دودھ نکل آیا ‘ چناچہ سب نے دودھ پیا ، چرواہا یہ دیکھ کر مسلمان ہوگیا ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ چرواہا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ تھے لیکن عام معجزات کے تحت ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا واقعہ زمانہ ہجرت کا نہیں بلکہ وہ کسی اور زمانہ کا ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا واقعہ مسند طیالسی اور مسند احمد میں خود حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی زبانی صحیح روایات کے ساتھ مذکور ہے ، مسند ابویعلی ، مستدرک حاکم اور طبرانی میں بجائے عبداللہ بن مسعود ؓ کے صرف ” عبد “ یعنی ایک غلام کا ذکر ہے جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ، صحابہ میں سے اس کے راوی قیس بن نعمان سکونی ہیں ‘ یہ صرف ایک دفعہ ایک وفد کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور ان سے صرف یہی ایک روایت مروی ہے ، بعضوں نے ان سے ایک اور روایت ہدیہ کی بھی نقل کی ہے ، مگر ظاہر ہے کہ وہ شریک واقعہ نہ تھے ، انہوں نے یہ واقعہ کس سے سنا ؟ معلوم نہیں ‘ اس لئے یہ روایت مرسل ہے اس کے ایک راوی عبید اللہ بن ایاد بن لقیط کی گو اوروں نے توثیق کی ہے ، مگر بزار نے لکھا ہے کہ ” وہ قوی نہیں “ تاہم ذہبی نے تلخیص مستدرک (جلد 3 ص 9) میں اور حافظ ابن حجر نے اصابہ (ترجمہ قیس بن نعمان سکونی میں اس کو صحیح کہا ہے ‘ مگر یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ خود حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جو واقعہ ہجرت کی مفصل روایت صحیح میں ہے ، اس میں ایک غلام کے بکری کے دودھ پلانے کا واقعہ مذکور ہے مگر اس معجزہ کا وہاں نام ونشان بھی نہیں ۔ ہجرت کے موقع پر بےدودھ والی بکری کے تھنوں میں دودھ پیدا ہوجانے کا مشہور ترین معجزہ ام معبد کے خیمہ کا ہے ، کہتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کی راہ میں قبیلہ خزاعہ کے ایک خاندان کا میدان میں خیمہ تھا ‘ ام معبد اور ابو معبد میاں بیوی اس خیمہ میں رہتے تھے اور مسافروں کو آرام پہنچایا کرتے تھے بکریوں کی پرورش پر ان کا گزارہ تھا ‘ صبح کو ابو معبد تمام اچھی اور دودھ والی بکریاں لے کر چراگاہ کو نکل گیا تھا ، صرف بےدودھ والی دبلی بکریاں خیمہ میں رہ گئی تھیں ، اتنے میں آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا ادھر سے گزر ہوا ‘ کھانے پینے کی کچھ چیزیں آپ ﷺ نے قیمتا طلب کیں جو نہیں ملیں ‘ خیمہ کے ایک گوشہ میں ایک بکری نظر آئی آپ ﷺ نے پوچھا کہ ام معبد یہ بکری کیسی ہے ؟ اس نے کہا یہ لاغری سے بکریوں کے ساتھ نہ جاسکی پھر فرمایا کہ اس کے کچھ دودھ ہے ؟ جواب دیا یہ دودھ سے معذور ہے ، راوی کا بیان ہے کہ اس سال خشک سالی تھی اور لوگ قحط میں مبتلا تھے ، فرمایا کہ مجھے اس کے دوہنے کی اجازت ہے ؟ عرض کی میرے ماں باپ قربان ‘ اگر اس کے دودھ ہو تو دودھ لیجئے ، آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور پھر بسم اللہ کہہ کر تھن میں ہاتھ لگایا ‘ فورا اس کے تھنوں میں دودھ اتر آیا ، دودھ سب نے پی لیا اور کچھ بچ گیا اور قافلہ نبوی آگے روانہ ہوا ، کچھ دیر کے بعد ابو معبد آیا دیکھا کہ گھر میں دودھ رکھا ہے تعجب سے پوچھا یہ دودھ کہاں سے آیا ؟۔ بکریاں تو سب میرے ساتھ تھیں ، ام معبد نے ساری قصہ بیان کیا ابو معبد نے کہا ذرا اس شخص کی صورت وشکل بیان کرو ؟ ام معبد نے نہایت تفصیل سے آپ ﷺ کے حسن و جمال اور شکل وشمائل کی تصویر کھینچی جس کو سن کر ابو معبد نے کہا یہ تو خدا کی قسم ! قریش والا آدمی معلوم ہوتا ہے جس کا کچھ حال میں سن چکا ہوں ‘ میری آرزو ہے کہ مجھے اس کی صحبت میسر ہوتی اور جب انشاء اللہ موقع مل گیا تو میں یہ کروں گا اسی وقت مکہ میں کچھ اشعار غیب سے سنے گئے ، یہ اشعار بھی روایت میں ہیں ‘ ان اشعار میں ام معبد کا اس واقعہ کا بیان ہے ۔ حضرت حسان ؓ نے جب ہاتف کی یہ آواز سنی تو ان اشعار کے جواب میں اشعار کہے ۔ (یہ جوابی اشعار بھی روایت میں مذکور ہیں) ۔ یہ روایت بغوی ‘ ابن شاہن ‘ ابن سکن ‘ ابن مندہ ‘ طبرانی ‘ بیہقی ‘ ابونعیم اور حاکم میں ام معبد کے بھائی جیش بن خالد کی زبانی مذکور ہے اور حاکم نے نہ صرف یہ کہ اس کو صحیح کہا ہے بلکہ اور دیگر طریقوں سے بھی اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، مگر معلوم ہے کہ حاکم کے صحیح کہنے کی علماء کی نگاہ میں کوئی قدر و قیمت نہیں ‘ چناچہ حافظ ذہبی نے اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے تصریح کردی ہے کہ ان میں سے کوئی طریقہ سند صحیح کے شرائط کے مطابق نہیں ۔ حافظ ذہبی نے مجملا اسی قدر لکھا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ روایت حاکم کے علاوہ اور کتابوں میں بھی اسی سلسلہ سند سے مذکور ہے اور وہ یہ ہے کہ حزام اپنے باپ ہشام سے اور ہشام اپنے باپ جیش بن خالد خزاعی سے ناقل ہیں ۔ حزام مجہول ہیں ۔ جیش بن خالد سے صرف یہی ایک روایت تمام کتب حدیث میں مذکور ہے ، جیش اصل واقعہ کے وقت موجود نہ تھے ، معلوم نہیں انہوں نے کس سے سنا ؟ اس لئے یہ روایت اگر ثابت بھی ہو تو مرسل ہے حاکم نے دو طریقوں سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، ایک انہیں حزام اور ہشام بن جیش کے ذریعہ سے اور دوسرے حربن صباح سے اور وہ ام معبد کے شوہر ابو معبد سے راوی ہیں ، پہلے طریقہ میں حاکم نے یہ کمال کیا ہے کہ جیش کے بجائے خود ہشام ابن جیش بن خولید (بجائے خالد) کو اصل راوی اور صحابی قرار دیا ہے ، ظاہر ہے کہ اس طریق سے روایت کا ارسال اور بڑھ گیا ہے ہشام کا صحابی ہونا بھی مشکوک ہے ، دوسرے طریقہ میں حربن صباح گوثقہ ہے مگر ابو معبد سے ان کی سماعت ثابت نہیں چناچہ ابن حجر نے ” تہذیب “ میں لکھا ہے کہ حر ابو معبد سے مرسل روایتیں کرتے ہیں ‘ یہ تو ان تمام روایتوں کے اوپر کے راویوں کا حال ہے ، نیچے کے روایوں میں اکثر مجہول لوگ ہیں ، حر والی روایت میں نیچے ایک شخص محمد بن بشر سکری ہے جس کو ازدی نے منکر الحدیث اور ابن عدی نے واہی کہا ہے ، (لسان المیزان) ابو نعیم نے دلائل میں ایک اور صحابی سلیط ابو سلیمان بن سلیط اب سلیمان بن سلیط انصاری بدری سے اس کی روایت کی ہے ، سلیط سے ان کے بیٹے سلیمان اور ان سے ان کے بیٹے سلیمان بن سلیط انصاری روایت کرتے ہیں ، لیکن ان سلیط کا نام صرف اسی روایت کے راوی کی حیثیت سے بعض مولفین سیر صحابہ نے کیا ہے ‘ ورنہ ان کا کوئی حال ہم کو معلوم نہیں ۔ سلیط انصاری ؓ بدری جو مشہور ہیں ‘ وہ سلیط بن قیس انصاری خزرجی بدری ہیں ‘ ان کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا جن سے گو نسل چلی نہیں لیکن ان سے روایت نسائی میں موجود ہے ، مگر سلیط ابو سلیمان انصاری ؓ بدری سے کوئی روایت اس کے سوا موجود نہیں اسی لئے اسماء الرجال صحابہ کے مولفین میں سے بعض نے ان کو سلطہ بن قیس انصاری ؓ بدری کو ایک سمجھا ہے ‘ اگر ایسا ہے تو سلیمان ان کے بیٹے اور محمد ان کے پوتے کا نام نہ تھا اور اگر دو ہیں تو اصحاب بدر کے نام سب گنے ہوئے ہیں ان میں سلیط بن قیس خزرجی کے سوا کوئی دوسرا سلیط نام نہیں پھر یہ مدینہ کے باشندہ تھے اور ام معبد قبیلہ خزاعہ کی تھی اور مکہ اور مدینہ کے بیچ آباد تھا ‘ معلوم نہیں کہ سلیط انصاری ؓ نے کس سے سنا ؟ پھر ان کے بیٹے سلیمان اور پوتے محمد سے ہم کو کوئی واقفیت نہیں ۔ حافظ ابن حجر السان المیزان میں محمد بن سلیمان بن سلیط انصاری کے تحت لکھتے ہیں : ” قال العقیلی مجھول بالنقل روی عن ابیہ عن جدہ فذکر قصہ ام معبد وھو واہ وقال لیس ھذا الطریق محفوظا فی حدیث ام معبد ۔۔۔۔۔۔۔ قال ابن مندہ مجھول : علاوہ ازیں ان روایتوں کے الفاظ ام معبد اور آنحضرت ﷺ کے باہم طرز تخاطب اور اشعار کی زبان اور ابو معبد کی گفتگو میں ایک خاص غرابت ہے جس کو ناقدین حدیث اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ، یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہاتف غیب نے تو اشعار مکہ میں لوگوں کو سنائے اور حسان ؓ نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ‘ مدینہ میں بیٹھے بیٹھے ان کا جواب ان کا جواب کہا ، ہجرت کے سال میں مکہ کے آس پاس قحط کا پڑنا اور خشک سالی ہونا بھی ثابت نہیں ۔ مجھے ہجرت کے موقع پر ان دودھ والی روایتوں کے تسلیم کرنے میں اس لئے بھی پس وپیش ہے کہ ہجرت کے رفیق سفر حضرت ابوبکر ؓ سے واقعات ہجرت کی جو روایت صحیح بخاری میں مذکور ہے اس میں ایک جگہ ایک چرواہے سے دودھ مانگ کر پینے کا ذکر موجود ہے ، مگر اس معجزہ کا مطلق ذکر نہیں ہے ، چناچہ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر ؓ کی زبانی یہ قصہ ان الفاظ میں مذکور ہے ” دفعتا ایک چرواہا نظر آیا جو اپنی بکریوں کو ہانکے کے لئے جا رہا تھا میں نے اس سے پوچھا تم کس قصہ ان الفاظ میں مذکور ہے ” دفعتا ایک چرواہا نظر آیا جو اپنی بکریوں کو ہانکے لئے جا رہا تھا می نے اس سے پوچھا تم کس کے غلام ہو ؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جس کو میں جانتا تھا ، پھر میں نے کہا تمہاری بکریوں کے دودھ ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! میں نے کہا اپنے ہاتھ اور بکری کے تھن جھاڑ کر پیالہ میں دودھ تو دوہو ‘ اس نے دوہا تو میں ‘ آنحضرت ﷺ کے لئے ایک برتن میں رکھ کر اور تھوڑا پانی ملا کر کہ دودھ ٹھنڈا ہوجائے آپ ﷺ کے پاس لایا ‘ آپ ﷺ نے نوش فرمایا (صحیح بخاری باب مناقب المہاجرین) مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کی ایک اجتماعی زندگی شروع ہوگئی تھی ، اور خلوت وجلوت میں ہر موقع پر جان نثاروں کا ہجوم رہتا تھا ‘ اس لئے آپ ﷺ کے واقعات وسوانح کا ایک ایک حرف پہلے سے زیادہ روشن ہوجاتا ہے ‘ اس بنا پر اس زمانہ کے دلائل ومعجزات زیادہ محفوظ طریقہ سے احادیث میں مذکور ہیں اور اس عہد کے متعلق جو غلط اور مشتبہ روایات بعد کو پیدا ہوئی ہیں محدثین نے موضوعات میں اعلانیہ ان کی پردہ دری کردی ہے ، جیسا کہ علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ کی پانچویں جلد میں ان روایتوں کو مع تنقید کے جمع کردیا ہے جب کہ اس کے لئے فن موضوعات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی ان میں تفصیل موجود ہے ۔ مثلا : 1۔ وہ تمام روایتیں جن میں آنحضرت ﷺ کے معجزہ سے حضرت آمنہ ؓ یا کسی اور مردہ کے زندہ ہونے کا بیان ہے وہ سب جھوٹی اور بنائی ہوئی ہیں ۔ 2۔ وہ معجزے جن میں گدھے ‘ اونٹ ‘ بکری ‘ ہرن ‘ گوہ ‘ بھیڑیئے ‘ شیر وغیرہ جانوروں کے انسانوں کی طرح بولنے یا کلمہ بڑھنے کا ذکر ہے ‘ بروایت صحیحہ ثابت نہیں ہیں ۔ یعنی ضعیف روایتوں میں گو یہ آیا ہے لیکن ان کو صحیح کا درجہ حاصل نہیں ، ان روایتوں میں سے ایک بھڑنیئے کے بولنے کا قصہ زیادہ مشہور ہے جو دلائل بیہقی ‘ مسند احمد ‘ حاکم اور ترمذی میں بطرق متعددہ مذکور ہے جس میں سب سے قوی حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت ہے ‘ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے بشرط مسلم کہا ہے ۔ (مستدرک ج 4 ص 467) لیکن امام بخاری (رح) نے کہا کہ اس کی سند قوی نہیں ۔ (زرقانی علی المواہب ص 193) 3۔ ایسی روایتیں جن میں آنحضرت ﷺ کے لئے آسمان سے خوان نعمت یا جنت سے میوؤں کے آنے کا ذکر ہے موضوع یا ضعیف ہیں ۔ اس قسم کی ایک روایت مسند احمد (ج 4 ص 104) دارمی ص 12 نسائی ‘ حاکم ‘ بزار ‘ ابو یعلی اور طبرانی میں سلمہ بن نفیل سکونی سے مروی ہے ۔ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے لیکن ذہبی نے اس کے استدراک میں اس کو سندصحیح کہا ہے لیکن غرائب صحاح میں قرارا دیا ہے ۔ (مستدرک حاکم ج 2 ص 447 ‘ 448 ، وخصائص کبری سیوطی ج 2 ص 56 حیدر آباد) 4۔ وہ روایتیں جن میں حضرت خضر (علیہ السلام) یا الیاس (علیہ السلام) سے ملنے یا ان کے سلام وپیام بھیجنے کا بیان ہے صحت سے خالی ہیں ۔ 5۔ عوام میں مشہور ہے کہ آنحضرت ﷺ کا سایہ نہ تھا لیکن یہ کسی روایت سے ثابت نہیں ہے ۔ 6۔ روایت ہے کہ آپ ﷺ قضائے حاجت سے واپس آتے تو وہاں کوئی نجاست باقی نہیں رہتی تھی ‘ یہ سرتاپا موضوع ہے ۔ 7۔ واعظوں میں مشہور ہے کہ ابوجہل کی فرمائش سے اس کے ہاتھ کی کنکریاں آنحضرت ﷺ کے معجزہ سے کلمہ پڑھنے لگیں ‘ لیکن یہ ثابت نہیں ۔ 8۔ وہ تمام حکایات جن سے ہماری زبان میں کتب وفات نامہ اور ہر نی نامہ ترتیب پائی ہیں ، تمام تر جھوٹی ہیں ۔ 9۔ ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک دفعہ حضرت علی ؓ کے زانو پر سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے ‘ آفتاب ڈوب رہا تھا اور نماز عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا لیکن حضرت علی ؓ نے ادبا آپ ﷺ کو جگانا نامناسب سمجھا ‘ جب آفتاب ڈوب گیا تو دفعتا آپ ﷺ بیدار ہوئے اور دریافت فرمایا کہ تم نے نماز پڑھی ؟ عرض کی نہیں ! آپ ﷺ نے دعا کی فورا آفتاب لوٹ کر نکل آیا ، یہ روایت بھی صحیح طریقہ سے ثابت نہیں ہے ، بعض علمائے اہل سنت مثلا قاضی عیاض ‘ ابو حفص طحاوی اور عام علمائے روافض نے اس روایت کے ضعف کو دور کرنے کی کوشش کی ہے مگر عام ائمہ رجال کا رجحان اس روایت کے موضوع یا کم ازکم ضعیف ہونے کی طرف ہے ابن جو زی نے موضوعات میں شمار کیا ہے ۔ حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے استاذ حافظ مزی اور امام ذہبی نے بھی اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج 6 ص 282) 10۔ ایک روایت ہے کہ آنحضرت کا چہرہ مبارک اس قدر روشن تھا کہ اندھیرے میں آپ (علیہ السلام) جاتے تھے تو اجالا ہوجاتا ‘ چناچہ ایک دفعہ رات کو حضرت عائشہ ؓ کے ہاتھ سے سوئی گر گئی ‘ تلاش کی نہیں ملی دفعتا آپ ﷺ تشریف لے آئے تو چہرہ مبارک کی روشنی میں سوئی چمک اٹھی اور مل گئی یہ بالکل جھوٹ ہے ۔ گو ان میں سے بعض روایتوں کو اہل سیر اور مصنفین نے فضائل نبوی میں اپنی کتابوں میں درج کیا ہے مگر اس سے ان کی صحت ثابت نہیں ہوتی اور اگر ان میں کوئی روایت سندا صحیح ثابت ہوجائے تو اس خاکسار ہیچ دان کو اس کے قبول میں کوئی عذر نہیں ۔ وفوق کل ذی علم علیم۔ ان روایتوں کی تنقید سے غرض نعوذ باللہ فضائل نبوی میں کلام نہیں ہے بلکہ یہ اعتقاد ہے کہ حضور انور ﷺ کی ذات پاکی طرف جو بات منسوب کی جائے وہ ہر طرح صحیح ہو۔ آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے : 114۔ اللہ تعالیٰ ہی کی وہ ذات جو تمہارے مفاد کو بھی خوب جانتا ہے اور تمہاری ہٹ دھرمی کو بھی خوب دیکھ رہا ہے کہ باوجود وضوع دلائل اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں ، وہ خود ہی تو نبوت و رسالت کی حقیقت کو بیان کرنے والا ہے اس لئے اس کے علم میں ہے کہ حقانیت قرآن پر کتنے دلائل جمع ہیں لیکن اہل فساد اپنی ضد وجہل سے انکار کئے چلے جا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شہادت عقلی یہ تھی کہ ہر طرح کی بےسروسامانی کے باوجود نصرت الہی اعلانیہ داعی اسلام ﷺ کا ساتھ دے رہی تھی ، مطلب یہ ہے کہ جس جس طرح میں تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تمہاری اصلاح حال کے لئے کوشش کررہا ہوں اسے بھی اللہ جانتا ہے اور جو جو کچھ تم میری مخالفت میں کر رہے ہو اس کو بھی وہ دیکھ رہا ہے اور فیصلہ آخر کار اسی کو کرنا ہے اس لئے اس کا دیکھنا اور جاننا کافی ہے ۔
Top