Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 43
سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِیْرًا
سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں عُلُوًّا : برتر كَبِيْرًا : بہت بڑا (بےنہایت
ان ساری باتوں سے اس کی ذات پاک اور بلند ہے ، بیحد بلند !
اللہ رب العزت ان کے وہمی مفروضوں سے بہت بلند وبالا ہے : 56۔ قرآن کریم کی آیات ‘ جاہلیت کے اشعار ‘ اسلام سے پہلے عربوں کے حالات وواقعات بلکہ عرب کے آثار قدیمہ کے کتبات سے یہ واضح طور پر ثابت ہے کہ عربوں کے ذہن میں ایک بالا تر ہستی کا تخیل ضرور موجود تھا جس کا نام ان کے ہاں ” اللہ “ تھا مگر اللہ کیا ہے ؟ کیسا ہے ؟ اس کی صفات کیا ہیں ؟ اس کی طرف کیا کیا باتیں منسوب کی جاسکتی ہیں ؟ کن کن باتوں سے وہ پاک ہے ؟ اس کے ہاں دعا کس طرح کرنی چاہئے ، اگر کی جاسکتی ہے تو کیونکر کی جاسکتی ہے ؟ اس سے محبت کرنے کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی قدرت کہاں تک ہے ؟ اس کے علم کی حیثیت کیا ہے ؟ کیا وہ ہم سے دور ہے یا قریب ہے ؟ اگر قریب ہے تو دکھائی کیوں نہیں دیتا ؟ اس کے تقدس ‘ بڑائی اور عظمت کی کوئی حد ہے ؟ اس پر ہم توکل وبھروسہ کریں تو کیونکر کریں ؟ کیا وہ انسانوں سے کلام بھی کرتا ہے ؟ کیا اس کے کچھ احکام بھی ہیں ؟ اور وہ احکام ہم پر واجب الاطاعت بھی ہیں ؟ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کن سے ناخوش ہوتا ہے ؟ وہ جن باتوں سے ناخوش ہوتا ہے انسانوں کو کیونکر کرنے دیتا ہے ؟ کیا وہ ہمارے دلوں میں چھپے رازوں سے بھی واقف ہے ؟ کیا اس کی اجازت کے بغیر زمین کا ایک ذرہ بھی حرکت نہیں کرسکتا ؟ اس کی مشیت اور ارادہ کیوں کر آسمانوں سے زمین تک ہرچیز کو محیط ہے ؟ کیا اس کے بنائے ہوئے قاعدے اور قانون بھی ہیں ؟ انسانوں کی تعلیم اور اصلاح کے لئے پیغمبروں کو بھی مبعوث کرتا ہے ؟ کیا ہم اس کی بارگاہ میں اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں ؟ ہم سے وہ کیوں اور کیسے ہماری اعمال کا مواخذہ کرے گا ؟ یہ اور اس طرح کے بیسیوں سوالات ہیں جن سے عرب جاہلیت کا دل و دماغ بالکل عاری اور خالی تھا اور اس کے متعلق ان کے ذہن میں کوئی تخیل نہ تھا ، وہ جو چاہتے تھے اس کی طرف منسوب کردیتے تھے ، عرب جاہلیت کا ایک ایک حرف پڑھتے جاؤ اور ایک ایک کام دیکھتے جاؤ جو وہ کرتے تھے ان کے مذہب اور اعتقادات کا مطالعہ کرو اس سے زیادہ کچھ نہ پاؤ گے کہ اللہ ایک طاقتور اعلی ہستی ہے جس نے سب کو پیدا کیا ہے اور اس کے کچھ پیارے ہیں جن کی وساطت سے وہ بندوں کی دعائیں منظور کرتا ہے مصیبتوں اور بلاؤں میں اس کو بلاوسطہ یا واسطہ کے ساتھ پکارنا چاہئے ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ نے اپنی زبانی تعلیمات سے ان کو اللہ تعالیٰ کی حقیقی عظمت سے آشنا کیا ، اس کی دعوت اور بےمثالی سے ان کو باخبر کیا ‘ اس کی مشیت و ارادہ اور قدرت ووسعت سے آگاہ کیا ، ایک ایسی ہستی کے اعتقاد کی انکو تعلیم دی جس کی قدرت بےانتہا ، جس کی وسعت محدود ہے ‘ جس کی مشیت کائنات کے ہر ذرہ میں نافذ ہے اور ان کو مذکورہ سوالات اور اس سے بہت بڑے بڑے سوالات کے ایسے جواب دیئے جو رہتی دنیا تک کے سارے سوالوں کے جواب ہو سکتے ہیں ، ان کو بتایا کہ اللہ وہ ذات ہے جس کے علم کے احاطہ میں اندھیرے اور اجالے کی ہرچیز داخل ہے ، دلوں کے اسرار اور زبانوں کے الفاظ اور ہاتھ پاؤں کے اعمال سب کے سب ہر لحظہ اور ہر لمحہ اس کے روبرو ہیں اس کے سامنے انسان اپنے ہر عمل سے جواب دہ ہیں ، اس کے مواخذہ کا خوف اور اس کی رحمت کی امید ہے ، مختصر یہ کہ ان کو صاف صاف وار واضح الفاظ میں بتایا کہ وہ انسانوں کے وہم و گمان سے بالاتر ہے کوئی آنکھ اس کو دیکھ نہیں سکتی اور کوئی ہاتھ اس کو چھو نہیں سکتا ، اس کا نظام اس کی پہچان ہے وہ محبوب ازل ہے ۔ اس کی محبت کا نشہ ہمارے دلوں کی ہوشیاری ہے ۔ اس کے فضل و کرم اور لطف و محبت کی تیرنیاں اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی ہیں ، اس کی قوت ہر قوت پر غالب ہے اور اس کا حکم ہر حکم سے بالاتر ہے ، اس کی تسبیح و عبادت ہر مخلوق پر فرض ہے اور اس کی اطاعت ہر مکلف پر واجب ہے ‘ وہ ہر عیب سے پاک ومنزہ ہے ، ساری ستائشیں اسی کے لئے ہیں ، اس نے انسانوں کو اپنی یاد دلانے کے لئے رسولوں کا سلسلہ جاری کیا اور انسانیت کے بلوغ کے بعد اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کو نبی اعظم وآخر ﷺ بنا کر اس سلسلہ کو ختم کردیا ، وہ ہر اندھیرے کی روشنی ہے ۔ وہ بھوکوں کی سیری ‘ مایوسوں کی امید ‘ زخمیوں کا مرہم ‘ بےقراروں کی تسلی ‘ بےکسوں کا سہارا ہے وہ ہم سے ہماری گردن کی رگ سے بھی قریب تر ہے ہم اس کو جب پکاریں وہ سنتا ہے ، وہ نیکیوں کو پسند کرتا ہے اور گناہوں سے نفرت کرتا ہے ، وہ وہی ہے جس نے اس پورے نظام دنیا کو بنایا اور چلایا ہوا ہے اور جب چاہے گا اس کو ختم کر دے گا ، انسانوں کو اس نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس نظام کو درہم برہم کرنے کے بعد وہ لوگوں کے اعمال کے نتیجہ کے مطابق دارالآخرت میں مقام ادا کرے گا ۔ اس کی یاد ہمارے دلوں کی راحت ہے جو اس دنیا اور اس دارالآخرت میں ہمارا سہارا ہے ۔ (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “۔ اس کا فرمان ہے ۔
Top