Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 35
وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا
وَاَوْفُوا : اور پورا کرو الْكَيْلَ : پیمانہ اِذَا كِلْتُمْ : جب تم ماپ کر دو وَزِنُوْا : اور وزن کرو تم بِالْقِسْطَاسِ : ترازو کے ساتھ الْمُسْتَقِيْمِ : سیدھی ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور سب سے اچھا تَاْوِيْلًا : انجام کے اعتبار سے
اور جب کوئی چیز ماپو تو پیمانہ بھرپور رکھا کرو اور جب تولو تو درست ترازو سے تولو یہ بہتر طریقہ ہے اور اچھا انجام لانے والا ہے
ماپ اور تول کے پیمانے درست رکھنے اور پورا ماپنے اور تولنے کا حکم : 46۔ ماپ تول میں کمی بیشی کا اسلام میں سختی سے نوٹس لیا گیا اور کم تولنے یا کم ماپنے کو معاشرہ اسلام میں جرم قرار دیا گیا کم تولنے اور کم ماپنے کی بات تو عام طور پر سمجھ میں آجاتی ہے لیکن زیادہ تولنے اور زیادہ ماپنے کی صورت کیا ہے ؟ دینے والا جب دیتا ہے تو اس کی کوشش ہوسکتی ہے کہ کم ماپے اور کم تولے تو جب اس کے لینے کا وقت آئے گا تو وہ یہ بھی کوشش کرے گا کہ زیادہ ماپے اور زیادہ تولے پھر تول میں کمی یا بیشی کرنے والے اس طرح نہیں کرتے کہ دیکھنے والے ان کو کم ماپتے یا تولتے دیکھ لیتے ہیں ، نہیں یہ ان کا فن ہوتا ہے کہ تولتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ دینے والے کو جھکتا دے رہے ہیں لیکن وہی وزن کوئی دوسرا کرے تو وہ پورا بھی نہیں ہوتا اس طرح جب وہ لین گے تو دیکھنے والا دیکھے گا کہ پورا تول ہے لیکن جب اس وزن کو کوئی دوسرا کرے گا تو وہ زیادہ نکلے گا اور یہ بھی کہ ماپ تول کردینے کے باٹ اور آلات الگ الگ رکھتے ہیں لینے کے باٹ اور آلات بڑے اور دینے کے باٹ اور آلات چھوٹے رکھے جاتے ہیں ۔ چوری کی عام قسم تو وہی ہے جس کو سرقہ کہتے ہیں اور جس کی پاداش میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم شریعت نے دیا ہے اور جس کی برائی ہر مذہب اور اخلاقی مسلک نے یکساں کی ہے لیکن اسلام کی تکمیل تعلیم یہ ہے کہ اس نے ان نازک سے نازک ناجائز معاملوں کی بھی جن کو عام طور سے چوری نہیں سمجھا جاتا تشریح کی اور ان کی برائیوں کی تشہیر کی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی عملی تعلیم سے ان کی اہمیت کو ظاہر کردیا ہے اور پھر ان سے بچنے کی تاکیدفرمائی ہے اس سلسلہ میں سب سے اہم چیز ماپ تول میں کمی بیشی ہے جس سے ہر شخص کو ہر وقت کام پڑتا ہے اور جس میں خاص طور سے تاجر اور بیوپاری مبتلا رہتے ہیں اور جس سے سب سے زیادہ غریب عوام کو نقصان پہنچتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے فطری قوانین میں سے ایک بڑا قانون عدل ہے جس کا منشاء یہ ہے کہ جس کی جو چیز ہو وہ اس کو دے دی جائے یہی وہ میزان یا ترازو ہے جسے اللہ نے دنیا میں قائم کیا ہے اور جس سے تول تول کر ہر شخص کو اس کا حق دینا چاہئے جو شخص دوسرے کا جو حق ہے اس کو نہیں دیتا یا دینے میں کمی کرتا ہے وہ اس ترازو سے کام نہیں لیتا چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : (آیت) ” والسمآء رفعھا ووضع المیزان الا تطغوا فی المیزان واقیمو الوزن بالقسط ولا تخسروالمیزان “۔ (الرحمن 55 : 7 تا 9) اور آسمان کو اونچا کیا اور ترازو رکھی کہ مت زیادتی کرو ، ترازو میں اور انصاف کے ساتھ سیدھی ترازو تولو اور مت گھٹاؤ تول ۔ اس ترازو سے انسان کا ہر قول وفعل تلتا ہے اور اس کی برابری سے عالم کا نظام قائم رہتا ہے ۔ ناپ تول میں کمی بیشی کرنا حقیقت میں دوسرے کے حق پر ہاتھ ڈالنا ہے جو کوئی لینے میں تول کو بڑھاتا اور دینے میں گھٹاتا ہے وہ دوسرے کی چیز پر بےایمانی سے قبضہ کرتا ہے اور یہ بھی چوری ہی ہے اس لئے قرآن پاک میں اس سے بچنے کی خاص طور پر تاکیدیں آئی ہیں ‘ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم سوداگری کرتی تھی ، اسی لئے ان کی دعوت میں ناپ تول میں ایمان داری کی تاکید بار بار کی گئی ہے ، حضرت شعیب (علیہ السلام) سمجھاتے ہیں : (آیت) ” اوفوا الکیل ولا تکونوا من المخسرین وزنوا بالقسطاس المستقیم ولا تبخسوالناس اشیآء ھم ولا تعثوا فی الارض مفسدین “۔ (الشعراء : 26 : 181 تا 183) اور پورا بھردو ناپ اور نہ ہو نقصان دینے والے اور تولو سیدھی ترازو سے اور مت گھٹا کر دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت پھرو ملک میں فساد پھیلاتے ۔ یہی حضرت شعیب (علیہ السلام) مدین والوں کو سمجھا کر کہتے جو مشرق ومغرب کے تجارتی قافلوں کے راہ گزر میں آباد تھے : (آیت) ” ولا تنقصوا المکیال والمیزان انی اراکم بخیر وانی اخاف علیکم عذاب یوم محیط ویقوم اوفوالمکیال والمیزان بالقسط ولا تبخسوالناس اشیآء ھم ولا تعشوا فی الارض مفسدین “۔ (ھود 11 : 84 ، 85) اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو ‘ میں تم کو آسودگی میں دیکھتا ہوں اور گھیر لینے والے دن کی آفت کو تم پر ڈرتا ہوں اور میرے لوگو ! ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو اور لوگوں کی چیزیں ان کو گھٹا کر مت دو اور ملک میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ناپ اور تول کی بےایمانی سے خیر و برکت جاتی رہتی ہے یا ظاہری نظر سے دیکھئے تو یوں کہئے کہ بازار میں ایسے لوگوں کی جو ناپ تول میں کمی بیشی کرتے ہیں ساکھ جاتی رہتی ہے اور یہ بالآخر ان کی بیوپار کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے ‘ یہ چاہتے تو ہیں کہ اس بےایمانی سے کچھ اپنا سرمایہ اور نفع بڑھا لیں گے مگر ہوتا یہ ہے کہ ان کی یہ اخلاقی برائی انکی اقتصادی اور معاشی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی یہی نصیحت پھر سورة الاعراف میں دہرائی گئی ہے : (آیت) ” فاوفوا الکیل والمیزان ولا تبخسوالناس اشیآء ھم ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا ذالکم خیر لکم ان کنتم مؤمنین “۔ (الاعراف 7 : 85) تو ناپ اور تول پوری کرو اور مت گھٹا دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد خرابی مت ڈالو ‘ یہ تمہارے لئے بھلا ہے اگر تم کو یقین ہے ۔ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی یہ پرانی تعلیم پھر زندہ ہوئی ، اسلام میں جن چیزوں کو حرام ٹھہرایا گیا ہے ۔ اس کے بعد ہے : (آیت) ” واوفوالکیل والمیزان “۔ (الانعام : 6 : 152) ا سورة بنی اسرائیل میں جو اخلاقی نصیحتیں فرمائی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے : (آیت) ” واوفوالکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم ذلک خیر واحسن تاویلا “۔ (الاسراء 17 : 35) اور جب تم ناپو تو ناپ پورا بھر دو اور سیدھی ترازو سے تولو ‘ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے ۔ آیت کا آخری ٹکڑا بتاتا ہے کہ بےایمانی کی ناپ تول کو شروع میں کتنا ہی فائدہ پہنچائے مگر آخر کار وہ بیوپار کی تباہی کا باعث ہو کر رہتی ہے ۔ خوب غور کر کے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اس بداخلاقی کے پیدا کا اصلی سبب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں سے یہ یقین گم ہوجاتا ہے کہ ان کے اس چھپے ہوئے کرتوت کی دیکھنے والی آنکھیں ہر طرف کھلی ہیں اور ایک دن آئے گا جب ان کو خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے ہر کام کا حساب دینا ہوگا ۔ سورة مطففین میں جہاں اس بداخلاقی کی ممانعت کی گئی ہے اس بیماری کا یہ علاج بھی بتایا گیا ہے ، فرمایا : (آیت) ” ویل للمطففین الذین اذا اکتالوا علی الناس یستوفون واذا کالوھم اوزنوھم یخسرون الایظن اولئک انھم مبعوثون لیوم عظیم یوم یقوم الناس لرب العلمین “۔ (التطفیف 83 : 1 تا 6) خرابی ہے اس گھٹا کردینے والوں کی جو اوروں سے جب ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب انکو نباپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کردیں ‘ کیا ان کو یہ خیال نہیں کہ ایک بڑے بھاری دن کے لئے ان کو اٹھایا جائے گا جس دن سب لوگ دنیا کے مالک کے لئے کھڑے ہوں گے ۔ اس وقت جس دور سے ہم گزر رہے ہیں ماپ اور تول میں کمی بیشی کی بیماری عام ہے اور اس فن میں لوگوں نے انتی مہارت اختیار کرلی ہے کہ شاید ہی کسی زمانہ میں اس فن میں کبھی اتنی ترقی ہوئی ہو ۔ قرآن کریم نے شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا خصوصا ذکر فرمایا ہے لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں ایسے طریقے جو لوگوں نے آج ایجاد کئے ہیں ایسے اس وقت یقینا نہیں تھے اور خصوصا یہ کہ اس بیماری کو کچھ لوگوں نے اس وقت بھی برا کہا لیکن آج اس فن کو کوئی برا کہنے والا بھی نظر نہیں آتا ، مجمل طور پر کم تولنے اور ماپنے کی برائی کو اگرچہ برا کہا جاتا ہے لیکن اس فن کو کوئی برا کہنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ مثلا آج کل ہمارے میں ماپ کے آلات اور تول کے باٹ تبدیل ہوئے تقریبا تیس سال ہونے کو ہیں آج کسی بھی شہر یا دیہات میں چلے جائیے تو دکاندار میڑ کی بجائے گز سے دے گا ، لیتے وقت میٹر اور دیتے وقت گز لیتے وقت کلو اور دیتے وقت سیر عام چلتا ہے ، چھٹانک ‘ آدھ پاؤ ‘ پاؤ کے نام عام ہیں اور اس کے لئے دکانداروں نے عمدا یہ نام جاری رکھے ہیں اور وہ باٹ بھی پچاس گرام کو چھٹانک ، سوگرام کو آدھ پاؤ اور دو سو گرام کو پاؤ کہیں گے جب دین گے لیکن وہی تاجر جب لیں گے تو میٹر اور کلو گرام سے لیں گے ، ہمارے رواج میں ایک معروف طریقہ ہے کہ کھل ایک بوری بنولہ ایک بوری ، کھاد ایک بوری ، گھی ایک کنستر ، گھی ایک ڈبہ وغیرہ لیکن بوری ‘ کنستر ‘ ڈبہ کے نام معروف رہیں گے اور ان کے اوزان وقتا فوقتا کم ہوتے رہیں گے ، قیمت بڑھے گی کس کی بوری کی ‘ کنستر کی ‘ ڈبہ کی قیمت کے ساتھ ساتھ ان کے اوزان بھی کم کرتے رہیں گے ، چھوٹے تاجر جب بڑے تاجروں کے پاس جائیں گے تو بول دیں گے کہ ہزار بوری کھل بھرنی 39 کلو جب کہ معروف طریقہ پر اس کا وزن ایک من ہوگا یہ ایک مثال ہے اسی طرح ہزار بوری کے پیچھے پچیس پوری اس نے بچائی اور یہ اس کا ایک فن ہے منافع اس کے علاوہ ہے ، ایک تاجر نے ہزار تھان کپڑا خریدا وہ تھان 20 میڑ کا تھا گویا اس نے بیس ہزار میٹر کپڑا خریدا اور گز کے ساتھ دیتے وقت اس نے دس میٹر کے 11 گیارہ گز بنائے گویا بیس ہزار میٹر میں سے دو ہزار گز کپڑا اس نے بچایا یہ اس کا فن ہے اور منافع اس کے علاوہ ہے ، یہ ایک مثال ہے جو ہزاروں اشیاء میں چسپاں ہوگی لیکن اس کو کوئی شخص کم ماپ تول میں نہیں لائے گا اور نہ ہی یہ بات کسی کے دھیان میں جائے گی ، اسلامی قانون کی یہ گیارہویں شق ہے اور اس میں اس قدر اصلاح کی ضرورت ہے کہ شاید ہی کسی دوسری شق میں اتنی اہم ضرورت ہے اور اس میں اتنی وسعت ہے کہ شاید ہی کوئی ہوگا جو اس کی زد میں نہ آتا ہو ۔
Top