Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 93
اَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِ١ؕ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ١ؕ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۠   ۧ
اَوْ : یا يَكُوْنَ : ہو لَكَ : تیرے لیے بَيْتٌ : ایک گھر مِّنْ : سے۔ کا زُخْرُفٍ : سونا اَوْ : یا تَرْقٰى : تو چڑھ جائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں وَلَنْ نُّؤْمِنَ : اور ہم ہرگز نہ مانیں گے لِرُقِيِّكَ : تیرے چڑھنے کو حَتّٰى : یہانتک کہ تُنَزِّلَ : تو اتارے عَلَيْنَا : ہم پر كِتٰبًا : ایک کتاب نَّقْرَؤُهٗ : ہم پڑھ لیں جسے قُلْ : آپ کہ دیں سُبْحَانَ : پاک ہے رَبِّيْ : میرا رب هَلْ كُنْتُ : نہیں ہوں میں اِلَّا : مگر۔ صرف بَشَرًا : ایک بشر رَّسُوْلًا : رسول
یا ہم دیکھیں کہ سونے کا ایک محل تیرے لیے مہیا ہوگیا ہے تو بلند ہو کر آسمان پر چلا جائے اور اگر تو آسمان پر چلا بھی گیا تو بھی ہم یہ بات ماننے والے نہیں ، جب تک کہ تو ایک کتاب ہم پر نہ اتار دے اور ہم خود اسے پڑھ کر جانچ نہ لیں ، ان لوگوں سے کہہ دے سبحان اللہ ! میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ایک آدمی ہوں پیغام حق پہنچانے والا
مشرکین مکہ کے دو مزید مطالبات کہ آپ ﷺ کیلئے کوئی سونے کا گھر ہو یا آسمان پر تم چڑھ جاؤ : 111۔ مشرکین کے جو مطالبات اس جگہ بیان کئے گئے ان میں سے یہ دو آخری مطالبات ہیں ایک یہ کہ آپ کے لئے کوئی سونے کا گھر تیار ہوجائے تو ہم آپ کی نبوت کو مان لیں گے اور اگر یہ نہیں تو کم از کم ہماری آنکھوں کے سامنے خالی ہاتھ آسمان کی طرف چڑھنے لگو اور چڑھتے ہی چڑھتے بس غائب ہوجاؤ پھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اترو تو تمہارے ہاتھ میں ایک تحریر شدہ کتاب ہو جس کو ہم خود پڑھ کر دیکھیں اگر اس میں آپ کی نبوت کے مان لینے کا لکھا ہوگا تو ہم ضرور منالیں گے اس طرح ان کے کل سات مطالبات آیت 90 سے آیت 93 تک بیان ہوئے فرمایا وہ کہتے ہیں کہ ہم تو جبھی مانیں گے جب تم ہمیں اس اس طرح کی باتیں کر دکھاؤ مثلا مکہ کی ریگستانی زمین میں اچانک ایک نہر پھوٹ نکلے جس سے ہم سیراب ہوں ِ ، تیرے لئے ایک کھجوروں اور انگوروں کا باغ پیدا ہوجائے اور اس میں نہریں رواں دواں ہوں ، آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہم پر گر پڑیں ‘ اللہ اور اس کے فرشتے ہمارے سامنے آجائیں سونے کا ایک بنا بنایا محل نمودار ہوجائے یا یہ کہ تم ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ دوڑو اور وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب لاکر ہمارے ہاتھوں میں پکڑا دو یہ ساری فرمائشیں اور مطالبات سننے کے بعد نبی اعظم وآخر ﷺ کو حکم دیا کہ ان کو اس طرح جواب سنا دو (سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا) میرے پروردگار کے لئے پاکیزگی ہو ! میری حیثیت اس کے سوا کیا ہے کہ میں ایک آدمی ہوں اللہ کا بھیجا ہوا ۔ سبحان اللہ ! قرآن کریم کی معجزانہ بلاغت کہ اس ایک ہی جملہ کے اندر وہ سارے دفتر کے دفتر آگئے جو انکار وسرکشی کی ان صداؤں کے جواب میں کہے جاسکتے تھے (آیت) ” ھل کنت الا بشرا رسولا “ میں نے کوئی خدائی کا دعوی نہیں کیا میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ میں آسمان کو زمین اور زمین کو آسمان بنا دینے والا ہوں اور دنیا کی ساری قوتیں میرے تصرف واختیار میں ہیں ۔ میرا دعوی جو کچھ ہے وہ تو یہ ہے کہ آدمی ہوں ‘ پیام حق پہنچانے والا ‘ پھر تم مجھ سے یہ فرمائش کیوں کرتے ہو ؟ کیوں میرے لئے ضروری ہے کہ میں سونے کا محل دکھاؤں اور آسمان پر سیڑھی لگا کر چڑھ جاؤں ؟ ایک بار پھر اس پہلو پر غور کرو جس پر جواب کا اصل زور پڑ رہا ہے ۔ اگر ایک شخص نے کسی بات کا دعوی کیا ہے تو ہم دیکھیں گے اس کا دعوی کیا ہے ‘ اور اس کے مطابق اس سے دلیل طلب کریں گے مثلا اگر اس شخص نے دعوی کیا ہے کہ وہ طبیب ہے تو ہم دیکھیں گے کہ وہ علاج میں ماہر ہے یا نہیں ؟ اور بیماروں کو اس کے علاج سے شفا ملتی ہے یا نہیں ؟ ایسا نہیں کریں گے اور کبھی نہیں کریں گے کہ کسی نے دعوی تو کیا ہو طبابت کا اور ہم اس سے دلیل وہ مانگیں جو لوہار سے مانگی جاسکتی ہے یعنی اس کو کہیں کہ ہمیں لوہے کے گارڈر بنا دے اگر ایسا کریں گے تو یہ صریح بےعقلی ہوگی ۔ یہ بات یعنی دعوی اور دلیل کی مطابقت ایک ایسی عام اور قدرتی بات ہے کہ ہر آدمی خواہ کتنا ہی موٹی عقل کا ہو خودبخود اسے پالیتا ہے ، جونہی ایک آدمی کہے گا ‘ میں لوہار ہوں تو وہ سنتے ہی فرمائش کرسکتا ہے کہ ایک قفل بنا دو کبھی اس کی زبان سے یہ نہیں نکلے گا کہ شیشے کا ایک برتن بنا دو ۔ اچھا ایک انسان آتا ہے اور کہتا ہے میں رسول ہوں ‘ پیام حق پہنچانے والا ہوں ، اب اس کا دعوی کیا ہوا ؟ یہ کہ اللہ نے اس پر سچائی کی راہ کھول دی ہے اور وہ دوسروں کو بھی اس راہ پر چلانا چاہتا ہے ، جب دعوی یہ ہوا تو اس کے مطابق دلیل بھی ہونی چاہئے قدرتی طور پر اس کی دلیل یہی ہو سکتی ہے کہ دیکھا جائے وہ سچائی کی راہ پر ہے یا نہیں اور اس کی بتلائی ہوئی راہ پر چل کر سچائی ملتی ہے یا نہیں ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دعوی تو اس نے سچائی کی راہ دکھانے کا کیا ہو اور ہم دلیل مانگنے لگیں کہ اس پہاڑ کو سونا بنا دے یا آسمان پر اڑ کر چلا جائے ؟ طبیب کہتا ہے کہ بیمار میرے علاج سے چنگے ہوجاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ بیمار اس کے علاج سے چنگے ہوئے یا نہیں ؟ اس طرح اللہ کا رسول کہتا ہے میں روح ودل کی بیماریاں دور کردیتا ہوں اگر تم میرا روحانی علاج کرو پھر اگر ہم طالب حق ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کے علاوج سے روح ودل کے بیماروں کو شفا ملتی ہے یا نہیں ؟ اگر ہم طبیب سے کہیں کہ تیرا دعوی ہم تبھی مانیں گے جب تو آسمان پر اڑ کر چلا جائے تو یقینا ہو کہے گا میں نے طبابت کا دعوی کیا ہے آسمان پر اڑنے کا نہیں کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ مجھے اڑنے کی بھی طاقت دے دے لیکن طبابت کے دعوے کا اڑنے سے کیا واسطہ ؟ اگر میرا دعوی پر کھنا چاہتے ہو تو آؤ تمہارا علاج کر کے اپنی طبابت کا ثبوت دے دوں کیا تم میری دوا کھاؤ گے ؟ ٹھیک ٹھیک یہی معنی اس جواب کے بھی ہیں کہ (ھل کنت الا بشرا رسولا “۔ میں نے کب کہا ہے کہ آسمان و زمین کو ملا دوں گا ؟ میرا دعوی تو صرف یہ ہے کہ پیام حق پہنچانے والا ہوں ، پس اگر طالب حق ہو تو میرا پیام پرکھ لو میرے پاس نسخہ شفا ہے کہ نہیں ؟ میں صراط مستقیم پر چلا سکتا ہوں یا نہیں ؟ میں سراسر ہدایت اور رحمت ہوں یا نہیں ؟ پھر اس جواب میں صرف یہی نہیں کہا کہ میں رسول ہوں بلکہ (بشرا) کے لفظ پر بھی زور دیا کیونکہ جو بات منکروں کے دماغ میں کام کر رہی تھی وہ یہی تھی کہ ایک آدمی جس میں کوئی مافوق انسانیت کرشمہ نہیں پایا جاتا وہ خدا کا فرستادہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور کیوں ہم اس پر ایمان لائیں ؟ فرمایا میں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ ایک آدمی ہوں پیام حق پہنچانے والا ، میں نے یہ دعوی نہیں کیا کہ فرشتہ ہوں یا کوئی ماوراء انسانیت مخلوق ہوں ، پھر آنے والی آیت میں اس کی مزید وضاحت فرما دی ۔
Top