Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 44
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
تُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَهُ : اس کی السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) السَّبْعُ : سات وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان میں وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتی ہے بِحَمْدِهٖ : اس کی حمد کے ساتھ وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَفْقَهُوْنَ : تم نہیں سمجھتے تَسْبِيْحَهُمْ : ان کی تسبیح اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : بردبار غَفُوْرًا : بخشنے والا
ساتوں آسمان اور زمین (جو آسمان ہی کی مانند ہیں) اور جو کوئی ان میں ہے سب اس کی پاکیزگی وکبریائی کا زمزمہ بلند کر رہے ہیں یہاں کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد و ثنا میں زمزمہ خواں نہ ہو مگر تم ان کی (تسبیحات اور) زمزمہ خوانیاں سمجھتے نہیں ، بلاشبہ وہ بڑا ہی بردبار ہے ، بڑا ہی بخشنے والا
ساتوں آسمانوں میں بھی مخلوق موجود ہے جیسے زمین میں ہے جو اللہ کی تسبیح خواں ہے : 57۔ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان ساتوں آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب اسی کی تسبیح کرتا ہے اس لئے کہ کسی چیز کا موجود ہونا خواں وہ کوئی ہے اور کون ہے اللہ تعالیٰ کی تسبیح خواں ہونا ہے اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے حتی کہ مجسمہ برائی شیطان بھی اس کی مخلوق ہے گویا انسان ‘ جنات ‘ حیوانات ‘ نباتات و جمادات سب اس میں آگئے ۔ تسبیح کیا ہے ؟ (تسبیح) بروزن (تفعیل) مصدر ہے ، تسبیح کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ اور اس کی پاکیزگی بیان کرنا جو (سبح) سے ماخوذ ہے جس کے معنی پانی یا ہوا میں تیز گزرنے کے ہیں اس لحاظ سے تسبیح کے اصل معنی ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں تیز روی کرنا اور بسرعت مصروف ہوجانا ، عربی زبان میں جس طرح ” ایعاد “ کا لفظ شر کے لئے استعمال ہوتا ہے تسبیح خیر کے لئے مستعمل ہے جو قول ہو یا فعل یا نیت تسبیح کا لفظ سب پر حاوی ہے اور سب عبادات کے لئے عام ہے (تسبح) وہ تسبیح کرتی ہے ۔ وہ پاکیزگی بیان کرتی ہے ۔ مضاعر کا صیغہ واحد مؤنث غائب ، ساتوں آسمان (والارض مثلھن) ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آسمانوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جو چلتی پھرتی ہے اور جس کو اس دنیا کی مخلوق کے ساتھ ملا دینے کا وعدہ الہی قرآن کریم میں موجود ہے ، وہ کب ملے گی اور کیسے ملے گی اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور وہی جانتا ہے ، ہاں یہ یقینی بات ہے کہ اس حقیقت کو ضرور کھلنا ہے اور اس چیز کو علم کی روشنی میں آنا ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” ومن ایتہ خلق السموات والارض وما بث فیھا من دآبۃ وھو علی جمعھم اذا یشآء قدیر “۔ (الشوری 42 : 29) ” اس کی نشانیوں میں سے ہے اس زمین میں اور آسمان کی مخلوق اور یہ جاندار مخلوق جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہے وہ جب چاہئے کا انہیں اکٹھا کر دے گا ۔ “ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرح کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی بلکہ دوسروں سیاروں میں بھی موجود ہے اور جس اللہ نے ان کو الگ الگ کر رکھا ہے وہ ان کو جمع کردینے پر بھی قدرت رکھتا ہے بلکہ ان کا جمع ہونا ایک یقینی امر ہے کسی کے ماننے اور انکار کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں جس کا ہونا ہے اس کو ہونا ہی ہے اگرچہ ہم طفل مکتب ہی رہیں اور ہمیں بلوغت کا پتہ ہی نہ چلے ، جو لوگ اس طرف کوشاں ہیں ان کی کامیابی یقینی ہے اور یہ قرآن کریم کی صداقت نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس کو علمائے کرام کی لٹھ روک نہیں سکتی ۔ یہاں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس رب ذوالجلال کی زمزمہ سنج نہ ہو : 58۔ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی حمد وتسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم میں سمجھ نہیں کہ ان کی تسبیح و تقدیس پر غور کرو۔ یہ تسبیح جو کائنات کی ہرچیز کر رہی ہے کیا محض صداؤں کی تسبیح ہے ؟ نہیں وہ اپنی ہستی میں اپنی بناوٹ میں ‘ اپنی شکل و صورت میں ‘ اپنے افعال و خواص میں مجسمہ تسبیح و تقدیس ہیں ۔ ان کی ہستی میں تسبیح کا ترانہ اور ان کی موجودگی میں سرتا سر حمد وثنا ہے ، وہ اپنی ہر بات میں کسی بنانے والے کی صنعت کسی پرورش کرنے والے کی پرورش اور کسی سرچشمہ حسن و کمال کی حسن افروزیاں ہیں اور اس لئے زبان حال سے اس کی خالقیت و حکمت اور ربوبیت ورحمت کی تحمید وتسبیح کر رہی ہیں ۔ عربی میں زبان میں ” من “ ذوی العقول کے لئے آتا ہے اس لئے پہلے فرمایا آسمانوں اور زمین میں جتنی ذوی العقول ہستیاں ہیں سب تسبیح الہی میں سرگرم ہیں پھر فرمایا (ان من شیء) اور کائنات ہستی میں کوئی شے نہیں جو اس تسبیح میں انکی شریک نہ ہو عربی میں ” شئے “ کا اطلاق نہ صرف ان چیزوں پر ہوتا ہے جو جسم وحجم رکھتی ہوں بلکہ ہر بات اور ہر حادثہ پر ہوتا ہے حتی کہ دروازہ کھلنے کی آواز کو بھی شے کہیں گے پس مطلب یہ ہوا کہ کائنات ہستی کا ہر وجود ہر ہستی ‘ ہرچیز ‘ ہر حالت ‘ ہر حادثہ اپنے بنانے والے کی یکتائی اور صنعت گری کی تصویر ہے اور خود تصویر سے بڑھ کر اور کس کی زبان ہو سکتی ہے جو مصور کی صنعت و کمال کا اعلان کرے ؟ اگر ایک باکمال سنگ تراش موجود ہے تو اس کی صناعی و کمال کی تعریف تم زبانوں سے نہیں کرسکتے ، اس کی مجسم تعریف و توصیف خود اس کی بنائی ہوئی مورتی ہوتی ہے ، اس مورتی کا حسن ‘ اس کا تناسب ‘ اس کا انداز ‘ اس کی ساری باتیں اپنے سنگ تراش کے دست صنائی کی ابھرتی ہوئی تعریف اور ابلتی ہوئی مدح وثنا ہوتی ہے ۔ اس آیت نے یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ کارخانہ ہستی میں جو کچھ ہے سرتا سر حسن و خوبی ہی ہے کیونکہ حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں اور تمام چیزوں کا صدائے حمد ہونا اس کا امر کا ثبوت ہے کہ بنانے والے نے جتنی چیزیں بنائی ہیں حسن و خوبی ہی کی بنائی ہیں اگرچہ تمہاری کو تہ بینی اسے نہ پا سکے ۔ لیکن کیا کائنات ہستی کی یہ تسبیح محض صدائے حال ہی کی تسبیح ہے ‘ صدائے قال کا اس میں کوئی حصہ نہیں ؟ کون ہے جو ایسا کہنے کی جرات کرسکتا ہے ؟ ہمیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے اور یہی اعلان الہی ہے کہ (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “۔
Top