Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 73
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ١ۖۗ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : وہ قریب تھا لَيَفْتِنُوْنَكَ : کہ تمہیں بچلا دیں عَنِ : سے الَّذِيْٓ : وہ لوگ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتَفْتَرِيَ : تاکہ تم جھوٹ باندھو عَلَيْنَا : ہم پر غَيْرَهٗ : اس کے سوا وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّاتَّخَذُوْكَ : البتہ وہ تمہیں بنا لیتے خَلِيْلًا : دوست
اور ان لوگوں نے تو اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی کہ تجھے فریب دے کر اس کلام سے باز رکھیں جو ہم نے بذریعہ وحی نازل کیا ہے اور مقصود ان کا یہ تھا کہ اس کلام کی جگہ دوسری باتیں کہہ کر توُ ہم پر افتراء پردازی کرے اور پھر اس سے خوش ہو کہ یہ تجھے اپنا دوست بنا لیں
انہوں نے آپ کو برگشتہ کرنے کا پختہ عہد کرلیا تھا لیکن انہوں نے منہ کی کھائی : 91۔ زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ خود اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کا موید و مددگار ہے اس نے آپ کو راہ راست پر پختہ رکھنے کی توفیق دی اور اس زمانہ کے سارے شریروں کے شر سے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا ورنہ شریروں نے شرارتوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ، آپ ﷺ کو ڈرایا دھمکایا اور آپ ﷺ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کیں ، آپ ﷺ کو مجنون ‘ شاعر ‘ جادوگر اور سحر زدہ قرار دیا ۔ آپ ﷺ نے متعلق فتنہ و فساد کے شوشے چھوڑے لیکن ان ساری باتوں کا نتیجہ کیا رہا ؟ آپ ﷺ کو اپنے دشمنوں پر فتح و کامیابی عطا کی گئی ، آپ ﷺ کو دین کے مخالفین کی مخالفت کے باوجود غلبہ بخشا اور مشرق ومغرب میں اسلام کا پرچم تائید الہی سے لہرایا جو آج تک لہرا رہا ہے اگرچہ وہ ہماری بدقسمتی سے سرنگوں ہے ، قریش مکہ جب مخالفت کر کر کے تھک ہار گئے تو انہوں نے لالچ دینے کا ہتھیار سنبھال لیا اور آپ ﷺ کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگانے کے لئے تیار ہوگئے اور علاقہ کا تاج وتخت پیش کردیا اور حسین و جمیل عورت کا رشتہ دین کے بار بار کوشش کی لیکن نبی اعظم وآخر ﷺ نے ان کی ساری پیش کشوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا اور فرمایا کہ اگر تم میں ہمت ہے تو سورج میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند بائیں ہاتھ پر رکھ دو تب بھی میں اللہ کے کلام میں بال برابر ردوبدل نہیں کرسکتا ، اللہ نے مجھے جس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے اس کی تبلیغ میں سر گرم عمل رہوں گا یہاں تک کہ میں اپنے مقصد میں بحکم الہی کامیاب ہوجاؤں یا میری زندگی ختم ہوجائے ۔ اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کسی قوم کے عقائد ونظریات کتنے ہی بودے اور سطحی کیوں نہ ہوں لیکن وہ ان کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتی بلکہ ان کو بحال رکھنے کے لئے اپنی سرتوڑ کوشش کرتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس لئے کہ اپنے آباء و اجداد کی غلط رسم و رواج کو وہ ہرگز مٹنے نہیں دیتے بلکہ ان کا مٹنا وہ اپنی موت سمجھتے ہیں کسی برے سے برے انسان کی اولاد بھی کم از کم اس کے مرنے کے بعد برے کو برا کہنا برداشت نہیں کرتی اور سردھڑ کی بازی لگا دیتی ہے ، اس وقت کی بات کرنا آسان ہے لیکن غور کرو کیا آج ہم وہی کچھ نہیں کر رہے جو کفار مکہ کرتے رہے ۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ایک وفد نبی اعظم وآخر ﷺ کے پاس پہنچا اور کہا کہ قرآن کریم میں یہ جو (من دون اللہ ) معبودان کا ذکر آپ کرتے ہیں اس کو چھوڑ دیں تو آپ کی تحریک چمک اٹھے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہم آپ کو جتنی دولت آپ چاہیں دینے کو تیار ہیں اس لفظ نے ہمیں بہت تکلیف دی ہے اور تعجب ہے کہ آج بھی ہم آپ کو جتنی دولت آپ چاہیں دینے کو تیار ہیں اس لفظ نے ہمیں بہت تکلیف دی ہے اور تعجب ہے کہ آج بھی ہم مسلمانوں میں سے اکثریت کو یہی لفظ (من دون اللہ) غیظ وغضب دلاتا ہے اور وہ اس کو سن کر اس قدر مشتعل ہوتے ہیں کہ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ اس وقت اس لفظ سے روکنے والے کفار کے سرکردہ لوگ تھے اور آج جن کو یہ لفظ غصہ دلاتا ہے وہ ” عاشقان رسول “ ” محبان ناموس رسالت “ جیسے ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں اور اس طرح کے بہت سے ایسے نام انہوں نے رکھ لئے ہیں ۔ وہ دوستی کرنے کے لئے ایسے مطالبات پیش کرتے تھے اور یہ دوستی کا دم بھرنے کے ساتھ ساتھ اس بات سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں ‘ پیروں اور مرشدوں کو (من دون اللہ) تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ، تعجب ہے کہ آج بھی بڑے بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے یہی بات کہتے ہیں کہ صاحب اگر آپ یہ بات نہ کہتے تو آج آپ کی بہت قیمت ہوتی یہ اتنا مشکل کام آپ نے کیوں اپنا لیا دیکھو سارے لوگ جب ایک بات کہہ رہے ہیں تو آخر وہ سارے ہی تو غلط نہیں تھے ۔ اگر آپ یہ بات نہ کریں تو کتنا ہی اچھا ہو ؟
Top