Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 72
وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا
وَمَنْ : اور جو كَانَ : رہا فِيْ هٰذِهٖٓ : اس (دنیا) میں اَعْمٰى : اندھا فَهُوَ : پس وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اَعْمٰى : اندھا وَاَضَلُّ : اور بہت بھٹکا ہوا سَبِيْلًا : راستہ
اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا رہا تو یقین کرو آخرت میں بھی وہ اندھا ہی رہے گا اور راستہ سے یک قلم بھٹکا ہوا
جو دنیوی زندگی میں اندھا رہا وہ آخرت کی زندگی میں بھی اندھا ہی رہے گا : 90۔ اس اندھے سے سے آنکھوں کا اندھا نہیں بلکہ دل کا اندھا مراد ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب کسی پر اندھے پن کا وقت آتا ہے تو آنکھوں کی بصارت نہیں جاتی بلکہ دل کی بصیرت جاتی رہتی ہے حالانکہ دل ہی کی بصیرت سے ساری بصارت ہے ۔ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے : ظاہر ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں دل کے اندھے ہیں یعنی وہ ہر سنی ان سنی اور ہر دیکھی ان دیکھی کردیتے ہیں اور اپنی غرض کے بندے ہیں وہ غرض ہی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور جہاں ان کی دنیوی غرض وابستہ نہیں ہوتی ان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ ان کو جائز وناجائز اور صحیح و غلط کی بحث نہیں بلکہ ان کو ان کی خواہش نے اندھا بنا رکھا ہوتا ہے اور ان کی ساری زندگی اس طرح گزر جاتی ہے ، آخرت نام کی شے انکے ذہن و دماغ میں موجود ہی نہیں وہ اس دنیا کے نفع کو نفع اور اس دنیا کے نقصان کو نقصان سمجھتے ہیں آخرت کے نفع ونقصان کی طرف انہوں نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا وہ آخرت کی زندگی میں پہنچ کر کیا خاک دیکھیں گے جب اس دنیا میں کئے گئے اعمال کا رزلٹ انکو ملے گا ، آنکھ سے دیکھنا مراد ہوتا تو قرآن کریم نے دوسری جگہ ان اندھوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ (آیت) ” فکشفنا عنک غطآء ک فبصرک الیوم حدید “۔ (ق 50 : 22) ” جس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تجھ پر پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے ۔ “ بلاشبہ اس دل کے اندھے کو اب سب کچھ نظر آئے گا لیکن اس نظر آنے کا کوئی نتیجہ ؟ اس لئے کہ وہ تو درالجزاء ہے دارالعمل نہیں ۔ لہذا اس دنیا میں اندھے کو اندھے پن کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اگرچہ وہ سب کچھ دیکھ بھی رہا ہو اور خصوصا اپنے انجام کو تو وہ دیکھ ہی چکا ہوگا اور زیر نظر آیت کے جملہ (واضل سبیلا) نے مزید حقیقت کھول دی (اضل) اس لئے کہ جو شخص غلط راستے کو اختیار کرلیتا ہے وہ روز بروز حق سے دور ہی ہوتا جاتا ہے اور حق سے دور ہونے کا انجام سب پر روشن ہے اور اسی بات کا اس جگہ بیان ہے ۔ اس کی مزید تشریح سورة طہ میں خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے جہاں فرمایا گیا : (آیت) ” وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی (124) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمَی وَقَدْ کُنتُ بَصِیْراً (125) قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنسَی (126) (طہ 20 : 124 ، 126) ” اور جو شخص میری یاد سے روگرداں ہوگا تو اس کی زندگی ضیق میں گزرے گی اور قیامت کے دن بھی میں اسے اندھا اٹھاؤں گا ۔ وہ کہے گا پروردگار ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟ میں تو اچھا خاصا دیکھنے والا تھا ، ارشاد ہوگا ہاں ! اس طرح ہونا تھا ہماری نشانیاں تیرے سامنے آئیں مگر تو نے انہیں بھلا دیا سو اسی طرح آج تو بھی بھلا دیا گیا ۔ “ فرمایا جس نے ہمارے ذکر سے اعراض کیا تو اسے دو حالتیں پیش آئیں گی دنیا میں اس کی زندگی ضیق میں پڑجائے گی وہ بظاہر کتنا ہی نحال ہوجائے لیکن دل کی طمانیت اور روح کا انبساط اسے کبھی نہیں ملے گا اور آخرت میں بینائی سے محروم ہوجائے گا سعید انسانوں کی نگاہئیں روشن ہوگی اس کی اندھی ‘ وہ جمال الہی کا نظارہ کریں گی اس کے آگے پردہ پڑا ہوگا (کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون “۔ (83 : 15) وہ اندھا کیوں ہوجائے گا ؟ اس لئے کہ آخرت کی زندگی دنیوی زندگی کا نتیجہ ہے اس نے دنیا میں قدرت کی نشانیوں سے آنکھیں بند کرلی تھیں اس لئے آخرت میں بھی اس کی آنکھیں بند رہیں گی ، اب زیر نظر آیت کو پڑھو (من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا “۔ معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے نزدیک ثواب آخرت کی حقیقت یہ ہے کہ نگائیں جمال الہی کے نظارہ سے شاد کام ہوں گی اور عذاب کی یہ ہے کہ اندھی ہو کر محجوب ہوجائیں گی اور یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے ۔
Top