Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 74
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاۗۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَنْ : یہ کہ ثَبَّتْنٰكَ : ہم تمہیں ثابت قدم رکھتے لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ : البتہ تم جھکنے لگتے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف شَيْئًا : کچھ قَلِيْلًا : تھوڑا
اور اگر (راہِ حق میں) ہم نے تجھے جما نہ دیا ہوتا تو تو ضرور ان کی طرف کچھ نہ کچھ میلان کر ہی بیٹھتا
اگر ہم آپ ﷺ کو مضبوط نہ کردیتے تو ممکن تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف تھوڑا سا جھک جاتے : 92۔ ” اور اگر ہم نے تجھے جما نہ دیا ہوتا تو تو ضرور ان کی طرف کچھ نہ کچھ میلان کر ہی بیٹھتا ، “ مطلب یہ ہے کہ اگر وحی الہی کی روشنی تیری راہنمائی کے لئے موجود نہ ہوتی تو وقت کی تاریکی اتنی شدید تھی کہ ممکن نہ تھا اس بےلاگ ثبات و استقامت کے ساتھ آپ ﷺ اپنی راہ چلتے رہتے ، کام کی دشواریاں ضرور تجھے تھکا دیتیں ، طاقت ورافراد کی منتیں اور التجائیں ضرور تجھے متوجہ کرلیتیں طرح طرح کی مصلحتیں ضرور دامن گیر ہوجاتیں اور لغزشیں ‘ ٹھوکریں قدم قدم پر نمودار ہوتیں لیکن اب کوئی چیز بھی تیری راہ نہیں روک سکتی ، کوئی فتنہ بھی تجھے قابو نہیں نہیں لاسکتا اور کوئی چیز بھی تیرے راستہ کا روڑا نہیں ہوسکتی ، یہ وحی الہی کی راہنمائی ہے اور وحی الہی کی راہنمائی پر کوئی انسانی طاقت غالب نہیں آسکتی واضح مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام اور رسل عظام کی تعلیم وتربیت براہ راست اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے ان کی ہمت اور حوصلہ ثابت قدمی کا مقابلہ کوئی دوسرا انسان خواہ وہ کتنا ہی ثابت قدم کیوں نہ ہو نہیں کرسکتا ۔ صدیق اکبر ؓ کی کتنی ہی بڑی شان کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی دل میں وسوسہ پیدا ہوا لیکن فورا رسول اللہ ﷺ کی زبان گویا ہوئی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں (ان اللہ معنا) بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے یہی وہ فرق ہے جو کہ زیر نظر آیت میں اجاگر کیا گیا ہے ۔
Top