Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرا دیا ہے جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کے مطالبہ کا) اختیار دے دیا ہے ، پس چاہیے کہ خونریزی میں زیادتی نہ کرے (حق سے زیادہ بدلا نہ لے) اس کی مدد کی جائے گی
ناحق قتل نہ کرو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرا دیا ہے : 43۔ منشور اسلامی کی یہ آٹھویں شق بیان کی جا رہی ہے جو ناحق قتل کی حرمت کے بیان میں ہے جس کا جرم عظیم ہونا دنیا کی ساری ہی جماعتوں ‘ مذہبوں اور فرقوں میں مسلم ہے حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساری دنیا کی تباہی اللہ کے نزدیک اس سے ہلکی ہے کہ کسی مومن کو ناحق قتل کیا جائے اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے لوگ کسی مومن کے قتل ناحق میں شریک ہوجائیں تو ان سب کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کر دے گا ۔ (ابن ماجہ بسند حسن والبیھقی) قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جس نے ایک مسلمان کو غلطی سے قتل کردیا ہو تو چاہئے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو اس کا خون بہا دے اگر مقتول کے وارث خون بہا معاف کردیں تو کرسکتے ہیں اور اگر مقتول اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور مومن بھی ہے تو چاہے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے اور اگر مقتول ان لوگوں سے ہو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ صلح ہے تو چاہئے کہ قاتل مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی دے اور ایک مسلمان غلام بھی آزاد کرے اور جو کوئی غلام نہ پائے تو اسے چاہئے کہ لگا تار دو مہینے روزے رکھے اس لئے کہ اللہ کی طرف سے یہ توبہ ہے (قاتل کی) اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ‘ حکمت رکھنے والا ہے اور جو مسلمان کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی پھٹکار پڑی اور اس کے لئے اللہ نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ “ (النساء : 4 : 92 ‘ 93) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے ‘ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ‘ قیامت کے روز اس کو مزید عذاب دیا جائے گا اور اس میں وہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا ۔ مگر ہاں ! وہ جو توبہ کرچکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو ‘ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا ۔ وہ بہت ہی بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے ۔ “ (الفرقان 25 : 68 تا 70) حدیث میں ہے کہ : ” عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بڑے گناہوں میں یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا ‘ ماں باپ کی نافرمانی کرنا ‘ کسی شخص کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا “۔ (بخاری) ایک حدیث میں ہے کہ : ” ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سات مہلک گناہوں سے بچو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کیا ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا ‘ کسی پر جادو کرنا ‘ ناحق کسی کو قتل کرنا جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرایا ہو ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھا جانا ‘ جہاد میں پیٹھ پھیر کر میدان جنگ سے بھاگ جانا اور مسلمان پارسا عورتوں پر تہمت لگانا ۔ “ (بخاری ومسلم) ایک حدیث میں ہے کہ : ” ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ایماندار ہمیشہ اپنے دین کی طرف سے آسانی میں رہے گا تاوقتیکہ ناجائز اور حرام خونریزی کا مرتکب نہ ہو۔ “ (بخاری) ایک حدیث میں ہے کہ : ” عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” قیامت کے روز سب سے پہلے لوگوں میں خون کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ “ (بخاری ومسلم) مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی “ جلد دوم سورة النساء 92 ‘ 93 کی تفسیر ملاحظہ کریں اور سورة مائدہ کی آیت 45 اور سورة البقرہ کی آیت 178 ، 179 جلد اول ملاحظہ کریں ۔ ناحق قتل کئے جانے والے کے ورثاء کو قتل کے بدلے قتل یا خون بہا کا حق ہے : 44۔ ناحق قتل کے بدلے میں قاتل کو قتل کرنے کا حکم سورة البقرہ کی آیت 178 میں بیان کیا گیا ہے مقتول کے ورثاء کو حق ہے کہ وہ حکومت سے اپنے مقتول کے قصاص کا مطالبہ کریں اور حکومت کا حق ہے کہ مقتول کے ورثا کے لئے قاتل کو پکڑ لے اور اس طریقہ سے اس کو قتل کر دے جس طریقہ سے اس نے ایک کو ناحق قتل کیا تھا ہاں اگر مقتول کے ورثا خون بہا پر راضی ہوجائیں تو خون بہا لے سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو قاتل کو معاف بھی کرسکتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ قتل میں اسراف نہ کیا جائے تو اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں اور سب کی سب ممنوع ہیں مثلا جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ اس خاندان یا پارٹی کے کسی آدمی کو قتل کردینا یا زیادہ کو قتل کرنا ، قاتل کو عذاب دے دے کر مارنا یا مار دینے کے بعد اس کی لاش پر غصہ نکالنا یا خون بہا کے بعد پھر قاتل کو قتل کردینا یا معاف کردینے کے بعد پھر بدلہ لینا وغیرہ ۔ مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ 2 : 178 ، 179۔ جلد دوم سورة النساء 4 : 92 ‘ 93 آیات ملاحظہ کریں ۔
Top