Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور دیکھو جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو (بلکہ اپنی حد کے اندر ہی رہو) یاد رکھو کان ، آنکھ ، عقل ان سب کے بارے میں یقیناً باز پرس ہونے والی ہے
بےسوچے سمجھے کسی کے پیچھے مت چلتے رہو علم کی یہ شان نہیں ہے ۔ 47۔ یہ منشور اسلامی کی بارہویں شق بیان کی گئی ہے اور کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں ہدایت دی گئی ہے کہ ” جس چیز کا تم کو علم نہ ہو اس کے پیچھے مت چلو۔ “ اس جملہ نے تقلید شخصی اور آباء و اجداد کی پیروی کو بیخ وبن سے اکھار کر رکھ دیا ، کسی فرد یا قوم کو جب من حیث العقل اور نقل دعوت دی جائے اور وہ شخص یا قوم عقل ونقل کا جواب اس طرح دے کہ ” آج تک ہمارے آباء و اجداد نے یہ بات نہیں کہی اور ہم نے کسی اور سے یہ بات نہیں سنی کیا یہی شخص ہے جس کی سمجھ میں یہ بات آئی ‘ آج تک جتنے لوگ گزرے ہیں ان میں بڑے بڑے سمجھ دار اور عقل وفکر والے تھے کیا وہ سارے غلط ہی تھے ؟ “ تو سمجھ لو کہ یہ شخص منشور اسلامی کی بارہویں شق کا بالکل منکر ہے اگرچہ وہ اس کا واضح الفاظ میں انکار نہ کرتا ہو ۔ قرآن کریم میں انبیاء کرام (علیہم السلام) کے نذکار کا مطالعہ کرو جب بھی کوئی نبی آیا اور اس نے قوم کو عقل ونقل کی طرف بلا ای تو ہر قوم نے اس کو یہی جواب دیا چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس بات کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کی ہے نیز اللہ کے رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں ہمارے لئے تو وہی طریقہ بس کرتا ہے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو چلتے دیکھا ہے ‘ اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ جانتے بوجھتے بھی نہ ہوں اور سیدھے راستے پر بھی نہ ہوں ۔ “ (المائدہ 5 : 104) یہ بات نبی اعظم وآخر ﷺ کی قوم قریش اور عربوں نے کہی جب ان کے رسم و رواج کے خلاف آپ ﷺ نے تبلیغ کی اور ان کی عقل ونقل کی طرف بلایا جس کو قرآن کریم کی زبان میں (علم) کہا گیا ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور یہ لوگ جب بےحیائی کی باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے ایسا ہی کرنے کا ہم کو حکم دیا ہے آپ کہہ دیجئے اے پیغمبر اسلام ! بلاشبہ اللہ کبھی بےحیائی کی باتوں کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے نام پر ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لئے تمہارے باپ کوئی علم نہیں ۔ “ (الاعراف : 7 : 28) اس آیت سے واضح ہوا کہ گمراہی کا سب سے برا چشمہ اپنے بزرگوں کی تقلید ہے ، یہ بات بھی نبی اعظم وآخر ﷺ کو مشرکین مکہ نے کہی تھی اور انہوں نے سب سے بڑی دلیل جو دی وہ یہی تھی کہ ” ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے “ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ تعلی بھی کردی کہ ہمارے رب کا بھی یہی حکم ہے تو ان کو فورا جواب سنایا گیا ” اللہ تو کبھی بےحیائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے نام پر بھی ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لئے تمہارے پاس کوئی علم (عقلی ونقلی دلیل) نہیں ۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” انہوں نے کہا کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس راہ پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے دیکھا ہے اس سے ہمیں ہٹا دو اور ملک میں تم دونوں بھائیوں کے لئے سرداری ہوجائے ہم تو تمہیں ماننے والے نہیں ۔ “ (یونس 10 : 78) یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے کہی اور کب کہی ؟ قرآن کریم کہتا ہے اس وقت ” جب ہماری جانب سے سچائی ان پر نمودار ہوگئی ۔ “ اس سچائی کو انہوں نے سچائی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ” یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جادو ہے صریح جادو۔ “ گویا علم یعنی سچائی ان کے ہاں جادو قرار پائی اور سچائی وہ قرار پائی جو ان کے آباء و اجداد کرتے آرہے تھے اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے درجہ کے مطابق سمجھ بوجھ عطا فرمائی اور ہم اس کی حالت سے بیخبر نہ تھے ، جب اس نے اپنے باپ اور قوم کے سارے لوگوں سے کہا تھا یہ کیا مورتیاں ہیں جن کی پوجا پر تم جم کر بیٹھ گئے ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا ، ہم نے اپنے باپ دادوں کو دیکھا وہ انہی کی پوجا کرتے تھے ۔ “ (الانبیاء 21 : 52 ‘ 53) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب دیا ‘ انہوں نے کہا کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انہی کی سوا میں ہم لگے رہتے ہیں ‘ اس نے پھر پوچھا کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو ؟ یا یہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا نہیں ‘ بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے ۔ “ (الشعراء 26 : 71 تا 74) اس جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کے قوم سے دو سوالوں کا ذکر کیا گیا ، ابراہیم (علیہ السلام) کا قوم کے لوگوں سے پہلا سوال یہ تھا کہ ” یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو۔ “ جواب ملا کہ ” کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں “ ظاہر ہے کہ سائل اور مسئول دونوں کے سامنے یہ امر واقعہ عیاں تھا کہ ” وہ بت ہیں “ واضح ہوا کہ اس جواب کی اصل روح اپنے عقیدے پر ان کا اثبات اور اطمینان تھا اور دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہاں ! ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ لکڑی اور پتھر کے بت ہیں جن کی ہم پوجا کر رہے ہیں اور آخر جن کے یہ بت بنائے گئے ہیں ہمارے عقیدہ کی اصل اساس تو وہ ہیں ‘ یہ بت تو محض ان کی یاد گار شبیہ ہیں اور ایمان بھی یہی ہے کہ ہم ان کی پرستش اور خدمت کرتے ہیں اور آج قبر پرستوں اور شخصیت پرستوں کی بھی یہی حالت ہے جو بعینہ ان کی تھی پھر فرق کیا رہا ؟ یہی کہ انہوں نے بت تراشے اور انہوں نے قبریں بنا لیں یا بعض نے کسی شخصیت کو ذہن و خیال میں رکھا وہ مردہ ہو یا زندہ اور دوسرا فرق یہ رہا کہ قبروں کے پجاری مطمئن رہے کہ قرآن کریم نے بتوں کی پرستش کرتے ہیں نہ قبروں پر سجدہ وسلام بلکہ ہم تو پیروں اور امیروں کی پیروی میں لگے ہیں اور یہ تو قرآن کریم کا واضح حکم ہے کہ ” اپنے امیر کی اطاعت کرو۔ “ اور ہم یہی کچھ کر رہے ہیں اور ان موحدوں کے ذہن میں یہ نہ رہا کہ پیرومرشد اور امیر اس وقت تک امیر ہوتا ہے جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق حکم دے جب وہ اپنی مرضی کرے تو وہ اطاعت کے قابل نہیں رہتا بلکہ اس امیر کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف واپس لانا پڑتا ہے جو بت پرستی اور قبرپرستی کے نظریہ سے بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ وہاں تو بت یا قبر کو فقط چھوڑنا ہے اور یہاں اس زندہ امیر اور پیرومرشد سے جھگڑا کھڑا کرکے اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف واپس بھی لانا ہے ۔ رہا ابراہیم (علیہ السلام) کا دوسرا سوال تو وہ یہ تھا کہ کیا تم کو نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟ ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب ملا کہ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ ہماری پرستش کی یہ وجہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں بلکہ ہماری پرستش کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس طرح انہوں نے خود یہ اعتراف کرلیا کہ ان کے مذہب کے لئے باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کوئی سند نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آخر تم نئی بات کیا بتانا چاہتے ہو ؟ کیا ہم خود نہیں دیکھتے کہ یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیں ہیں ؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ لکڑی اور پتھر سنا نہیں کرتے ؟ لیکن اصلیت تو یہ ہے کہ یہ ہمارے بزرگ جو صدیوں سے نسلا بعد نسل ان کی پرستش کرتے چلے آرہے ہیں تو کیا وہ سب تمہارے نزدیک بیوقوف تھے ؟ آخر ضرور کوئی وجہ تو ہوگی کہ وہ ان کی پرستش کرتے رہے اور ہمیں آپ کی نسبت اپنے باپ دادا پر زیادہ اعتماد ہے کہ جو انہوں نے کیا وہ صحیح تھا کیونکہ ان میں بھی بڑے بڑے سمجھدار اور عقل مند لوگ تھے تمہارے حقیقت ہی ان کے مقابلہ میں کیا ہے اور آج قبر پرستوں اور شخصیت پرستوں کے پاس بھی بالکل یہی جواب ہے جو اس وقت کے بت پرستوں کے پاس تھا ، ایک جگہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ : ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس چیز کی پروری کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ‘ کیا یہ ان کی پیروی ہی کریں گے خواہ ان کو شیطان بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو ۔ “ (لقمن 31 : 21) اور اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور انہوں نے کہا کہ اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم کبھی ان کی نہ پوجتے ‘ یہ اس معاملہ کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے محض تیر تکے لڑاتے ہیں کیا ہم نے اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی جس کی سند یہ اپنے پاس رکھتے ہیں ؟ نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ، اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے اے پیغمبر اسلام ! جس بستی میں بھی کوئی ڈرانے والا بھاجہ اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ، ہر نبی نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم اس ڈگر پر چلے جاؤ گے خواہ میں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ تمہیں بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جس دین کی طرف بلانے کے لئے تم بھیجے گئے ہو ہم اس سے انکار کرتے ہیں ‘ آخر کار ہم نے ان کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ؟ “ (الزخرف 43 : 20 تا 25) سورة الزخرف میں مشرکین عرب کی نامعقولیت کو پوری طرح بےنقاب کرکے رکھ دیا ہے وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ہم اللہ کی بیٹیون کو سفارش کے لئے پکارتے ہیں کہ وہ ہماری سفارش کریں گی کیونکہ بیٹی کی سفارش زیادہ قابل قبول سمجھی جاتی تھی اور پھر ان کا استدلال یہ تھا کہ ہمارا فرشتوں کی عبادت کرنا اس لئے تو ممکن ہوا کہ اللہ نے ہمیں یہ کام کرنے دیا (آیت) ” لوشآء الرحمن ماعبدنھم “۔ اگر وہ نہ چاہتا کہ ہم یہ فعل کریں تو ہم کیسے کرسکتے تھے پھر مدت ہائے دراز سے ہمارے ہاں یہ کام ہوتا آ رہا ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ہمارا یہ کام ناپسند نہیں ہے گویا یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا کا ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی مشیت کے تحت ہو رہا ہے اس لئے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے ۔ چوریاں ‘ ڈاکے ‘ قتل و غارت ‘ زنا ‘ رشوت ‘ بدعہدی اور اسی طرح کے دوسرے بیشمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص یا قوم بھی اچھا نہیں سمجھتی تھی اور نہ ہی ان کاموں کو کوئی نیکی اور بھلائی سمجھتا ہے پھر کیا ان کے اس استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمام افعال حلال وطیب ہیں کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے تو ضرور وہ ان سب کاموں کو پسند بھی کرتا ہے ؟ کیا اللہ کی پسند اور ناپسند معلوم ہونے کا ذریعہ یہی دلیل ہے ؟ حالانکہ ہر انسان جس میں ذرا بھی عقل ہے وہ کہے گا کہ نہیں ‘ ہرگز نہیں بلکہ اللہ کی پسند اس کے احکام ہیں جو اس نے اپنے رسولوں پر ناز کئے اور خصوصا نبی اعظم وآخر ﷺ پر قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائے اور اللہ نے بتا دیا کہ اسے کون سے عقائد و اعمال اور اخلاق پسند ہیں ۔ اور کون سے پسند نہیں۔ ہاں ! قرآن کریم سے پہلے اتری ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس موجود ہو تو وہ اس کو پیش کریں اگر وہ کوئی ایسی بات پیش نہیں کرسکتے تو یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور سارا کام اپنی چرب زبانی اور دنیوی مال و دولت اور کروفر کی بدولت کر رہے ہیں اور اللہ نے اس کو اپنی مشیت کے مطابق ڈھیل دے رکھی ہے عنقریب ان کو ان ساری چیزوں سے خالی ہاتھ کردیا جائے گا اور حقیقت کو وہ دیکھ لیں گے تو شرمندہ ہو کر رہ جائیں گے اگرچہ اس وقت شرمندہ ہونا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا ۔ قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے بیان فرما دیا کہ اگر تم خود راہ ہدایت پر گامزن ہونا چاہو گے تو ان کی گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور تم کو تمہارے کئے کے متعلق پوچھا جائے گا ان کے کئے کے متعلق تم سے کوئی سوال نہیں ہوگا ارشاد فرمایا کہ : ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اپنی فکر کرو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہار کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو اللہ کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ۔ “ (المائدہ 5 : 105) واضح ہوگیا کہ بجائے اس کے آدمی ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا برائی ہے ‘ اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے اسے فکر اپنے خیالات کی اپنے اخلاق و اعمال کی ہونی چاہئے کہ ہو کہیں خراب نہ ہوں اگر خود اللہ کی کی اطاعت کر رہا ہو ‘ اللہ اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کر رہا ہے اور راست روی وراست بازی کے مقتضیات پورے کر رہا ہو جس میں لازما امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی شامل ہے تو یقینا کسی شخص کی گمراہی وکج روی اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہو سکتی ، مزید تفصیل کے لئے تفسیر ” عروۃ الوثقی “ جلد سوم سورة مائدہ کی آیت 104 ‘ سورة الاعراف آیت 28 ‘ جلد چہارم ‘ سورة یونس آیت 78 کی تفسیر دیکھیں ایک بات اچھی طرح یاد رکھو کہ قرآن کریم متضاد باتوں کا حکم نہیں دیتا اور نہ ہی متضاد باتین اس میں پائی جاتی ہیں اگر کہیں ایسی بات سمجھ میں آئے تو سمجھ لو کہ ہماری سمجھ میں کوئی نقص ہوا ہے یا جو ہم نے سمجھا ہے وہ صحیح نہیں ہوگا اس کو دو بار سمجھنے کی کوشش کرو اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی صاحب علم سے دریافت کرو۔ ہرانسان کے کان ‘ آنکھ اور دل کے متعلق سوال کیا جائے گا : 48۔ انسان کے سارے اعضاء کی الگ الگ گواہی ایک طے شدہ بات ہے جس کو کتاب وسنت میں بار بار بیان کیا گیا ہے اور اس میں کوئی استحالہ نہیں بات بالکل واضح ہے اور خصوصا آج کل اس کو سمجھنا بالکل آسان ہے کسی انسان کو ہاتھ سے کرتے اور کان سے کسی دوسرے کی سنتے تو دکھا دیا جانا عام ہے اور اسی طرح آنکھ سے دیکھنا بھی دکھایا جاسکتا ہے البتہ دل کی ابھی دکھائی نہیں جاسکتی اور زیر نظر آیت کے اس حصہ سے یہ ضرور وضاحت نکلتی ہے کہ دوسرے کے دل کے راز جاننے کے لئے بھی یقینا ایجادات ہوں گی اور قیامت کے بعد میدان حشر ونشر میں ان اعضاء وجوارح کی گواہی کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے اور یقینا یہی ہوگا ، ہر مسلمان کے لئے ایمان بالغیب کے طور پر ایسا ہونے پر یقین ضروری ہے اس کی کیفیت خواہ کچھ بھی ہو اور جب یہ کہا گیا کہ ہر ہر فرد اور ہر ہر شخص سے سوال ہوگا ‘ کان سے سننے کا آنکھ سے دیکھنے کا اور دل سے سمجھنے کا اور یقین کرنے کا کہ جائز اور صحیح موقعوں پر ان سے کتنا کام لیا اور ناجائز اور غلط موقعوں پر کتنا ! ۔۔۔۔۔۔۔ غور کرو کہ احساس ذمہ داری کی تعلیم ہر فرد وبشر کو اس سے بہتر اور کہاں ملے گی ؟ اور کیا ملے گی ؟ ایک بار پھر غور کرو کہ ہر ہر فرد وبشر کو مخاطب کرکے یہ کہا گیا ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں کہ دوسروں کے سنے ہوئے ‘ دوسروں کے دیکھے ہوئے اور دوسروں کے دلوں سے سمجھی ہوئی باتیں سننے ‘ دیکھنے اور سمجھنے کے عادی ہوچکے ہیں اور ہماری خیال کبھی بھی اس طرف نہیں گیا کہ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ اس پر آج عمل ہونے لگے تو شخصی ‘ قومی ‘ انفرادی ‘ اور اجتماعی دونوں قسم کے جھگڑے قضئے آج ہی دنیا میں مٹ جائیں گے ۔ حدیث میں ہے کہ ’ ‘ ’ مشکل بن حمید نے بیان کیا کہ جناب رسول مقبول ﷺ نے میری درخواست پر مجھ سے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ‘ کہہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کان کے شر سے ‘ آپنی آنکھ کے شر سے اور اپنی زبان کے شر سے اور اپنے دل کے شر سے اور اپنی منی کے شر سے میں نے یہ دعا یاد کرلی ۔ “ (رواہ الترمذی ‘ ابو داؤد ‘ النسائی والحاکم والبغوی اور حاکم نے اس کو صحیح کہا) اس حدیث کے ایک راوی سعید نے کہا کہ منی کے شر سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنا پانی ایسے مقام پر نہ ڈالوں جو جائز اور حلال نہیں ہے ۔ مذکورہ تین اعضاء کا ذکر اس جگہ خاص کر کیا گیا ہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہی آلات علم ہیں اور محسوسات کا علم آنکھ اور کان سے ہوتا ہے اور غیر محسوس چیزوں کا ادراک فقط دل سے ہوتا ہے ورنہ سورة یٓس میں ہے کہ ” آج ہم ان کے منہ بند کردیتے ہیں ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ۔ “ (یس 36 : 45) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف لے جانے کے لئے گھیر لئے جائیں گے ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائجے گا پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسموں کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں اور وہ اپنے جسموں کی کھالوں کسے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ وہ جواب دیں گی ہمیں اس خدا نے گویائی دی جس نے ہرچیز کو گویا کردیا ہے اس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو ، تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری اپنی آنکھیں اور تمہارے اپنے جسموں کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا تمہیں لے ڈوبا اور اس کی بدولت تم خسارے میں پڑے ۔ “ (حم السجدہ 41 : 19 تا 23) مختصر یہ کہ زیر نظر آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ ملت کا ہر ہر فرد اپنے تمام افعال کے لئے اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے اس کے دیکھنے کی قوتیں ‘ اس کے عقل وفہم کی صلاحیتیں ہر ایک کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا جو بلاشبہ ان کی استعداد کے مطابق ہوگا اور استفار یہ ہوگا کہ اس نے نہیں کیسے اور کہاں استعمال کیا ہے وہ قوم جس کو اس کے خالق نے واشگاف الفاظ میں احساس ذمہ داری کا سبق دیا وہی قوم آج اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ، کاش ! ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے سچے دل سے کوشش کریں تو جن تکالیف پر ہم شکوہ سنج رہتے ہیں اور جن مصائب میں گھرے ہوتے ہیں وہ خود بخود ختم ہوجائیں ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دوسروں کی بےراہ روی اور بےاعتدالی ہماری بےراہ روی اور بےاعتدالی کے لئے وجہ جواز نہیں بن سکتی ، اگر آپ اپنے موجودہ معاشرے سے مطمئن نہیں ہیں اگر آپ لوگ اصلاح واحوال کے تہ دل سے خواہاں ہیں تو اس میں وقت ضائع نہ کریں کہ دوسرے لوگ ٹھیک ہو لیں تو میں بھی ٹھیک ہوجاؤں گا ۔ اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے فرمائیے آپ کو دیکھ کر کئی بگڑے ہوئے اصلاح پذیر ہوجائیں گے ۔ زندگی کے کسی موڑ پر زیر نظر آیت کو اپنے آنکھوں کے سامنے رکھنے سے نہ بھولیں اور ہر معاملہ میں ہر وقت اپنا تجزیہ اور موازنہ اس کے ساتھ کرنا فراموش نہ کریں ۔
Top