Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 109
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩  ۞
وَيَخِرُّوْنَ : اور وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل يَبْكُوْنَ : روتے ہوئے وَيَزِيْدُهُمْ : اور ان میں زیادہ کرتا ہے خُشُوْعًا : عاجزی
وہ ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں ان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اس کلام حق کی سماعت ان کی عاجزی اور زیادہ کردیتی ہے
وہ ٹھوڑیوں کے بل گریہ وزاری کرتے ہوئے گر پڑتے ہیں : 127۔ اہل اللہ کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ وہ جب قرآن کریم کو سنتے ہیں تو ان کے قلوب وارواح پر برکات قرآنی کا اس طرح نزول ہوتا ہے اور ان پر رحمت کے انوار برستے ہیں تو ان پر وجد وکیف کا عالم طاری ہوجاتا ہے اور دل میں عجیب طرح کی حالت پیدا ہوجاتی ہے اور بےساختہ ان کا سربارگاہ رب العزت میں جھک جاتا ہے اور آنکھوں سے سیل رواں جاری ہوجاتا ہے اور جوں جوں قرآن کو پڑھتے اور سنتے ہیں تو ان کی اس کیفیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ، قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی اہل کتاب کے نیک کردار اور نیک سیرت لوگوں کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے جیسا کہ سورة آل عمران کی آیت 113 ‘ 115 ‘ 199 میں اور سورة المائدہ کی آیت 82 تا 85 میں ۔ اس کے لئے عروۃ الوثقی جلد دوم اور سوم کی مذکورہ سورتوں کی بیان کردہ آیتوں کو ملاحظہ فرمائیں ۔ آیات قرآنی کو پڑھ اور سمجھ کر اگر کسی پر گریہ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اس کی خاص رحمت ہے ، ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کے خوف اور ڈر سے رویا وہ دوزخ میں نہیں ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھن میں لوٹ جائے اور ایک حدیث میں ہے کہ ” اللہ کی راہ میں پڑنے والا غبار اور جہنم کے دھواں مسلمانوں کے نتھنوں میں جمع نہیں ہوگا۔ “ اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ ” دو قسم کی آنکھوں کو دوزخ کی آگ کا پالینا حرام کردیا گیا ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے روئی ‘ دوسری وہ آنکھ جو رات بھر بیدار رہ کر اسلام اور اہل اسلام کی کفار سے حفاظت کرتی رہی ۔ مقصود ان سب روایات کا یہی ہے کہ ایک مومن کا بارگاہ ازیزدی میں آہ ونالہ نہایت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس جگہ ٹھوڑیوں کے بل گرنے کا دوبارہ ذکر کرکے یہ بات اشارہ کردی کہ بارگاہ رب العزت میں گریہ وزاری اور وہ بھی سجدہ کی حالت میں ایک نہایت ہی اچھا عمل ہے اگر اس میں بناوٹ اور تصنع نہ ہو ۔
Top