Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور جس طرح انسان اپنے لیے بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے اسی طرح (بعض اوقات) برائی بھی مانگنے لگتا ہے اور انسان بڑا ہی جلد باز ہے
انسانی کمزوری کہ وہ بعض اوقات خیر وشر میں امتیاز نہیں کرسکتا : (الانسان) اس جگہ خاص قسم کا انسان ہے جس کو اسلام کی زبان میں ’ کافر “ کہا جاتا ہے ، زیر نظر آیت میں ایسے انسان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ وہ خیر وشر میں امتیاز نہیں کرتا اور بسا اوقات شر کا اسی طرح طالب ہوجاتا ہے جس طرح اس کو خیر کا خواستگار ہونا چاہئے ، یہ حالت اسے کیوں پیش آتی ہے ؟ اس لئے کہ اس کی طیبعت میں جلدبازی ہے یعنی ایسی خواہشیں ہیں جو فورا پورا ہونا چاہتی ہیں اور جب وہ اس پر چھا جاتی ہیں تو ایک لمحہ کے لئے بھی وہ صبر وانتظار نہیں کرسکتیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اچھائی کی طلب گاری کرتے ہوئے برائیوں کا طلبگار ہوجاتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کی طلبگاری اسے برائیوں کی طرف لے جا رہی ہے ۔ معلوم ہوا کہ اسے ایسی راہنمائی کی ضرورت ہے جو خیر وشر کا امیتاز سکھلائے اور خواہشوں کی ٹھوکروں سے اس کی حفاظت کرے ، یہی راہنمائی ہدایت وحی کی راہنمائی ہے اور اسی طرح انسان کسی ایسی راہنمائی کا بالطبع محتاج ہے ۔ قرآن کریم نے اس کی بہت وضاحت فرمائی ہے کہ اگر تدریج وامہال کی یہ فرصتیں اور بخششیں نہ ہوتیں تو دنیا میں ایک وجود بھی فرصت حیات سے فائدہ نہ اٹھا سکتا ، ہر غلطی ‘ ہر کمزوری ‘ ہر نقصان ‘ ہر فساد اچانک ‘ بیک دفعہ بربادی وہلاکت کا باعث ہوجاتا ۔ چناچہ ارشاد الہی اس طرح ہے کہ : ” اور انسان جو کچھ اپنے اعمال سے کمائی کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ اس پر فورا مواخذہ کرتا تو یقین کرو زمین کی سطح پر ایک جاندار بھی باقی نہ رہتا لیکن اس نے ایک مقررہ وقت تک فرصت حیات دے رکھی ہے البتہ جب وہ مقرر وقت آجائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال سے بیخبر نہیں ہے ‘ اس کی آنکھیں ہر وقت اور ہر حال میں سب کچھ دیکھ رہی ہیں ۔ “ (فاطر 35 : 45) قدرت نے یہ ڈھیل اچھائی اور برائی دونوں کے لئے رکھی ہے ، اچھائی کے لئے اس لئے تاکہ زیادہ نشو ونما پائے برائی کے لئے اس لئے تاکہ متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح وتلافی کا سامان کرلے ۔ چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : ” ان لوگوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی یعنی اچھوں کو بھی اور بروں کو بھی سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش میں سے حصہ مل رہا ہے اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی پر بند نہیں ہے ۔ “ (الکہف 17 : 21) 14۔ انسان اگر ذرا غور وفکر سے کام لے تو وہ خود بخود سمجھ سکتا ہے کہ یہی حال کائنات کے تمام تغیرات وانفعالات کا ہے ، کوئی تغیر ایسا نہیں جو اپنا تدریجی دور نہ رکھتا ہو ، ہرچیز بتدریج بنتی ہے اور اسی طرح بتدریج بگڑتی ہے ، بناؤ ہو یا بگاڑ ممکن نہیں کہ ایک خاص مدت گزرے بغیر کوئی حالت بھی اپنی کامل صورت میں ظاہر سکے ، یہ مدت جو ہر حالت کے ظہور کے لئے اس کی (اجل) یعنی مقررہ وقت ہے مختلف گوشوں اور مختلف حالتوں میں مختلف مقدار رکھتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کی مقدار اتنی طویل ہوتی ہے کہ ہم اپنے نظام اوقات سے اس کا حساب بھی نہیں لگا سکتے اس لئے قرآن کریم نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ جس مدت کو تم اپنے حساب میں ایک دن سمجھتے ہو اگر اس کو ایک ہزار برس یا پچاس ہزار برس تصویر کرلو تو ایسے دنوں سے جو مہینے اور دن ہوں گے انکی مقدار کتنی ہوگی ؟ زیر نظر آیت کفار مکہ کی اس احمقانہ باتوں کا بھی جواب ہے جو وہ بار بار نبی کریم ﷺ سے کہتے تھے کہ بس لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو ؟ ان کو گویا کہا جا رہا ہے کہ بیوقوفو ! خیر مانگنے کی بجائے عذاب مانگتے ہو ؟ تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے ؟ محاورہ ہے ” ’ ایک پنتھ دو کاج “ کفار کو مخاطب فرما کر جو بات کہی گئی ہے اس میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لئے بھی موجود ہے جو کفار کے ظلم وستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آکر کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے حالانکہ ابھی انہی کفار میں کتنے لوگ تھے جن کو ایمان نصیب ہونا تھا اور جنہوں نے اسلام میں بہت کارہائے نمامیاں سرانجام دیتے تھے ۔
Top