Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا١ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
وَلَا تَمْشِ : اور نہ چل فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَرَحًا : اکڑ کر (اتراتا ہوا) اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَخْرِقَ : ہرگز نہ چیر ڈالے گا الْاَرْضَ : زمین وَلَنْ تَبْلُغَ : اور ہرگز نہ پہنچے گا الْجِبَالَ : پہاڑ طُوْلًا : بلندی
اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو ، یقینا تم زمین میں شگاف نہیں ڈال سکتے اور نہ پہاڑوں کی لمبائی تک پہنچ سکتے ہو
زمین پر اکڑ کر اور اتراتے ہوئے چلنے کی ممانعت : 49۔ یہ منشور اسلامی کی چودہویں شق ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ زمین پر اترا کر نہ چلو اس طرح کہ تم زمین کو پھاڑ دو گے جب کہ تمہارے چلنے سے زمین پھاڑی نہیں جائے گی اور نہ ہی تم لمبائی میں پہاڑ تک پہنچ جاؤ گے آخر انسان ہو تو انسانوں ہی میں رہو گے اس طرح کا تکبر اور فخر و غرور احمقانہ فعل ہے انسان کی چال ڈھال میں کوئی بات اور کوئی چیز بھی تکبر کی نہیں ہوئی چاہئے ، انسان میں جب کوئی وصف یا کمال پایا جاتا ہے تو قدرتی طور پر اس کے دل میں اس کا خیال پیدا ہوتا ہے اور یہ بات کوئی اخلاقی عیب نہیں لیکن جب یہ خیال اس قدر ترقی کرجاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن میں یہ وصف نہیں پایا جاتا یا کم پایا جاتا ہے اپنے سے حقیر سمجھنے لگتا ہے تو اس کو کبر اور اس کے اظہار کو تکبر کہتے ہیں اور یہ برائی ہے جو دنیا میں سب سے پہلے شیطان سے ظاہر ہوئی اور آج بھی جس میں وہ پائی جائے گی شیطان ہی کا بھائی کہلائے گا ۔ خیال رہے کہ کبر و غرور ایک اضافی اور نسبی چیز ہے جس کے لئے محض اپنی عظمت کا تخیل کافی نہیں بلکہ اس تخیل کے ساتھ دوسرے لوگوں کی تحقیر بھی ضروری ہے چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک خوش جمال شخص نے نبی اعظم وآخر ﷺ سے دریافت کیا کہ میں ایک حسین و جمیل شخص ہوں اور حسن مجھے نہایت محبوب ہے یہ نہیں پسند کرتا کہ کسی کو مجھ پر حسن میں تفوق حاصل ہو تو کیا یہ تکبر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ! تکبر یہ ہے کہ حق کو قبول نہ کیا جائے اور دوسرے لوگوں کو حقیر سمجھا جائے ۔ (ابوداؤد کتاب اللباس باب ما جاء فی الکبر) تکبر کی اس اضافی حیثیت نے اس کو مذہبی ‘ اخلاقی ‘ معاشرتی بداخلاقیوں کا سرچشمہ بنا دیا ‘ پیغمبروں کی مزاحمت صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو اور لوگوں سے بڑا سمجھتے ہیں اگر یہ لوگ نہ ہوتے غریب اور عام لوگ پیغمبروں کی ہدایت کو قبول کرلیتے ۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : ” اور دیکھو قیامت کے روز سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے اور ناتواں سرکشوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے پھر کیا تم آج ایسا کرسکتے ہو کہ اللہ کے عذاب سے کچھ بچاؤ کر دو ؟ وہ کہیں گے اگر اللہ ہم پر کوئی بچاؤ کی راہ کھولتا تو ہم بھی تمہیں کوئی راہ دکھاتے (ہم خود بھی عذاب میں پڑے ہیں) خواہ جھیل لیں ‘ خواہ روئیں پیٹیں ہمارے لئے دونوں حالتیں برابر ہیں ہمارے لئے آج کسی طرح بھی چھٹکارا نہیں۔ “ (ابراہیم 14 : 21) تفصیل کے لئے ” عروۃ الوثقی “ جلد چہارم میں سورة ہود کی آیت 27 ‘ سورة ابراہیم کی آیت 21 ‘ 22 ‘ سورة نحل کی آیت 23 جلد پنجم کا مطالعہ کریں ۔ اس جگہ دو تین احادیث درج کی جاتی ہیں ان کو نگاہ میں رکھیں ۔ عیاض بن حماد حجاشعی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’ اللہ نے میرے پاس وحی بھیجی ہے کہ باہم تواضع اختیار کرو کوئی کسی پر فخر نہ کرے نہ کسی پر زیادتی کرے ۔ “ (رواہ مسلم) عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” جس شخص میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا “۔ (صحیح مسلم) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا تو میں اس کو دوزخ میں ڈال دوں گا ۔ “ (صحیح مسلم) حضرت اسماء بن عمیس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو میں نے خود سنا کہ ’ وہ بندہ برا ہے جو اتراتا اور تکبر کرتا ہے اور اللہ برتر اور بزرگ کو بھول جاتا ہے ۔ “ (رواہ الترمذی) ایک بار سیدنا عمر فاروق ؓ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے یہ فرمایا سنا تھا کہ ” جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو اٹھا کر اونچا کردیتا ہے گو وہ اپنی نظر میں ناچخ ہوتا ہے مگر لوگوں کی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور جو خود بڑا ہوتا ہے اور بڑا بنتا ہے اللہ اس کو پست کردیتا ہے پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوجاتا ہے اگرچہ اپنی نظر میں بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کے نزدیک وہ سور اور کتے سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے “۔ (مظہری)
Top