Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 95
قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا
قُلْ : کہ دیں لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَلٰٓئِكَةٌ : فرشتے يَّمْشُوْنَ : چلتے پھرتے مُطْمَئِنِّيْنَ : اطمینان سے رہتے لَنَزَّلْنَا : ہم ضرور اتارتے عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَلَكًا : فرشتہ رَّسُوْلًا : اتارتے
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ تو کہہ دے اگر ایسا ہوا ہوتا کہ زمین میں فرشتے بسے ہوتے اور اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور آسمان سے (ان فرشتوں کیلئے) ایک فرشتہ پیغمبر بنا کر اتار دیتے
اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے : 113۔ گزشتہ سوال کا جواب دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بشر کی رسالت کو تسلیم نہ کرنے والو ! اچھی طرح سن لو کہ اگر زمین پر انسانوں کی جگہ فرشتے بستے ہوتے تو ہم انکی ہدایت کے لئے فرشتے ہی اتارتے لیکن یہاں تو انسان بستے ہیں اور انسانوں ہی کی ہدایت مقصود ہے پس ان کی ہدایت کی صدائیں انسانوں ہی کی زبان سے نکلیں گے فرشتے نہیں اتر سکتے اور نہ ہی کبھی عام انسانوں کی ہدایت کے لئے فرشتے اترے ہیں ۔ ہاں ! ایک بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ منکروں کی یہ فرمائشیں حجت وبرہان کی طلب میں نہ تھیں بلکہ محض سرکشی اور ہٹ دھرمی کی باتیں تھیں جو اس لئے کہی جاتی تھیں کہ کوئی نہ کوئی بات کہہ کر اپنے انکار کے لئے سہار پیدا کیا جائے اور ہمیشہ راست بازوں کے مقابلہ میں نہ ماننے والوں کا ایسا ہی طرز عمل رہا ہے ۔ جب کبھی سچائی کی کوئی بات کہی جاتی ہے تو طلب حق رکھنے والی طبیعتیں اور کسی طرح نہٰں جاتیں خود اس بات پر غور کرتی ہیں اور جب سچائی پالیتی ہیں تو فوار قبول کرلیتی ہیں لیکن ایک سرکش اور ہٹ ڈھرم آدمی کبھی ایسا نہیں کرتا وہ پہلے سے طے کرلیتا ہے کہ وہ کبھی ماننے والا نہیں پھر کوشش کرتا ہے کہ اپنے نہ ماننے کے لئے کوئی بات بنا لے ‘ وہ طرح طرھ کی باتیں ادھر ادھر کی نکالے گا اور کہے گا اس کا جواب تمہارے پاس کوئی نہیں ، یہاں تک کہ اگر تم اس کی ساری کٹ حجتیوں کا جواب دے دو اور ساری شرطیں اور فرمائشیں پوری کر دو جب بھی وہ کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرلے گا اور راست بازی کی راہ کبھی نہیں چلے گا چناچہ قرآن کریم نے جابجا منکروں کی اس حالت کا ذکر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ کبھی ماننے والے نہیں ۔ اگر ماننے والے ہوتے تو اس طرح کی روش کبھی اختیار نہ کرتے ۔ اس کی مزید تفصیل دیکھنا چاہتے ہو تو ” عروۃ الوثقی “ جلد سوم میں سورة الانعام کی آیت 111 کی تفسیر دیکھیں ۔ اس جگہ گزشتہ آیات میں ان کے جو اقوال قرآن کریم نے نقل کئے ہیں ان پر غور کرو پہلے کہا نہر بہادو ، باغ اگا دو ‘ سونے کا ایک محل ہی لا دکھاؤ ‘ خود اللہ اور اس کے فرشتون کو ہمارے سامنے لاکھڑا کرو پھر کہا آسمان پر چڑھ جاؤ لیکن کی آسمان پر چڑھ جانا کافی ہوگا ؟ نہیں اس پر بھی وہ ماننے والے نہیں ۔ یہ بھی ہونا چاہئے کہ وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب اپنی بغل میں دا بے ہوئے واپس آؤ اور پھر وہ لکھی ہوئی کتاب بھی ایسی ہو کہ وہ کود اسے پڑھ کر جانچ سکیں ، تب کہیں جا کر ان کی شرط پری ہوگی ، ظاہر ہے کہ کسی راست باز آدمی کی زبان سے ایسی باتیں نہیں نکل سکتیں اس کے معنی صریح یہی تھے کہ وہ کبھی ماننے والے نہیں ، حالانکہ بات تو بالکل سیدھی ہے کہ انسانوں کی طرف آنے والا رسول انسان ہی ہونا چاہئے تھا کہ وہ انسان نہ ہوتا تو ان کے کرنے کے کتنے ہی اعراض ہوتے ہاں ! اگر اس دھرتی میں فرشتے بستے ہوتے اور ان کی ہدایت کی ضرورت ہوتی تو اللہ کسی فرشتہ ہی کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیجتا ، ان کو اپنا تجزیہ کرکے دیکھنا چاہئے کہ یہ انسان ہیں یا فرشتے ؟ پھر اگر انسان ہیں تو ان کا یہ اعتراض کبھی صحیح نہیں ہو سکتا ۔ ایک بار پھر غور کرو کہ قرآن کریم نے بشریت رسول کے متعلق کتنی واضح اور دو ٹوک بات ارشاد فرما دی کہ انسانوں کے لئے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے نہ غیر جنس اور پھر جو انسان ہوگا اس کے ساتھ لوازم بشریت بھی ہوں گے اور یہ لوگ روحانی امور کو جسمانی رنگ میں دیکھنے کے خواہاں ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ فرشتے ان کو نظر آئیں مگر فرشتے انسانوں کی طرف رسول بن کر نہیں آسکتے کیونکہ رسول کا کام تو نمونہ دکھانا ہے اور نمونہ جنس ہی جنس کے لئے ہوسکتی ہے غیر جنس نہیں ہو سکتی انسانوں کی جگہ فرشتے زمین پر آباد ہوتے تو فرشتے ہی ان کی طرف رسول بن کر آتے اور خود پیغمبر پر فرشتہ کا آنا اس کے منافی نہیں کیونکہ پیغمبر بھی فرشتہ کو اس حواس جسمانی سے نہیں بلکہ حواس روحانی ہی سے دیکھتے ہیں بالکل انہیں حواس سے جن حواس سے وہ اللہ کا کلام سنتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو پیغمبروں کو اس صفت میں تمام انسانوں سے جدا کرتی ہے اور پھر یہ صفت ان میں کسبی نہیں تھی بلکہ وہبی تھی ، جس طرح عورت اور مرد دونوں ایک جنس سے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں کی فطرت میں فرق موجود ہے اور وہ فرق کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے مرد وہی مرد ہے جس کو اللہ نے مرد تخلیق کیا ہے اور عورت وہی عورت ہے جس کو اللہ نے عورت تخلیق کیا ہے بالکل اسی طرح نبی ورسول بھی وہی ہوتا تھا جس کو اللہ نبوت و رسالت کے لئے تخلیق کرتا تھا اور وہ بشر ہونے کے باوجود عام انسانوں سے نبوت و رسالت کا فرق رکھتے تھے ، اب جب کہ نبوت و رسالت ختم کردی گئی لیکن بعض لوگ جن کی چھٹی حس تیز ہوتی ہے وہ اس وقت بھی موجود تھے اور اب بھی ہیں اور رہتی دنیا تھا رہی گے ۔ زیر نظر آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے یہ حواس فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتے بلکہ وہ روحانی حواس ہی کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں ہاں ! فرشتوں کو کوئی مرئی جسم عطا کیا جائے جو اس کا اصل اور حقیقی جسم نہیں ہوتا تو اس جسم سے وہ کام ممکن نہیں جو حقیقی اور اصلی جسم سے ممکن ہوتے ہیں اور اس طرح کے عطائی جسم سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح کا عطائی جسم انسان کے لئے بھی ہوتا ہے جس کو بعض اوقات انسان خود دیکھتا ہے جیسے خواب میں اور ذہن وفکر میں نبی اعظم وآخر ﷺ جو ملائکہ کو دیکھتے تھے اور جبرئیل شب روز آپ ﷺ کے پاس آتے تھے وہ وہی حواس انبیاء سے دیکھنا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا جبریل کو دحیہ کلبی کی شکل و صورت میں دیکھنا اس عطائی جسم کے باعث تھا ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح فرشتہ انسانوں کی طرح رسول نہیں ہوسکتا اس طرح انسان فرشتوں کی طرف بھی رسول نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان جنوں کی طرف جو انسان کی جنس سے نہیں بلکہ دوسری جنس کی غیر مرئی ہستیاں ہیں جس جنس کو اپنی تکمیل کے لئے رسول کی ضرورت ہے اس رسول کا اس جنس میں سے ہونا ضروری ہے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جنوں کے آنے سے اور قرآن کریم کو سننے سے اور اس پر ایمان لانے سے کیا مراد ہے ؟ اس کی وضاحت انشاء اللہ العزیز سورة الاحقاف میں آئے گی کیونکہ وہی مقام اس بحث کا متحمل ہے ۔ نبوت و رسالت کی اصل حقیقت کو الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں : قریش مکہ کی کٹ حجتیوں کا جو جواب ان کو دیا گیا اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ کوئی نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آیت ونشانی جس کو عام لوگوں کی زبان میں معجزہ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے نہیں لاتا تھا بلاشبہ پیغمبر کا اصل معجزہ اور اس کے من جانب اللہ ہونے کی کھلی نشانی خود اس کا سرتاپا وجود ہوتا تھا ، دیکھنے والوں کے لئے اس کے چشم وابرو میں ‘ سننے والوں کے لئے اس کے لب و لہجہ میں اور سمجھنے والوں کے لئے اس کے پیام دعوت میں واعجاز ہی اعجاز ہوتا تھا لیکن جو لوگ احساس حقیقت میں فروتر ہوتے ہیں انکو اس سے تسکین نہیں ہوتی اور وہ مادی اور محسوس نشانیوں کے متلاشی ہوتے ہیں اس لئے اللہ نے ان کے اطمینان یا لاجواب کرنے کے لئے بھی انبیاء کرام (علیہم السلام) میں ایک مخفی قوت ودیعت کی ہوئی تھی جس کو الفاظ میں نہیں بتایا جاسکتا جس طرح ہم کبھی یہ نہیں بتا سکتے کہ خاص خاص پھول ‘ خاص خاص درخت ‘ خاص خاص ستارے ‘ فلاں فلاں معین اوقات ہی پر کیوں جلوہ نماز ہوتے ہیں ، گلاب کے پھول سرخ و سیاہ کیوں ہوتے ہیں اور چنبیلی وچنبہ کے سفید کیوں ؟ ستارے چمکتے کیوں ہیں ؟ شہد میٹھا کیوں ہوتا ہے ؟ چاند اور سورج اپنے محور کے درمیان کیوں ظہور اپنے اپنے وقتوں پر کیوں کر ہوتا تھا اور ان سے ایسے افعال کیونکر صادر ہوتے تھے جو دوسرے انسانوں سے صادر نہیں ہو سکتے اگرچہ وہ فطرت کے خلاف نہیں ہوتے تھے ۔ دلائل وبراہین کا تعلق انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سیرتوں سے : قرآن کریم اور دوسرے صحائف آسمانی انبیاء کرام (علیہم السلام) کے جو قصص اور واقعات مذکور ہیں ان میں ان کے روحانی حالات و کیفیات یعنی دلائل وبراہین اور آیات ونشانات کا ذکر نہایت موثر اور عبرت انگیز طریقہ سے کیا ہے ‘ سیر ملکوت ‘ مکالمہ الہی ‘ رؤیت ملائکہ ‘ رویائے صادقہ ‘ استجابت دعا ‘ طوفان نوح آتش خلیل ‘ عصائے موسیٰ ‘ نفس عیسیٰ اور اسی قسم کے اور بھی بہت سی کیفیات و حالات کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آیا ہے اور ان کے ساتھ ان کے عواقب ونتائج بھی نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انباء کرام (علیہم السلام) کی سیرت سے ہر زمانہ میں ان چیزوں کو خاص تعلق رہا تھا اور اس وجہ سے وہ واقعات ان کی زندگی کا جزولاینفک ہوگئے تھے ، انبیاء کرام (علیہم السلام) کی زندگی اگرچہ گوناگوں واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے ان تمام واقعات کا مرکز صرف یہ ہوتا ہے کہ ان خاندان کو اخلاق ذمیمہ کے خس و خاشاک سے پاک کرکے محاسن اخلاق کے گل وریحان سے آراستہ کیا جائے تاکہ برکات آسمانی کا دامن کانٹوں سے الجھنے نہ پائے اس مقدس فرض کے ادا کرنے میں اگرچہ کبھی کبھی انبیاء کرام (علیہم السلام) کو مادی آلات سے بھی کام لینا پڑتا تھا لیکن وہ لوگ اکثر اپنی روحانی طاقت سے اس مقصد میں کامیاب ہوتے تھے اور مادی آلات کے استعمال میں بھی ان کے جسمانی دست وبازو سے زیادہ ان کے روحانی دست وبازو کام کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے واقعات زندگی میں ان دلائل وآیات کو نہایت اہمیت دی ہے اور ان کے ذکر سے گویا انبیاء کرام (علیہم السلام) کے تمام حالات زندگی کو سلسلہ علل واسباب سے مربوط کردیا ہے : دلائل وآیات کا تعلق سیرت نبی اعظم وآخر ﷺ سے : نبی اعظم وآخر ﷺ کی سیرت طیبہ تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کے واقعات زندگی کا خلاصہ ‘ ان کی تعلیمات کا عطر اور ان حالات ومشاہدات کا برزخ ہے ، آپ ﷺ ایک عالمگیر اور ابدی مذہب لے کر مبعوث ہوئے اس لئے آپ ﷺ نے ایک ہی خطاب کے ساتھ ان تمام لوگوں کو مخاطب فرمایا جن کو طوفان نوح دفعتا بہا لے گیا تھا ‘ جن کو دریائے قلزم کی نہریں نگل چکی تھیں ‘ جن کو نفس عیسیٰ (علیہ السلام) نے دوبارہ زندہ کردیا تھا اور اس سب سے بڑھ کر آپ ﷺ کا مخاطب ایک گروہ اور بھی تھا جو ان چیزوں کو صرف عجائب پرستی کی نگاہ سے نہیں بلکہ ژوف نگاہی سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا ، اس بناء پر جس چشمہ فیض نے اسباط موسیٰ (علیہ السلام) کو سیراب کیا تھا وہ ان تشنہ کا مان روحانیت سے کیونکر بےپروا ہو سکتا تھا ، چناچہ اس نے نبی کریم ﷺ کی ذات کو ان تمام معجزات کا مجموعہ بنا دیا جو علی قدر مراتب ہر طبقہ ‘ ہر فرقہ اور ہر گروہ کے لئے ضروری تھے ، آپ ﷺ کے اخلاق و عادات معجزہ تھے ‘ آپ ﷺ کی شریعت معجزہ تھی ‘ آپ ﷺ پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بڑا کوئی اور معجزہ نہیں ہوسکتا ان کے علاوہ آپ ﷺ کی روحانی طاقت نے جسم وروح دونوں کی کائنات میں بہت کچھ اثر ڈالا ۔ اس نے کبھی طوبی کے سایہ میں آپ ﷺ کے لئے بستر لگایا ‘ کبھی سدرۃ المنتھی کے حدود میں رف رف کی سواری کھڑی کی ‘ کبھی (ماکذب الفؤاد) کے نور سے قلب مبارک کو منور کیا اور کبھی (مازاغ البصر) کے سرمہ سے آپ ﷺ کی آنکھوں کو روشن کیا ، کبھی نزول رحمت الہی کے لئے آسمان کے دروازے کھولے ، کبھی وادی حق کے پیاسوں کے لئے زمین کی تہ سے پانی کے چشمے نکالے ‘ کبھی سنگ خار کے شراروں کی روشنی میں قیصر و کسری کے خزانے دکھائے ‘ کبھی انبیائے سابقین کی زبان الہام سے اپنی کامیابی کے نغمہ ہائے بشارت سنائے اور آئندہ دنیا کے واقعات غیب بتا کر رہروان عالم کو منزل حقیقت کے نشان دکھائے ، علاوہ ازیں آپ ﷺ کے معجزات کی تعداد اتنی کثرت سے ہے کہ انکو شمار کرنے لگیں تو مشکل ہی سے ہو سکیں ہم نے آپ ﷺ کے معجزات کا مختصر ذکر اس سورت کے شروع میں ہی کردیا ہے جو آیات 1 تا 10 کے تحت ملاحظۃ کریں ، تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شائقین معجزات نے بیسیوں معجزات گھڑ کر نبی اعظم وآخر ﷺ کے نام سے منسوب کردیئے ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی ان کو معجزہ کہا جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ آج کل واعظین اسلام اور علمائے کرام نے انہیں معجزات کو معجزات کے نام سے متعارف کرایا ہے اور اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف کی گئی ہیں اور یہی کتابیں ہیں جنہوں نے معجزات کو جھوٹی اور غیر مستند روایتوں کا ایک انبار لگا دیا ہے اور ان ہی سے میلاد و فضائل کی تمام کتابوں کا سرمایہ مہیا کیا گیا ہے ، خوش اعتقادی اور عجائب پرستی نے ان غلط معجزات کو اس قدر شرف قبولیت بخشا ہے کہ ان کے پردہ میں آپ ﷺ کے تمام صحیح معجزات چھپ کر رہ گئے اور حق و باطل کی تمیز مشکل ہوگئی ‘ حالانکہ اس تمام ذخیرہ سے کتب صحاح اور خصوصا بخاری ومسلم یکسر خالی ہیں لیکن ترسای اور چوتھی صدی میں اس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئیں وہ اس درجہ نے بےاحتیاطی کے ساتھ لکھی گئیں کہ محدثین ثقات نے بیشتر کو ناقابل اعتبار قرار دیا ، کتب دلائل کے ان مصنفین کا مقصد معجزات کی صحیح روایات کو یجا کرنا نہیں بلکہ کثرت سے عجیب وحیرت انگیز واقعات کا مواد فراہم کرنا تھا تاکہ خاتم المرسلین ﷺ کے تمام فضائل ومناقب کے ابواب میں معتدبہ اضافہ ہو سکے ‘ بعد کو جو احتیاط پسند محدثین آئے مثلا زرقانی وغیرہ وہ ان روایات کے نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تردید اور تضعیف بھی کرتے گئے ، لیکن جو چیز اس وسعت کے ساتھ پھیل گئی ہو جو اسلامی لٹریچر کا ایک جزو بن گئی ہو ‘ جو اس کے رگ وپے میں سرایت کرگئی ہو ‘ اس کے لئے اس قدر کافی نہیں بلکہ وہ مزید تنقید کے محتاج ہیں خصوصا اس لئے کہ ہمارے ملک میں میلاد کی مجلسوں میں جو بیانات پڑھے جاتے ہیں وہ تمام تر ان ہی بےبنیاد روایتوں سے بھرے ہوئے ہی ۔ اس تنقید کے تین حصے ہو سکتے ہیں : 1۔ اصول روایت کی بنا پر ان کتابوں کا اور محدثین میں ان کے مصنفوں کا درجہ کیا ہے ؟ ۔ 2۔ ان کتابوں میں جو غلط موضوع اور ضعیف معجزات مذکور ہیں ان کے پیدا ہونے کے اسباب کیا ہیں ؟ 3۔ ان کتابوں کے خاص خاص مشہور اور زبان زد معجزات کی روایتی حیثیت کیا ہے ؟ کتب دلائل اور ان کے مصنفین کا درجہ : علمائے اسلام نے روایات کی تنقید اور ان کے اصول کے منضبط کرنے میں جو کوششیں کی ہیں اور جو خدمات انجام دی ہیں ان کی پوری اس سورت کے شروع میں گزرچکی ہے ‘ اسی سلسلہ میں یہ بات بھی ضمنا آگئی ہے کہ ان روایات کی جانچ اور نقید میں جن کا تعلق احکام فقہی سے ہے ‘ محدثین نے جو سختی اور شدت اختیار کی ہے وہ مناقب اور فضائل کے باب میں نہیں کی ہے ، چناچہ علم حدیث کے سارے اماموں نے اعلانیہ اس کا اعتراف کیا ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ آیات قرآنی کے الگ الگ فضائل ‘ نام بنام خلفاء کے مناقب مقامات اور شہروں کے محامد اعمال انسانی کے مبالغہ آمیز ثواب و عواقب کے بیانات ‘ حضرت ﷺ کے متعلق کاہنین عرب کی پیش گوئیاں اور اشعار اور عجیب و غریب صحیح فضائل معجزات اور برکات وغیرہ کا یہ بےپیایاں دفتر روایات میں موجود اور کتابوں میں مدون ہے ۔ یہ روایات زیادہ تر تیسرے اور چوتھے درجہ کی کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں ، تیسرے درجہ میں بقول شاہ ولی اللہ (رح) یہ کا بیں ہیں حجۃ اللہ البالغہ باب طبقات ‘ کتب حدیث) مسند ابو یعلی ‘ مصنف عبدالرزاق ‘ (رح) مصنف ابی بکر بن ابی شیبہ ‘ مسند عبد بن حمید ‘ مسند طیالسی ‘ بیہقی ‘ اور طبرانی کی تصنیفات ان میں سچی ‘ جھوٹی ‘ اچھی بری ‘ قوی ‘ ضعیف ہر قسم کی احادیث پہلو بہ پہلو درج ہیں اور چوتھے درجہ میں وہ کتابیں ہیں جن کے مصنفین صدیوں کے بعد پیدا ہوئے ، انہوں نے چاہا کہ اول اور دوم درجوں میں جو روایتیں داخل نہیں کی گئی تھیں ان کو ایک جگہ جمع کردیں ‘ یہ روایتیں ان لوگوں کی زبانوں پر تھیں جن کی روایتوں کو حدیث کے اماموں نے قلم بند کرنا پسند کیا تھا اور قصہ گو واعظین محض ان سے رونق محفل کا کام لیتے تھے ، اسرائیلیات ‘ اقوال حکماء اشارات حدیث ‘ قصص و حکایات اور روایات نامعتبر کو انہوں نے حدیث کا درجہ دے کر کتابوں کے اوراق میں مدون کردیا ، کتاب ضعفاء لابن حبان کامل لابن عدی اور خطیب ‘ ابو نعیم ‘ جو زقانی ‘ ابن عساکر ‘ ابن نجار اور دیلمی کی تصنیفات کا اسی طبقہ میں شمار ہے ۔ اس تفصیل کے بعد شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ‘ ” صرف اول اور دوم درجہ کی کتابوں پر (یعنی صحاح ستہ پر) محدثین کا اعتماد ہے اور ان ہی پر ان کا مدار ہے ، تیسرے طبقہ کی کتابوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو فن کے ناقد اور جوہری ہیں ‘ جن کو اسماء الرجال پر عبور اور علل حدیث سے واقفیت ہے ۔ غرض جو صحیح اور غلط اور خطاء وصواب میں کامل امیتاز رکھتے ہیں ‘ چوتھے طبقہ کی کتابوں کی جمع اور تدوین کرنا اور ان کو کام میں لانا متاخرین کی ایک قسم کی بےفائدہ کی کاوش فکر ہے ۔ آنحضرت ﷺ کے آیات ومعجزات پر جو مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے کچھ تیسرے طبقہ میں اور بقیہ تمام تر چوتھے طبقہ کی کتابوں میں داخل ہیں ، متاخرین نے عام طور سے یہ سرمایہ جن کتابوں سے حاصل کیا ہے وہ طبری طبرانی ‘ بیہقی ‘ دیلمی ‘ بزار اور ابو نعیم اصفہانی کی تصنیفات ہیں ۔ حافظ قسطلانی نے ان میں ہی روایات کو تمیز اور نقد کے بغیر مواہب لدنیہ میں داخل کیا اور معین فراہی نے ان کو معارج النبوۃ میں فارسی زبان میں اس آب ورنگ سے بیان کیا کہ یہ روایتیں گھر گھر پھیل گئیں اور عوام نے اس شیفتگی اور وارفتگی کے ساتھ ان کو قبول کیا کہ اصلی اور صحیح معجزات اور آیات بھی اس پردہ میں چھپ کر رہ گئے ۔ مواہب لدنیہ اور معارج النبوۃ وغیرہ کا سرمایہ جن کتابوں سے ماخوذ ہے وہ حسب ذیل ہیں : کتاب الطبقات لابن سعد ‘ سیرت ابن اسحاق ‘ دلائل النبوۃ ابن قتیبہ المتوفی 276 ھ دلائل النبوۃ ابو اسحاق حربی المتوفی 255 ھ شرف المصطفی ‘ ابوسعید ‘ عبدالرحمن بن حسن اصفہانی المتوفی 2407 ھ تاریخ و تفسیر ابو جعفر بن جریر طبری المتوفی 310 ھ ‘ مولی یحی بن عائد دلائل النبوہ جعفر ابن محمد مستغفری المتوفی 732 ھ دلائل النبوۃ ابوالقاسم اسمعیل اصفہانی المتوفی 535 ھ تاریخ دمشق ابن عساکر المتوفی 571 لیکن متاخرین میں ان روایات کا سب سے بڑا خزانہ یہ دو کتابیں ہیں ‘ کتاب الدلائل ابو نعیم اصفہانی المتوفی 430 ھ اور کتاب الدلائل امام بیہقی المتوفی 430 ھ ۔ ان بزرگوں کے بذات خود معتبر اور مستند ہونے میں کسی کو کم کلام نہیں ‘ جو کچھ کلام ہے وہ اس میں ہے کہ انہوں نے ہر قسم کے راویوں سے ہر قسم کی روایتیں نقد اور تمیز کے بغیر اخذ کیں اور ان کو کتابوں کے اوراق میں مدون کردیا اور عام لوگوں نے ان مصنفین کی عظمت اور جلالت کو دیکھ کر ان روایتوں کو قبول کرلیا ‘ حالانکہ ان میں نہ صرف ضعیف اور کمزور بلکہ موضوع حدیثیں تک موجود ہیں اور ان کے سلسلہ روایت میں ایسے راوی آتے ہیں جن کو محدثین کے دربار میں صف نعال میں بھی جگہ نہیں مل سکتی ۔ ان مصنفین نے یہ سمجھ کر چونکہ ہر قسم کا سلسلہ روایت لکھ دیا گیا ہے اور لوگ اس سلسلہ روایت کو دیکھ کر صحیح اور غلط ‘ سچی اور جھوٹی روایت کا خود فیصلہ کرلیں گے ، ان روایتون کی تدوین میں ضروری احتیاطیں مدنظر نہ رکھیں یا یوں کہو کہ عشق نبوی نے فضائل ومناقب کی کثرت کے شوق میں ہر قسم کی روایتوں کے قبول کرنے پر ان کو آمادہ کردیا ‘ حالانکہ خود اسی جذبہ عشق اور اسی ولولہ شوق نے ثقات محدثین اور علم حدیث کے اکابر کو روایتوں اور راویوں کے نقد اور بحث میں اس قدر سخت گیر بنا دیا تھا کہ وہ ایک لفظ بھی تحقیق اور کاوش کے بغیر آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرنا گناہ عظیم سمجھتے تھے اور من کذب علی متعمدا کی داروگیر سے ہمیشہ ڈرتے اور کانپتے رہتے تھے ، محدث ابن مندہ نے کتاب الدلائل کے مصنف حافظ ابو نعیم اصفہانی کی نسبت نہایت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں ، علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان دونوں معاصرین کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : لا اعلم لھما ذنبا اکثر من روایتھما الموضوعات ساکتین عنھا “۔ (ترجمہ ابو نعیم) ” مجھے ان دونوں کا اس سے زیادہ کوئی گناہ معلوم نہیں کہ وہ موضوع روایتوں کو خاموشی کے ساتھ روایت کر جاتے ہیں۔ “ لیکن ثقات محدثین کی بارگاہ میں یہ کوئی معمولی سا گناہ نہیں ؟ یہی ان کی خاموشی خدا انہیں معاف کرے ‘ آج ہزاروں ‘ لاکھوں مسلمانوں کی گمراہی کی بنیاد بن گئی ہے ۔ اس سے زیادہ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے علمائے رجال نے زیادہ تر ان راویوں کی بحث وتدقیق کی ہے جو پہلی تین صدیوں میں تھے ، اس لئے چوتھی اور پانچویں صدی کے رواۃ اور رجال کے نام ونشان موجودہ اسماء الرجال کی کتابوں میں بہت کم ملتے ہیں ‘ اگر تراجم وانساب میں ان کے کچھ حالات مل جاتے ہیں تو محدثانہ حیثیت سے ان پر نقد وتبصرہ نہیں ملتا اس لئے ان بزرگوں کے شیوخ اور راویوں میں مجہول الحال کی بھی کمی نہیں ، اس بنا پر ان کتابوں کی رایتوں کی تنقید کرنا نہایت مشکل ہے ۔ اسلام میں میلاد کی مجلسوں کا رواج غالبا چھٹی صدی سے ہوا ہے (الملک المظفر شاہ اربل مولود 549 ھ متوفی 633 ھ نے جیسا کہ ابن خلکان نے اس کے حال میں لکھا ہے ‘ مولد شریف بڑی دھوم دھام اور تزک واحتشام سے منایا کرتا تھا یہ جنگ صلیبی کا زمانہ تھا اس کے لئے ابن دحیہ المتوفی 633 ھ نے 604 ھ میں کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر تصنیف کی) تتبع سے یہ ثابت ہوا کہ ان روایتوں کا بڑا حصہ ان ہی کتابوں کے ذریعہ سے پھیلا ہے جو ان مجالس کی غرض سے وقتا فوقتا لکھی گئیں اور جن کے بکثرت حوالے مواہب لدنیہ میں جا بجا آئے ہیں ۔ علامہ سیوطی کی خصائص کبری جو حیدر آباد میں چھپ گئی ہے ‘ معجزات کے موجوع پر سب سے زیادہ مبسوط اور جامع تالیف ہے ‘ علامہ ممدوح نے صحاح ستہ کے علاوہ احمد سعید ‘ ابن منصور ‘ طیالسی ‘ ابن ابی شیبہ ‘ حاکم ‘ ابویعلی ‘ بلکہ ان سے بھی فروتر ‘ بیہقی ‘ ابو نعیم ‘ بزار ‘ ابن سعید ‘ طبرانی دارمی ‘ بلکہ غیر محتاط مصنفوں مثلا ابن ابی الدنیا ‘ ابن شاہین ‘ ابن ابی النجار ‘ ابن مندہ ‘ ابن مردویہ ‘ ابن عساکر ‘ دیلمی ‘ حزائقی ‘ خطیب وغیرہ کی کتابوں کو اپنا ماخذ بنایا ، قوی اور ضعیف اور صحیح و غلط ہر قسم کے واقعات کا انبار لگا دیا اور مختلف دفتروں میں جو کچھ پھیلا تھا ان کو خصائص کی دو جلدوں میں یکجا کردیا ۔ غور کے قابل امر یہ ہے کہ بلا امتیاز بھولی بسری کسی سند کا موجودہ ہونا ‘ روایت کی معتبری کی حجت کیونکر ہو سکتی ہے ؟ اس سے زیادہ یہ بات ہے کہ کتاب میں صحیح و غلط ‘ قومی اور ضعیف ، مشہور ومنکر ہر قسم کی روایتوں کو ان کے درجہ اور مرتبہ کے ذکر کے بغیر پہلو بہ پہلو وہ لکھتے چلے گئے ہیں ‘ اس لئے عام ناظرین کو یہ پتہ نہیں لگتا کہ اس انبار خانہ میں جہاں جواہرات کا خزانہ ہے وہیں خزف ریزون کا بھی ڈھیر لگا ہے ، پوری کتاب میں شاید دس بیس مقام سے زیادہ نہیں جہاں مصنف نے اپنی روایتوں کے درجہ استناد کا پتہ دیا ہو ‘ اس سے زیادہ یہ کہ بعض واقعات کے متعلق باوجود ان شدید روایت پرستی کے ‘ ان کو بہ تحقیق معلوم تھا کہ صحیح نہیں تاہم چونکہ وہ پہلی کتابوں میں مندرج تھے ‘ ان کی نقل سے احتراز نہیں کیا ۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی ولادت کے موقع پر عام کتب میلاد میں جو عجب و غریب واقعات مذکور ہیں ان کو بتمامہا دلائل ابو نیمت سے نقل کرکے آخر میں لکھتے ہیں : ھذا لاثروا الاثران قبلہ فیھا نکارۃ شدیدۃ ولم اور دنی کتابی ھذا اشد نکارۃ منھا ولم تکن نفسی تطیب مایرادھا لکن تبعت الحافظ ابانعیم فی ذالک (خصائص ج 1 ول ص 49) ” اس روایت اور اس سے پہلے دو روایتوں میں سخت نامعتبر (منکر) باتیں ہیں اور میں نے اپنی کتاب میں اس سے زیادہ ناقابل اعتبار روایتیں نہیں لکھیں ‘ میراد دل ان کے لکھنے کو نہیں چاہتا تھا لیکن حافظ ابو نعیم کی پیروی کرکے لکھ دیں۔ “ ایک اور جگہ خطیب کی ایک کتاب سے وفد نجران کے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ، حالانکہ وہ خود اس روایت کو بےاعتبار سمجھتے ہیں ، چناچہ لکھتے ہیں : واخرج الخطیب فی المتفق والمفترق بسند فیہ مجاھیل “۔ (ج 2 ص 25) خطیب نے المتفق والمفترق میں ایسی سند سے جس میں مجہول الحال راوی ہیں بیان کیا ہے ۔ ایک اور مقام پر ایک گدھے کا واقعہ نقل کرتے ہیں جو گدھے کی صورت میں ایک جن تھا اور آپ ﷺ کی سواری میں آنے کا مشتاق تھا ‘ یہ لوگوں کے گھروں میں جا کر اشارہ سے ان کو بلا لاتا تھا ‘ یہ عجیب جانور آپ ﷺ کو خیبر میں ملا تھا ‘ اس نے آنحضرت ﷺ کو یہودیوں کے مظالم کی داستان سنائی اور جب آپ ﷺ نے وفات پائی تو فرط غم سے کنوئیں میں گر کر جان دے دی ، حافظ سیوطی نے ابن عساکر سے یہ واقعہ خصائص میں نقل کیا ہے اور اس پر بےتعرض کئے گزر گئے ہیں حالانکہ بعینہ اسی واقعہ کے متعلق ابن حبان کے حوالہ سے اپنی دوسری تصنیف اللالی المصنوعۃ فی ال احادیث الموضوعہ میں لکھتے ہیں کہ ” یہ سرتاپا موضوع ہے ۔ “ محدث صابونی نے معجزہ کی ایک روایت لکھ کر پھر خود ہی اس پر جرح کی ہے کہ اس کی سند اور متن دونوں غریب ہیں باایں ہمہ وہ اس کے متعلق آخری رائے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ : ھو فی المعجزات حسن۔ ” معجزات میں وہ حسن (اچھی) ہے ۔ “ (زرقانی ج اول ص 172 خصائص سیوطی ج اول ص 53) اس پر علامہ زرقانی شرح مواہب میں لکھتے ہیں : لان عادہ المحدثین التساھلی فی غیر الاحکام والعقائد (ج 1 ص 172) ” یہ اس لئے کہ محدثین کی عادت ہے کہ عقائد اور احکام کے علاوہ دیگر روایتوں میں وہ نرمی برتتے ہیں ۔ “ لیکن کیا یہ اصول صحیح ہے ؟ اور من کذب علی متعمدا “ کی تہدید سے خالی ہے ؟ معجزات ہوں یا فضائل ! ضرور ہے کہ آپ ﷺ کی طرف جس چیز کی نسبت بھی کیا جائے وہ شک وشبہ سے پاک ہو جیسا کہ امام نووی ‘ حافظ عسقلانی ابن جماعہ ‘ طیبی ‘ بلقینی اور علامہ عراقی نے اپنی اپنی تصنیفات میں اس کی تصریح کی ہے ۔ (موضوعات ملا علی قاری ص 9) معجزات کے متعلق غلط اور موضوع روایتوں کے پیدا ہونے کے اسباب : 1۔ ان روایتوں کے پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ مقبولیت عام کی بنا پر یہ کام واعظوں اور میلاد خانوں کے حصہ میں آیا ‘ چونکہ یہ فرقہ علم سے عموما محروم ہوتا ہے اور صحیح روایات تک اس کی دسترس نہیں ہوتی اور ادھر گرمی محفل اور شورائیت کے لئے اس کو دلچسپ اور عوام فریب باتوں کے بیان کرنے کی ضرورت پیش آئی ‘ اس لئے لامحالہ ان کو اپنی قوت اختراع پر زور دینا پڑا ‘ ان میں جو کسی قدر محتاط تھے انہوں نے اس کو لطائف صوفیانہ اور مضامین شاعرانہ میں ادا کیا ‘ سننے والوں نے ان کو روایت کی حیثیت دے دی یا بعد کو ان ہی بیانات نے روایت کی حیثیت اختیار کرلی جو نڈر اور بےاحتیاط تھے ‘ انہوں نے یہ پردہ بھی نہیں رکھا بلکہ ایک سند جوڑ کر انہوں نے براہ راست اس کو حدیث وخبر کا مرتبہ دے دیا ، حافظ سیوطی علامہ ابن جو زی کی کتاب الموضوعات کے حوالہ سے لکھتے ہیں : احدھما القصاص ومعظم البلاء منھم یجری لانھم یریدون احادیث نتفق وترقق والصحاح یقل فیہ ھذا ثم ان الحفظ یشق علیھم ویتفق عدم الدین وھم یحضر ھم جھال (آخر کتاب الالی المصنوعہ ص 249) ” جھوٹی حدیثیں بنانے والوں میں ایک واعظوں کا گروہ ہے اور سب سے بڑی مصیبت ان ہی سے پیش آتی ہے کیونکہ وہ ایسی حدیثیں چاہتے ہیں جو مقبول عام اور موثر ہو سکیں اور صحیح حدیثوں میں یہ بات نہیں ‘ اس کے علاوہ صحیح حدیثوں کا یاد رکھنا ان کو مشکل ہے اس کے ساتھ ان میں دینداری نہیں ہوتی اور ان محفلوں میں جاہلوں کا مجمع ہوتا ہے ۔ “ چناچہ فضائل ومناقب ‘ عذاب وثواب ‘ بہشت و دوزخ ‘ وقائع میلاد اور معجزات و دلائل کا جو جعلی دفتر پیدا ہوگیا ہے وہ زیادہ تر ان ہی جاہلوں کا ترتیب دیا ہوا ہے ۔ علامہ ابن قتیبہ المتوفی 276 ھ تاویل مختلف الحدیث میں جو اب مصر میں چھپ گئی ہے ‘ کہتے ہیں کہ احادیث وروایات میں فساد تین راستوں سے آیا ‘ منجملہ ان کے ایک راستہ واعظین ہیں۔ والقصاص فانھم یمیلون وجوہ العوام النیھم ویستدرون ماعندھم بالمناکیر والغرائب والاکاذیب من ال احادیث ومن شان العوام القعود عند القاص ماکان حدیثہ عجیبا خارجا عن فطرالعقول اوکان رقیقا یحزن القلوب ویسغزرالعیون (ص 356) ” اور واعظین کیونکہ وہ عوام کا رخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس کو لغو ‘ ہنس کر اور عجیب و غریب باتیں بیان کر کے وہ وصول کرتے ہیں اور عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ اسی وقت تک ان واعظین کے پاس بیٹھتے ہیں جب تک وہ خارج از عقل باتیں یا ایسی موثر باتیں بیان کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں اثر پیدا کریں اور ان کو رلائیں ۔ “ آپ ﷺ کی برتری اور جامعیت : 2۔ ان روایات کے پیدا ہونے کا دوسرا سبب یہ ہوا کہ مسلمانوں کے نزدیک آنحضرت ﷺ افضل الانبیاء ہیں ۔ آپ ﷺ کامل ترین شریعت لے کر مبعوث ہوئے ہیں ‘ آپ ﷺ تمام محاسن کے جامع ہیں ‘ یہ اعتقاد بالکل صحیح ہے ‘ لیکن اس کو لوگوں نے غلط طور پر وسعت دے دی ہے اور انبیاء سابقین کے تمام معجزات کو آنحضرت ﷺ کی ذات میں جمع کردیا اور وہ اس اعتقاد کی بدولت تمام مسلمانوں میں پھیل گئے ، بیہقی اور ابو نعیم نے دلائل میں اور سیوطی نے خصائص میں اعلانیہ دوسرے انبیاء کے معجزات کے مقابل میں ان ہی کے مثل آپ ﷺ کے معجزات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے ہیں اور ثابت کرنا چاہا ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کی تعلیم تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تعلیمات کا اثر ‘ خلاصہ اور مجموعہ ہے ‘ اس طرح آپ ﷺ کے معجزات بھی دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کے معجزات کا مجموعہ ہے اور جو کچھ عام انبیاء کرام (علیہم السلام) سے متفرق طور پر صادر ہوا وہ تمام کا تمام مجموعا آپ ﷺ سے صادر ہوا ۔ ظاہر ہے کہ اس مماثلت اور مقابلے کے لئے تمام ترصحیح روایتیں دستیاب نہیں ہو سکتیں ‘ اس لئے لوگوں نے ان ہی ضعیف اور موضوع روایتوں کے دامن میں پناہ لی ‘ کہیں شاعرانہ تخیل کی بلند پروازی اور نکتہ آفرینی سے کام لیا ۔ مثلا حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے تمام اسماء کی تعلیم کی ، دیلمی نے مسند الفردوس میں روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بھی تمام اسماء کی تعلیم دی ، حضرت ادریس (علیہ السلام) کے متعلق قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند جگہ میں اٹھایا ‘ لیکن رسول اللہ ﷺ کی بلندی اس سے بھی آگے قاب قوسین تک ہوئی تک ہوئی ، حضرت نوح (علیہ السلام) کی طوفان کی دعا اگر قبول ہوئی تو آپ ﷺ کی قحط کی دعا قبول ہوئی ، حضرت صالح (علیہ السلام) کے لئے اونٹنی معجزہ تھی تو آنحضرت ﷺ سے اونٹ نے باتیں کیں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں نہ جلے ‘ آپ ﷺ سے بھی آتشیں معجزے صادر ہوئے ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے گلے پر اگر چھری رکھی گئی تو آپ ﷺ کا سینہ بھی چاک کیا گیا ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے بھیڑیئے نے گفتگو کی روایت کی گئی ہے کہ آپ ﷺ سے بھی بھیڑیا ہم کلام ہوا ، ابو نعیم میں حکایت ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حسن کا آدھا حصہ عطا کیا گیا لیکن آنحضرت ﷺ کو پورا حصہ دیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے پتھر سے نہریں جاری ہوئیں تو آپ ﷺ کی انگلیوں سے پانی بہا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لکڑی معجزہ دکھاتی تھی تو آپ ﷺ کے فراق میں چھوہارے کا درخت بھی رویا اور چھوہارے کی خشک ٹہنی تلوار بن گئی ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بحراحمر شق ہوا تو آپ ﷺ کے لئے معراج میں آسمان و زمین کے درمیان کا دریائے فضابیچ سے پھٹ گیا ، یوشع (علیہ السلام) کے لئے آفتاب ٹھہر گیا تو آپ ﷺ کے اشارے سے آفتاب ڈوب کر نکلا ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے گہوراہ میں کلام کیا ‘ یہ روایت وضع کی گئی کہ آپ ﷺ نے بھی گہوارے میں کلام کیا اور آپ ﷺ کی زبان سے پہلے تکبیر وتسبیح کی صدا بلند ہوئی پھر اسی طرح غلط بنیاد پر غلط عمارت کھڑی کرتے گئے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا سب سے بڑا معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا تو آنحضرت ﷺ کی طرف بھی یہ معجزہ منسوب کیا گیا ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی ، اس نے کہا ” جب تک آپ ﷺ میری لڑکی زندہ نہ کردیں گے میں ایمان نہ لاؤں گا ۔ ‘ چناچہ آپ ﷺ نے اس کی قبر پر جا کر آواز دی اور وہ زندہ نکل کر باہر آئی اور پھر چلی گئی ۔ اسی طرح یہ روایت بھی گھڑی گئی ہے کہ آپ ﷺ کی والدہ بھی آپ ﷺ کی دعا سے زندہ ہوئیں اور آپ ﷺ پر ایمان لائیں ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کے ظہور کی پیش گوئیاں گزشتہ انبیاء کے کلام میں : 3۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے گزشتہ صحیفوں میں آنحضرت ﷺ کے ظہور کی پیش گوئیاں ہیں اور ان کے مطابق یہود ونصاری کو ایک آنے والے پیغمبر کا انتظار تھا اس واقعہ کو دروغ گو راویوں نے یہاں تک وسعت دی کہ یہودیوں کو دن ‘ تاریخ ‘ سال ‘ وقت اور مقام سب کچھ معلوم تھا ۔ چناچہ ولادت نبوی سے قبل علمائے یہود ان سب کا پتہ بتایا کرتے تھے اور عیسائی راہبوں کو تو ایک ایک خدوخال معلوم تھا بلکہ پرانے گھرانوں ‘ ویرانوں اور کنیسوں میں ایسی مخفی کتابیں موجود تھیں جن میں آپ ﷺ کا تمام حلیہ لکھا تھا اور اگلے لوگ ان کو بہت بہت چھپا کر رکھتے تھے بلکہ بعض دیروں تو آپ ﷺ کی تصویریں تک موجود تھیں ‘ تورات وانجیل میں آنحضرت ﷺ کے متعلق بعض پیش گوئیاں حقیقت میں موجود تھیں اور وہ آج بھی ہیں لیکن وہ استعارات وکنایات اور مجمل عبارتوں میں ہیں ان کو ضعیف وموضوع روایتوں میں صاف صاف آپ ﷺ کے نام ومقام کی تخصیص وتعیین کے ساتھ پھیلایا گیا ۔ عرب میں بت خانوں کے مجاور اور کاہن تھے جو فال کھولتے تھے اور پیش گوئیاں کرتے تھے ‘ ان کا ذریعہ علم جنات اور شیاطین تھے ‘ چناچہ جب آپ ﷺ کے قرب ولادت کا زمانہ آیاتو عموما بت خانوں سے اور بتوں کے پیٹ سے آوازیں سنائی دیتی تھیں ‘ کاہن مقفی اور مسجع فقروں میں اور جنات شعروں میں یہ خبر سنایا کرتے تھے کہ محمد ﷺ کی پیدائش کا زمانہ قریب آگیا ۔ یمن کے ایک بادشاہ کی طرف آپ ﷺ کی منقبت میں پورا ایک قصیدہ منسوب کیا گیا ، املاک یمن ‘ شاہان فارس اور قریش کے اکابر نے آپ ﷺ کو خواب میں دیکھا پتھروں پر اسم مبارک لوگوں کو منقوش نظر آتا تھا ، قریش کا مورث اعلی کعب بن لوئی ہر جمعہ کو اپنے قبیلہ کے لوگوں کو یکجا کرکے ان کے سامنے خطبہ دیتا تھا جس میں مسجع فقروں اور شعروں میں آپ ﷺ کے ظہور کی خوشخبری ہوتی تھی مکہ کے لوگ احبار اور راہبوں کی زبان سے ” محمد “ آپ کا نام سن کر اپنے بچوں کا یہی نام رکھتے تھے کہ شاید یہی پیغمبر ہوجائے ، مدینہ کے لوگوں کو ان ہی یہودیوں کی زبانی یہ معلوم ہوچکا تھا کہ شہر یثرب آپ ﷺ کا دارالہجرۃ ہوگا اسی لئے وہ آپ ﷺ کے ورود کے منتظر تھے ، مطیح کاہن کا آپ ﷺ کی پیش گوئی میں ایک طویل افسانہ ہے لیکن اس دفتر کا بڑا حصہ موضوع اور جعلی ہے اور باقی نہایت ضعیف اور کمزور ہے اور ان میں جو ایک آدھ صحیح ہے وہ پہلے گزر چکا ہے ۔ شاعرانہ تخیل کو واقعہ سمجھ لینا : 4۔ آنحضرت ﷺ کی پیدائش تمام عالم کی رحمت کا باعث تھی اس سے کائنات کا فخر وناز اس پر بجا ہو سکتا ہے ، اگلے واعظوں اور میلاد خانوں نے اس واقعہ کو شاعرانہ انداز میں اس طرح ادا کیا کہ آمنہ کا کاشانہ نور سے معمور ہوگیا ‘ جانور خوشی سے بولنے لگے ‘ پرندے تہنیت کے گیت گانے لگے ‘ مغرب کے چرندوں اور پرندوں نے مشرق کے چرندوں اور پرندوں کو مبارک باد دی ، مکہ کے سوکھے درختوں میں بہار آگین ، ستارے زمین پر جھک گئے ، آسمانوں کے دروازے کھل گئے فرشتوں نے ترانہ مسرت بلند کیا ‘ انبیاء کرام (علیہم السلام) نے روئے روشن کی زیارت کی ، فرشتوں نے بچہ کو آسمان و زمین کی سیر کرائی ، شیطانوں کی فوج پابہ زنجیر کی گئی ، پہاڑ غرور سے اونچے ہوگئے ، دریا کی موجیں خوشی سے اچھلنے لگیں ، درختوں نے سبزی کے نئے جوڑے پہنے ، بہشت و جنت کے ایوان نئے سروسامان سے سجائے گئے وغیرہ بعد کے واعظوں اور میلاد خوانوں نے اس شاعرانہ انداز بیان کو واقعہ سمجھ لیا اور روایت تیار ہوگئی ۔ آئندہ واقعات کو اشارات میں ولادت کے موقع پر بیان کرنا : 5۔ آنحضرت ﷺ کے عہد رسالت میں یا بعد کو جو واقعات ظہور پذیر ہوئے ان کا وقوع آنحضرت ﷺ کی ولادت کے زمانہ میں تسلیم کرلیا گیا ہے اور ان کو بحیثیت معجزہ کے آئندہ واقعات کا پیش خیمہ بنا لیا گیا ہے ، مثلا آپ ﷺ کے زمانہ میں بت پرستی کا استیصال ہوگیا قیصر و کسری کی سلطنتیں فنا ہوگئیں ، ایران کی آتش پرستی کا خاتمہ ہوگیا ‘ شام کا ملک فتح ہوا ۔ ان واقعات کو معجزہ اس طرح بنایا گیا کہ جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے تمام بت سرنگوں ہوگئے ، قصر کسری کے کنگرے ہل گئے ، آتش کدہ فارس بجھ کر رہ گیا ‘ نہر ساوہ خشک ہوگئی ، ایک نور چمکا جس سے شام کے محل نظر آنے لگے۔ معجزات کی تعداد بڑھانے کا شوق : 6۔ بعض واقعات ایسے ہیں جن کو کسی حیثیت سے معجزہ نہیں کہا جاسکتا لیکن تکثیر معجزات کے شوق میں ذرا سا بھی کسی بات میں عجوبہ پن نظر ؤیا تو اس کو مستقل معجزہ بنا لیا ۔ مثلا حضرت عائشہ ؓ سے ایک روایت ہے اور وہ مسند امام احمد بن حنبل (رح) میں بھی مذکور ہے ، کہ آپ ﷺ کے گھر میں کوئی پالتو جانور تھا ‘ جب آپ ﷺ اندر تشریف لاتے تو وہ نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ ایک جگہ بیٹھا رہتا تھا ۔ جب آپ ﷺ باہر چلے جاتے تو وہ ادھر ادھر دوڑنے لگتا تھا ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حیوانات کو بھی آپ ﷺ کی جلالت قدر اور حفظ مراتب کا پاس تھا اور آپ ﷺ کی عظمت وشان سے واقف تھے لیکن درحقیقت یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ عام لوگوں سے بھی بعض جانور اسی طرح گھل مل جاتے ہیں ۔ صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت جابر ؓ سخت بیمار تھے آنحضرت ﷺ ان کی عیادت کو گئے تو وہ بیہوش تھے آنحضرت ﷺ نے وضو کر کے ان کے منہ پر پانی چھڑکا تو انکو ہوش آگیا یہ ایک معمولی واقعہ ہے مگر کتب دلائل کے مصنفین نے اس کو بھی معجزہ قرار دیا ہے ۔ (خصائص کبری للسیوطی جلد دوم ص 71 حیدر آباد دکن) اسی طرح یہ روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ مختون پیدا ہوئے تھے ‘ یہ روایت متعدد طریقوں سے مروی ہے مگر ان میں سے کوئی طریقہ بھی ضعف سے خالی نہیں ہے ، حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ کا مختون پیدا ہونا متواتر روایتوں سے ثابت ہے اس پر علامہ ذہبی نے تنقید کی ہے کہ تواتر تو کجا صحیح طریقہ سے ثابت بھی نہیں (مستدرک 2 باب اخبار النبی) اور بقول علامہ ابن قیم (زاد المعاد) اگر یہ ثابت بھی ہو تو یہ آنحضرت ﷺ کی کوئی فضیلت نہیں ہے کیونکہ ایسے بچے اکثر پیدا ہوئے ہیں ۔ روایات صحیحہ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تھے یا سجدہ میں جاتے تھے تو آپ ﷺ کی بغل کی سپیدی نظر آتی تھی ‘ یہ ایک معمولی بات ہے مگر محب طبری ‘ قرطبی اور سیوطی وغیرہ نے اس کو بھی معجزہ اور آپ ﷺ کا خاصہ قرار دیا ہے ۔ معجزات کی تعداد بڑھانے کے شوق میں کتب دلائل کے مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک ہی واقعہ کی روایت میں اگر مختلف سلسلہ سند کے راویوں میں باہم موقع ‘ مقام یا کسی اور بات میں ذراسا بھی اختلاف نظر آیا تو اس کو چند واقعے قرار دے دیا ، مثلا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک اونٹ جو دیوانہ ہوگیا تھا یا بگڑ گیا تھا آنحضرت ﷺ جب اس کے پاس گئے تو اس نے مطیعانہ سرڈال دیا ، صحابہ نے کہا یارسول اللہ ﷺ جب جانور آپ ﷺ کے سامنے سرجھکاتے ہیں تو ہم کو انسان ہو کر ضرور آپ کے سامنے سربسجود ہونا چاہئے ، آپ ﷺ نے فرمایا ” اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنا روا رکھتا تو بیوی کو کہتا کہ شوہر کو سجدہ کرے ۔ “ یہ ایک ہی واقعہ ہے جو ذرا ذرا سے اختلاف بیان کی بنا پر چودہ پندرہ واقعات بن گئے ہیں ۔ الفاظ کے نقل میں بےاحتیاطی : 7۔ ان کتابوں میں بعض معجزات ایسے مذکور ہیں جن کی اصل صحاح میں مذکور ہے اور اس طرح مذکور ہے کہ وہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ معمولی واقعہ ہے لیکن نیچے درجہ کی روایتوں میں بےاحتیاط راویوں نے الفاظ کے ذرا الٹ پھیر سے اس کو معجزہ قرار دے دیا ۔ صحابہ کی متعدد روایتوں میں ہے شانہ مبارک پر ابھرا ہوا گوشت تھا جس کو ” خاتم نبوت “ کہتے تھے اور آپ کی انگشت مبارک میں جو نقرئی خاتم (چاندی کی انگوٹھی) تھی اس پر ” محمد رسول اللہ “ منقوش تھا ‘ بےاحتیاط راویوں نے ان دونوں واقعوں کو ملا دیا اور اس طرح اس واقعہ کی صورت حاکم کی تاریخ نیشا پور ‘ ابن عساکر کی تاریخ دمشق اور ابو نعیم کی دلائل میں جا کر یوں ہوجاتی ہے کہ پشت مبار کے گوشت کی خاتم نبوت پر کلمہ وغیرہ عبارتیں لکھی تھیں ۔ مشہور عام دلائل ومعجزات کی روایتی حیثیت : دلائل ومعجزات کے باب میں موضوع ’ منکر ‘ ضعیف ‘ غرض ہر قسم کی قابل اعتراض روایات کا اتنا بڑا انبار ہے کہ اگر ایک ایک کرکے اس کی جانچ پڑتال کی جائے تو ایک مستقل ضخیم جلد تیار ہوجائے لیکن یہاں اس کا موقع نہیں ‘ اس لئے ہم صرف ان روایتوں کی تنقید پر قناعت کرتے ہیں جو عام طور سے ہمارے ملک میں مشہور ہیں اور میلاد کی محفلوں میں انکو بصد شوق وذوق پڑھا اور سنا جاتا ہے ۔ 1۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ روایت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لو وقلم ‘ عرش وکرسی ‘ جن وانس غرض سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا اور پھر لوح وقلم ‘ عرش وکرسی ‘ آسمان و زمین ‘ ارواح وملائ کہ ‘ سب چیزیں اسی نور سے پیدا ہوئی ، اس کے متعلق ” اول ماخلق اللہ نوری “ یعنی سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا ، کی روایت عام طور سے زبانوں پر جاری ہے مگر اس روایت کا پتہ احادیث کے دفتر میں مجھے نہیں ملا ، البتہ ایک روایت مصنف عبدالرزاق میں ہے یا جابر اول ما خلق اللہ نرنبیکم من نورہ ” اے جابر سب سے پہلے خدا نے تیرے پیغمبر کا نور اپنے نور سے پیدا کیا۔ “ اس کے بعد ذکر ہے کہ اس نور کے چار حصے ہوئے اور انہی سے لوح وقلم عرش وکرسی ‘ آسمان و زمین اور جن وانس کی پیدائش ہوئی ۔ بعض ارباب سیر نے اس بنا پر کہ فضائل میں ہر قسم کی روایات قبول کرلی جاتی ہے اور خصوصا وہ جن کی تائید ان کے خیال میں دوسرے طریقوں سے ہوتی ہے ‘ اس روایت کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ (زرقانی علی المواہب ج 1 ص 33) زرقانی وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے مگر افسوس ہے کہ مگر پہلی نہیں ملتی ‘ دوسری جلد دیکھ لی گئی اس میں یہ حدیث مذکور نہیں اس لئے اس روایت کی تنقید نہ ہوسکی اور چونکہ کتاب مذکور میں صحیح حدیثوں کے ساتھ ساتھ موضوع حدیثیں تک موجود ہیں اور فضائل ومناقب میں اس کی روایتوں کا اعتبار کم کیا جاتا ہے اس لئے اصولی حیثیت سے اس روایت کے تسلیم کرنے میں مجھے پس وپیش ہے ‘ اس تردد کو قوت اس سے اور بھی زیادہ ہوتی ہے کہ صحیح احادیث میں مخلوقات الہی میں سب سے پہلے ” قلم تقدیر “ کی پیدائش کا تصریحی بیان ہے کہ اول ما خلق اللہ القلم ۔ جامع ترمذی کتاب القدر میں ان علماء نے جنہوں نے اول ما خلق اللہ نوری “ کو قبول کرلیا ہے ‘ نور محمدی اور قلم کی اولیت پیدائش پر تطبیق کی ناکام کوشش کی ہے اور اس کے لئے اصل کتاب کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ 2۔ روایتوں میں ہے کہ یہ نور پہلے ہزاروں پر سجدہ میں پڑا رہا پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کے تیرہ وتار جسم کا چراغ بنا ‘ پھر آدم (علیہ السلام) نے مرتے وقت شیث (علیہ السلام) کو اپنا وصی بنا کر یہ نور ان کے سپرد ہو اور حضرت عبداللہ سے حضرت آمنہ کو منتقل ہوا ، نور کا سجدہ میں پڑے رہنا اور اس کا موجود ہونا بالکل موضوع ہے اور نور کا ایک دوسرے وصی کو درجہ بدرجہ منتقل ہوتا رہنا بےسروپا ہے ۔ طبقات ابن سعد اور طبرانی اور ابو نعیم اور بزار میں اس آیت پاک : (آیت) ” الذی یراک حین تقوم وتقلبک فی السجدین “۔ شعراء 26 : 218 ، 219) ” وہ اللہ جو تجھ کو دیکھتا ہے جب تو (تہجد کی نماز میں) کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں تیرے الٹ پھیر کو بھی دیکھتا ہے ۔ “ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا پیغمبروں کی پشت بہ پشت منتقل ہونا خدا دیکھ رہا تھا ‘ لیکن اول تو پوری آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق اس مطلب کا ساتھ نہیں دیتے اور دوسرے یہ روایت اعتبار کے قابل نہیں ۔ 3۔ روایت ہے کہ ” یہ نور جب (بلوغ کے وقت) عبدالمطلب کو سپرد ہوا تو وہ ایک دن خانہ کعبہ میں سوئے ہوئے تھے سو کر اٹھے تو دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سرمہ اور بالوں میں تیل لگا ہے اور بدن پر جمال ورونق کا خلعت ہے ‘ یہ دیکھ کر وہ ششدر ہر گئے آخر کار ان کے باپ ان کو قریش کے ایک کاہن کے پاس لے گئے ، اس نے کہا کہ آسمانوں کے خدا نے اجازت دی ہے کہ اس لڑکے کا نکاح کردیا جائے ‘ اس نور کے اثر سے عبدالمطلب کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور وہ نور ان کی پیشانی میں چمکتا تھا ‘ قریش پر قحط وغیرہ کی جب کوئی مصیبت آتی تھی تو وہ اس نور کے وسیلہ سے دعا مانگتے تھے تو قبول ہوتی تھی ۔ یہ روایت ابو سعید نیشا پوری المتوفی 307 ھ نے اپنی کتاب شرف المصطفی میں ابوبکر بن ابی مریم کے واسطہ سے کعب احبار (نو مسلم یہودی) تابعی سے نقل کی ہے ‘ اول تو یہ سلسلہ ایک تابعی تک موقوف ہے اور آگے کی سند نہیں ۔ علاوہ ازیں کعب احبار گو نو مسلم اسرائیلیوں میں سب سے بہتر سمجھے جاتے تھے تاہم امام بخاری (رح) ان کے کذب کا تجربہ بیان کرتے ہیں ، اسلام میں اسرائیلیات اور عجیب و غریب حوادث کی روایات کے سرچشمہ یہی ہیں بیچ کا راوی ابوبکر بن ابی مریم باتفاق محدثین ضعیف ہے ‘ ان کا دماغ ایک حادثہ کے باعث ٹھیک نہیں رہا تھا ۔ 4۔ ابو نعیم ‘ حاکم ‘ بیہقی اور طبرانی میں ایک روایت ہے کہ ” عبدالمطلب یمن گئے تھے وہاں ایک کاہن ان کے پاس آیا اور ان کی اجازت سے ان کے دونوں نتھنوں کو دیکھ کر بتایا کہ ایک ہاتھ میں نبوت اور دوسرے میں بادشاہی کی علامت ہے ‘ تم بنو زہرہ کی کسی لڑکی سے جا کر شادی کرو۔ “ ان مصنفوں کا مشترک راوی عبدالعزیز بن عمران الزہری ہے ۔ اس کی نسبت میزان میں ہے کہ امام بخاری (رح) نے کہا ’ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعیناس کی حدیث نہ لکھی جائے ۔ “ نسائی نے کہا ” متروک ہے “ یحییٰ نے کہا ” شعروشاعری کا آدمی ہے ‘ ثقہ نہ تھا ‘ عبدالعزیز کے بعد کا راوی اس میں یعقوب بن زہری ہے جس کی نسبت ابن معین کہتے ہیں کہ ” اگر ثقات سے روایت کرے تو خیر لکھو ۔ “ ابو زرعہ نے کہا ” وہ کچھ نہیں ‘ وہ واقدی کے برابر ہے ۔ “ امام احمد نے کہا وہ کچھ نہیں اس کی حدیث لاشے کے برابر ہے ۔ “ ساجی نے کہا ” وہ منکر الحدیث ہے ۔ “ علاوہ ازیں اس روایت میں بعض اور مجہول بھی ہیں ۔ حاکم نے مستدرک میں اس کو روایت کیا ہے ۔ لیکن امام ذہبی نے نقد مستدرک میں یعقوب اور عبدالعزیز دونوں کو ضعیف کہا ہے ۔ 5۔ روایت ہے کہ ” حضرت عبداللہ کی پیشانی میں جب یہ نور چمکا تو ایک عورت جو کاہنہ تھی اس نے نور کو پہچانا اور چاہا کہ وہ خود عبداللہ سے ہم بستر ہو کر اس نور کی امین بن جائے مگر یہ سعادت اس کی قسمت میں نہ تھی ‘ اس وقت عبداللہ نے عذر کیا اور گھر چلے گئے ‘ وہاں یہ دولت آمنہ کو نصیب ہوئی ، عبداللہ نے واپس آکر اس کاہنہ سے اب خود درخواست کی تو اس نے رد کردی کہ اب وہ نور تمہاری پیشانی سے منتقل ہوچکا ۔ “ یہ روایت الفاظ اور جزئیات کے اختلاف کے ساتھ ابن سعد ‘ خرائطی ‘ ابن عساکر بیہقی اور ابو نعیم میں مذکور ہے ، ابن سعد میں تین طریقوں سے اس کی روایت ہے ، ایک طریقہ میں پہلا راوی واقدی ہے دوسرے میں کلبی ہے ‘ یہ دونوں مشہور دروغ گو ہیں ‘ تیسرا طریقہ ابو یزید مدنی تابعی پر جا کر ختم ہوجاتا ہے ، ابو یزید مدنی کی اگرچہ بعض آئمہ نے توثیق کی ہے مگر مدینہ کے شیخ الکل امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ میں اس کو نہیں جانتا ، ابو زرعہ نے کہا ” مجھے نہیں معلوم “ ابو نعیم نے چار طریقوں سے اس کی روایت کی ہے لیکن کوئی ان میں قابل وثوق نہیں ، ایک طریقہ میں نضر بن سلمہ اور احمد بن محمد بن عبدالعزیز بن عمر الزہری اور یہ تینوں نامعتبر ہیں ۔ تیسرے سلسلہ میں مسلم بن خالد الزنجی ہیں جو ضعیف سمجھتے جاتے ہیں اور متعدد مجاہیل ہیں ، چوتھا طریقہ یزید بن شہاب الزہری پر ختم ہے اور وہ اپنے آگے کا سلسلہ نہیں بتاتے اور ان کا حال بھی نہیں معلوم ‘ بیہقی کا سلسلہ وہی تیسرا ہے ۔ خرائطی اور ابن عساکر کا یوں بھی اعتبار نہیں ۔ 6۔ حضرت عباس ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ عبد مناف اور قبیلہ مخزوم کی دو سو عورتیں گنی گئیں کہ جنہوں اس غم میں کہ عبداللہ سے ان کو یہ دولت حاصل نہ ہوئی وہ مر گئیں لیکن انہوں نے شادی نہ کی (یعنی عمر بھرکنواری رہیں) اور قریش کی کوئی عورت نہ تھی جو اس غم میں بیمار نہ پڑگئی ہو ، یہی حکایت ہے جس کا غلط ترجمہ اردو مولفین میلاد نے یہ کیا ہے کہ ” اس رات دو سوعورتیں رشک وحسد سے مرگئیں “ یہ روایت سند کے بغیر زرقانی شرح مواہب لدنیہ میں بصیغہ رؤی یعنی بیان کیا گیا ہے ، مذکور ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خود منصنف کو بھی اس کی صحت میں کلام ہے یہ درحقیقت بالکل بےسند اور بےاصل روایت ہے اور کسی معتبر کتاب میں اس کا پتہ نہیں ۔ 7۔ روایت ہے کہ اس رات کو کسری کے محل میں زلزلہ پڑگیا اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے اور ادہ کی نہر واقع (فارس) اور بعض روایتوں میں طبریہ کی نہر (واقع شام) خشک ہوگئی اور فارس کا آتش کدہ جو ہزاروں برس سے روشن تھا ‘ بجھ گیا اور کسری نے ایک ہولناک خواب دیکھا جس کی تعبیر یمن کے ایک کاہن مطیح سے دریافت کی گئی ، یہ قصہ بیہقی ، خزائطی ، ابن عساکر اور ابو نعیم میں سند اور سلسلہ روایت کے ساتھ مذکور ہے ، ان سب کا مرکزی راوی مخزوم ابن ہانی ہے جو اپنے باپ ہانی مخزومی (قریش) سے جس کی ڈیڑھ سو برس کی عمر تھی ‘ بیان کرتا ہے ، ہانی کے نام کا کوئی صحابہ جو مخزومی قریشی ہو اور جو ڈیڑھ سو برس کی عمر رکھتا ہو معلوم نہیں ‘ اصابہ وغیرہ میں اسی روایت کے سلسلہ میں ان کا نام مشکوک طریقہ سے آیا ہے ان کے صاحبزادہ مخزوم بن ہانی سے محدثین میں بھی کوئی شناسا نہیں ‘ نیچے کے راویوں کا بھی یہی حال ہے ‘ یہاں تک کہ ابن عساکر جیسے ضعیف روایتوں کے سرپرست بھی اس روایت کو غریب کہنے کی جرات کرتے ہیں اور ابن حجر جیسے کمزور روایتوں کے سہارا اور پشت پناہ بھی اس کر مرسل ماننے کو تیار ہیں ۔ ابو نعیم کی روایت میں محمد بن جعفر بن اعین مشہور وضاع ہے ۔ 8۔ روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ پیدا ہوئے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی ماں شفاء بنت اوس ولادت کے وقت زچہ خانہ میں موجود تھیں ‘ وہ کہتی ہیں کہ جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو پہلے غیب سے ایک آواز آئی ، پھر مشرق ومغرب کی ساری زمین میرے سامنے روشن ہوگئی ‘ یہاں تک کہ شام کے محل مجھ کو نظر آنے لگے ، میں نے آپ ﷺ کو کپڑا پہنا کر لٹایا ہی تھا کہا اندھیرا چھا گیا اور میں ڈر کر کانپنے لگی ، پھر داہنی طرف سے کچھ روشنی نکلی تو آواز سنی کہ ” کہاں لے گئے تھے ؟ “ جواب ملا کہ ” مغرب کی سمت “ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ پھر وہی کیفیت پیدا ہوئی ‘ میں ڈر کر کانپی اور آواز آئی کہ کہاں لے گئے تھے ؟ جواب ملا کہ مشرق کی سمت ، یہ حکایت ابو نعیم میں ہے ‘ اس کے بیچ کا راوی احمد بن محمد بن عبدالعزیز زہری نامعتبر ہے اور اس کے دوسرے راوۃ مجہول الحال ہیں ۔ 9۔ روایت ہے کہ حضرت آمنہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے ” اے آمنہ ! تیرا بچہ تمام جہاں کا سردار ہوگا ‘ جب پیدا ہو تو اس کا نام احمد اور محمد رکھنا اور یہ تعویذ اس کے گلے میں ڈالنا ۔ “ جب وہ بیدار ہوئیں تو سونے پتھر پر یہ اشعار لکھے ملے (اس کے بعد اشعار ہیں) یہ قصہ ابو نعیم میں ہے جس کا روای ابو عزیہ محمد بن موسیٰ انصاری ہے جس کی روایتوں کو امام بخاری (رح) منکر کہتے ہیں ابن حبان کا بیان ہے کہ دوسروں کی حدیثیں چرایا کرتا تھا اور ثقات سے موضوع روایتیں بنا کر بیان کرتا تھا ، متاخرین میں ھ حافظ عراقی نے اس روایت کو بےاصل اور شامی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے ابن اسحاق نے بھی اس کو بےسند روایت کہا ہے ، ابن سعد میں یہ روایت واقدی کے حوالہ سے ہے جس کی دروغ گوئی محتاج بیان نہیں ۔ 10۔ عثمان بن ابی العاص ؓ کی ماں ولادت کے وقت موجود تھیں ، وہ کہتی ہیں کہ جب آمنہ کو دردزہ ہوا تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ تمام ستارے زمین پر جھکے آتے ہیں ، یہاں تک کہ میں ڈری کہ کہیں زمین پر نہ گر پڑیں اور جب پیدا ہوئے تو جدھر نظر جاتی تھی تمام گھر روشنی سے معمور تھا ‘ یہ قصہ ابو نعیم ‘ طبرانی اور بیہقی میں مذکور ہے اس کے رواۃ میں یعقوب بن محمد زہری پایہ اعتبار سے ساقط ہے ، اور عبدالعزیز میں عمر بن عبدالرحمن بن عوف ایک محض داستان گو اور جھوٹا تھا ۔ 11۔ حضرت آمنہ ؓ کہتی ہیں کہ مجھے ایام حمل میں حمل کی کوئی علامت معلوم نہ ہوئی اور عورتوں کو ان ایام میں جو گرانی اور تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ بھی نہ ہوئی ، بجز اس کے کہ معمول میں فرق آگیا تھا ، قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں اس قصہ کو ابن اسحاق اور ابو نعیم کے حوالہ سے بیان کیا ہے لیکن ابن اسحاق کا جو نسخہ ابن ہشام کے نام سے مشہور اور چھپا ہوا ہے اور نیز دلائل ابو نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں تو اس قسم کا کوئی واقعہ مذکور نہیں ۔ قسطلانی کی پیروی میں دوسرے بےاحتیاط متاخرین مثلا صاحب سیرت حلبیہ اور مصنف خمیس نے بھی ابن اسحاق اور ابو نعیم ہی کی طرف اس روایت کی نسبت کی ہے لیکن ابن سید الناس نے عیون الاثر میں بجا طور سے اس روایت کے لئے واقدی کا حوالہ دیا ہے ، دراصل یہ قصہ ابن سعد نے نقل کیا ہے اور اس کی روایت کے دو سلسلے لکھے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک کا سر سلسلہ واقدی ہے اور اس کی نسبت محدثین کی رائے پوشیدہ نہیں ، علاوہ ازیں ان میں سے کوئی سلسلہ بھی مرفوع نہیں ‘ پہلا سلسلہ عبداللہ بن وہب پر ختم ہوتا ہے جو اپنی پھوپھی سے روایت کرتے ہیں کہ ہو کہتی ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے ۔ دوسرے سلسلہ کو واقدی زہری پر جا کر ختم کردیتا ہے ۔ 12۔ ایک روایت اس کے بالکل برخلاف ابن سعد میں یہ ہے کہ غالبا آنحضرت ﷺ کی جلالت و عظمت کے باعث حضرت آمنہ ؓ کو سخت گرانی اور بار محسوس ہوتا تھا ‘ وہ کہا کرتی تھیں کہ ” میرے پیٹ میں کئی بچے رہے ‘ مگر اس بچہ سے زیادہ بھاری اور گراں مجھے کوئی نہیں معلوم ہوا ۔ اول تو یہ روایت معروف اور مسلم واقعہ کے خلاف ہے ۔ حضرت آمنہ ؓ کے ایک کے سوا نہ کوئی اور بچہ ہوا اور نہ حمل رہا ‘ دوسرے یہ کہ اس روایت کا سلسلہ ناتمام ہے ، اس معنی کی ایک اور روایت شداد بن اوس ؓ کی زبانی منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” میں اپنے والدین کا پہلوٹا ہوں ‘ جب میں شکم میں تھا تو میری ماں عام عورتوں سے بہت زیادہ گرانی محسوس کرتی تھی (کنزالعمال کتاب الفضائل) لعانی بن زکریا القاضی نے اس روایت پر اتنی ہی جرح کی ہے کہ یہ منقطع ہے ‘ یعنی شداد بن اوس اور انکے بعد کے روای مکحول ہیں ملاقات نہیں ‘ اس لئے بیچ میں ایک روای کم ہے حالانکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس کا پہلا راوی عمر بن صبیح ‘ کذاب ‘ وضاع اور متروک تھا ۔ 13۔ جب ولادت کا وقت آیا ‘ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آسمانوں اور بہشتوں کے دروازے کھول دو فرشتے باہم بشارت دیتے پھرتے تھے ‘ سورج نے نور کا نیا جوڑا پہنا ۔ اس دنیا ‘ دنیا کی تمام عورتوں کو یہ رعایت ملی کہ سب فرزند نرینہ جنیں ‘ درختوں میں پھل آگئے ‘ آسمان میں زبرجد ویاقوت کے ستون کھڑے کئے گئے ‘ نہر کوثر کے کنارے مشک خالص کے درخت اگائے گئے ‘ مکہ کے بت اوندھے ہوگئے ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ حکایت مواہب لدنیہ اور خصائص کبری میں ابو نعیم کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے لیکن ابو نعیم کی دلائل النبوۃ کے مطبوعہ نسخہ میں جہاں اس کا موقع ہو سکتا تھا وہاں یہ روایت مجھ کو نہیں ملی ‘ ممکن ہے کہ ابو نعیم نے اپنی کسی اور کتاب میں یہ روایت لکھی ہو یا یہ مطبوعہ نسخہ نامکمل ہو ‘ بہرحال اس روایت کی بنا صرف اس قدر ہے کہ ابو نعیم چوتھی صدی کے ایک راوی عمرو بن قتیبہ سے نقل کرتے ہیں کہ کہ ان کے والد قتیبہ جو بڑے فاضل تھے یہ بیان کرتے تھے ، قسطلانی نے مواہب میں اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے کہ وہ ” مطعون “ ہے ، حافظ سیوطی نے خصائص میں اس کو منکر کہا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ تمام تر بےسند اور موضوع ہے ۔ (آیت ھذا کی تفسیر کا بقیہ حصہ اگلی آیت کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں)
Top