Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور انہوں نے کہا ہم تو اس وقت تک تجھے ماننے والے نہیں جب تک کہ تو اس زمین کو حکم دے اور ہمارے لیے اس سے ایک چشمہ پھوٹ نکلے
ان لوگوں کی سرکشی کی پہلی بات جو بیان فرمائی وہ زمین سے ایک چشمہ کا پھوٹ نکلنا ہے : 108۔ قرآن کریم نے جا بجا منکرین حق کے عقائد واقوال نقل کر کے دو خاص گمراہیوں پر توجہ دلائی ہے ۔ ایک یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ روحانی ہدایت کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جو محض ایک انسان کے ذریعے ظاہر نہیں ہو سکتا ضروری ہے کہ انسانیت سے کوئی بالاتر ہستی ہو اس خیال نے دیوتاؤں کے ظہور اور ان کے عجائب آفرینیوں کا اعتقاد پیدا کیا چناچہ سورة اعراف اور ہود میں گزر چکا ہے کہ ہر داعی حق کے منکر نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ (آیت) ” مانراک الا بشرا مثلنا “۔ تم تو ہماری ہی طرح کے ایک بشر ہو پھر تمہارا یہ دعوی کیسے مان لیں چناچہ مشرکین مکہ بھی یہی کہتے تھے (آیت) ” مالھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق “۔ یہ کیسا اللہ کا بھیجا ہوا ہے کہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ سچائی کو خود سچائی ہی نہیں ڈھونڈتے ‘ اچنبھوں اور کرشموں کی تلاش میں رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو آدمی سب سے زیادہ عجیب قسم کی باتیں کر دکھائے وہ سب سے زیادہ سچائی کی بات بتلانے والا ہے گویا سچائی اس لئے سچائی نہ ہوئی وہ سچائی ہے بلکہ اس لئے ہوئی کہ عجیب عجیب طرح کے کرشمے اس کے پیچھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ غور کرو جو حالت قرآن کریم نے اپنے مخالفین ومعاندین کی بیان کی ہے آج وہی حالت اس کے ماننے والوں کی ہے کہ وہ سچائی کو سچائی میں تلاش کرنے کی بجائے اچنبھوں اور کرشموں کی تلاش کے متلاشی ہیں ان کو لاکھ بار یہ بات بتائی جائے کہ فلاں آدمی نے حق کو حق ماننے کے بدلے بہت بڑی بڑی سختیاں برداشت کیں لیکن حق کو حق ہی کہتا ہے تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوں گے بلکہ بڑبڑا کر رہ جائیں گے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں نے مردہ کو زندہ کردیا ‘ گم شدہ چیز کا کھوج بتا دیا ‘ ہاتھ پھیرا اور فلاں فلاں کی بیماری ہوا ہوگئی ‘ فلاں نے دعا دی تو اس کے ہاں اولاد پیدا ہوگئی تو فورا اس کی بزرگی کے قائل ہوجائیں گے ۔ زیر نظر آیت میں مشرکین کی اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کے دعوی رسالت کے بعد جو انہوں نے پہلا مطالبہ کیا وہ یہ تھا کہ ” ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں جب تک کہ آپ ہمارے سامنے اس زمین سے ایک چشمہ نہ رواں کردیں ۔ “
Top