Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
تم کہہ دو اگر اللہ کے ساتھ بہت سے معبود ہوتے جیسا کہ وہ کہتے ہیں تو اس صورت میں ضروری تھا کہ فوراً صاحب تخت ہستی تک راہ نکال لیتے
اللہ کے ساتھ معبود ہوتے تو سب معبودوں کی طرف سے بھاگ کر لوگ اللہ کی طرف بڑھتے : 55۔ زیر نظر آیت کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہیں اور توحید الہی ہی کا سبق ان آیات کریمات میں دیا جارہا ہے ، ایک مفہوم یہ کہ یہ لوگ اللہ وحدہ کا نام سن کر خوش نہیں اور اس کے ساتھ اور خداؤں کو مان کر بہت خوش ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ معبود ہوتے اور ہر معبود ان سے اپنی بندگی کراتا تو ان کو سمجھ آجاتی کیونکہ دو آقاؤں کا غلام مشکل میں پھنس کر رہ جاتا ہے تو دو یا دو سے زیادہ خداؤں کے بندہ کا کیا حال ہوتا ؟ اس طرح انکی اپنی حالت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ایک ہی خدائے رحمن کے بندے ہیں تب ہی تو یہ اپنے حال میں مست ہیں اور باتیں بنا رہے ہیں اگر اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو انکی یہ ساری مستی ہوا ہوجاتی اور مدت سے انکی تکا بوٹی ہوچکا ہوتا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک اللہ کے سوا اور معبود بھی ہوتے تو دو معبود آپس میں مل کر صاحب عرش کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے اس لئے کہ کبھی نہ کبھی ان کی رائے اللہ تعالیٰ سے ضرور ٹکراتی اور وہ انتہائی کوشش کرتے کہ اپنی خدائی کی لاج رکھنے کے لئے آپس میں مل کر ایک متحدہ محاذ بناتے اور عرش کے مالک پر چڑھائی کردیتے اور کوشش کرتے کہ اس کو مغلوب کردیں تاکہ وہ انکی مخالفت نہ کرسکے ، حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا اور ایسا نہ ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ رب ذوالجلال والاکرام وحدہ لا شریک لہ ہے اور وہ تمہارے وہمی معبود کہیں چھپے بیٹھے نہیں ہیں اگر ہیں تو ان کی قوت و شوکت کا کوئی ایک مظاہرہ ہی دکھا دو اور اگر نہیں دکھا سکتے تو پھر ایسے بےبسوں کو اپنا خدا تسلیم کرنا کتنی نادانی اور لغویت ہے کیا تم حقیقت سمجھنا نہیں چاہتے یا سمجھ بوجھ کر شرارتا ایسا کر رہے ہو ؟ سوہ الانبیآء 21 : 22 ، اور سورة المؤمنون 23 : 9 میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے غور کرو کہ جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک پتہ اور تنکا بھی اس وقت تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا جب تک کہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کے لئے کام نہ کریں اس کے متعلق صرف ایک انتہاء درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ اس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ مختار یا نیم خود مختار خدا کر رہے ہوں گے ورنہ جس شخص نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ خدائی اور الوہیت صرف اور صرف ایک ہی الہ کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے ، کتنی عام فہم بات ہے جس کے سمجھنے سے یہ لوگ قاصر ہیں ۔
Top