Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 75
اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اِذًا : اس صورت میں لَّاَذَقْنٰكَ : ہم تمہیں چکھاتے ضِعْفَ : دوگنی الْحَيٰوةِ : زندگی وَضِعْفَ : اور دوگنی الْمَمَاتِ : موت ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاتے لَكَ : اپنے لیے عَلَيْنَا : ہم پر (ہمارے مقابلہ میں) نَصِيْرًا : کوئی مددگار
اور اس صورت میں ضرور ایسا ہوتا کہ ہم تجھے زندگی کا بھی دوہرا عذاب چکھاتے اور موت کا بھی اور پھر تجھے ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ ملتا
قانون الہی کی سختی کے ساتھ پابندی کا سبق آپ ﷺ کی امت کو دیا گیا : 93۔ خالق اور مخلوق کا فرق اس آیت نے واضح کردیا اور فرمایا کہ رسول کتنا ہی بلند مرتبہ اور عالی حوصلہ ہوں لیکن پھر بھی آخر مخلوق ہیں اور خالق مخلوق کے سامنے کبھی مجبور نہیں ہوتا اور مخلوق میں سے اگر کوئی بھی لغزش کرے تو خالق اس کو پوچھ سکتا ہے اور خالق کبھی کسی طرح کی لغزش کا امکان اور صدور نہیں ہوتا فرمایا کہ اللہ اپنے وعدہ کا اتنا پابند اور اپنے قانون کا اس قدر محافظ ونگہبان ہے کہ وہ کبھی بھی اس میں خلاف ورزی نہیں ہونے دیتا ۔ رسول اللہ ﷺ سے نہ لغزش ہوئی اور نہ ہی ایسی لغزش کا کوئی امکان تھا یہ امکان انسانی حد تک کہا جارہا ہے رب ذوالجلال کے مقابلہ میں نہیں ، اس لیے اگر رسول سے لغزش ہوتی تو قانون کی خلاف ورزی پھر بھی نہ ہوتی بلکہ وہ اپنا کام کرجاتا۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ایسا ممکن نہ تھا تو یہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے قدم جما دیئے تھے اور اللہ جس کے قدم جما دے تو کون ہے جو اس میں لغزش ڈال دے۔ رہا امکان انسانی تو اگر ایسا ہوتا تو دوسروں کو جتنا عذاب دیا جاتا رسول کے لیے اس سے دوگنا ہوتا ، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی۔ اتنا سخت حکم دینے سے مقصود یہ ہے کہ امت کے لوگ سمجھ لیں کہ کسی نبی و رسول کے اپنے اختیار میں نہیں کہ وہ لغزش سے بچ سکے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فضل خاص ہے جو انبیاء و رسول کے لیے رب کریم فرماتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو نبی اعظم و آخر ﷺ نے فرمایا : (اللَّهُمَّ لَا تَکِلْنِی إِلَی نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ ) اے اللہ ! مجھے میرے نفس کے ذمہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چھوڑ۔ جس سے واضح ہوا کہ آپ ﷺ حفاظت الٰہی پر ہی بھروسہ رکھتے تھے اور وہی ذاست ہے جس پر سب انسانوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔
Top