Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور ہم نے قرآن کریم کو الگ الگ ٹکڑوں میں منقسم کردیا تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو سناتے رہو اور اسے بیک دفعہ نہیں اتار دیا بلکہ بتدریج اتارا
قرآن کریم کو نجما نجما نازل کیا گیا تاکہ آپ بھی ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں : 124۔ قرآن کریم کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے متفرق طور پر اتارا ہے اور اس طرح پورا قرآن کریم 23 سال کے عرصہ میں نازل ہوا اس لئے کہ آپ بھی اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور یہ بھی کہ ہم نے قرآن کریم میں حق و باطل کو بالکل جدا اور الگ الگ کردیا جس سے حق و باطل میں فرق واضح اور عیاں ہوتا ہے اور اس میں حکمت یہ رکھی گئی ہے کہ لوگوں کو سمجھنے اور یاد کرنے میں آسانی ہو۔ بات واضح اور صاف ہوگئی کہ قرآن کریم کو تیز تیز روا دواں نہ پڑھو بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ہر ایک آیت پر ٹھہرو تاکہ ذہن پوری طرح کلام الہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو ‘ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکر سے لبریز ہوجائے کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو ۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ غرض یہ قرات محض قرآن کریم کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لئے نہیں بلکہ غور وفکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہئے نبی اعظم وآخر ﷺ کی قرات کا طریقہ حضرت انس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا آپ ﷺ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ ﷺ اللہ ‘ رحمن اور رحیم کو مد کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ، (بخاری ومسلم) سیدہ ام سلمہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صیا اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ کر کے پڑھا کرتے تھے اور ہر آیت پر ٹھہر جاتے تھے مثلا (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین “ پڑھ کر رک جاتے پھر ” الرحمن الرحیم “ پڑ ٹھہرتے اور اس کے بعد رک کر ” ملک یوم الدین “ کہتے ۔ (مسند احمد ‘ ابو داؤد ‘ ترمذی) ایک دوسری روایت میں سیدہ ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے ، (ترمذی ‘ نسائی) حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ ﷺ کی قرات کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے اور جہاں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے ۔ (مسلم ونسائی) ابوذر ؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب نبی اعظم وآخر ﷺ اس مقام پر پہنچے کہ (آیت) ” ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم “۔ (المائدہ 5 : 118) اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب آنے والا حکمت والا ہے ۔ “ تو اس آیت کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی ، (مسند احمد بخاری) اس بات کو قبل ازیں ہم کتنے ہی مقامات پر تحریر کرتے آئے ہیں اور یہاں بھی بیان کردی ہے اس لئے کہ قارئین کرام اپنے قاریوں ‘ مولویوں اور حافظوں سے قرآن کریم کی تلاوت سنتے ہی رہتے ہیں کیا ان شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری ہوتی نظر آتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کی ہدایات دوبارہ ‘ تلاوت قرآن کریم کیا ہیں اور ہم کر کیا رہیں ؟ صلوۃ التراویح میں ‘ رات کی نمازوں میں ‘ صبح کی نمازیں اور جمعہ کی نمازیں تلاوت آج بھی ہوتی ہے کی نبی اعظم وآخر ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق یا اپنے رواج کے مطابق ؟ پھر اگر رواج واقعتا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہے تو ہمارا فرض کیا بنتا ہے اور ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟ کیا ہم نے کبھی اس کے متعلق غور وفکر اور تدبر کیا بھی ہے ؟ اگر کسی عمل میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ کیا کسی دوسری حدیث میں ان احادیث کے خلاف بھی کچھ بیان موجود ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے ؟ اگر ہے تو وہ حدیث کہاں ہے اور کس کتاب میں ہے ؟ یہ حدر اور تدویر پڑھنے کی تلقین کہاں سے آئی ہے ؟ اگر آج ” سبح اسم ربک الاعلی “ کے جواب میں ” سبحان رب الاعلی “ نکل جائے تو اس کے لئے کیا فتوی ہے ؟ پھر صرف یہی نہیں بلکہ جن آیات کریمات کے اختتام پر آیت کے ۔۔۔۔۔ پر ” لا “ ڈال دیا گیا ہے وہاں اگر کوئی رک جائے تو اس کو کیا کہا جاتا ہے ؟ اگر کوئی ایک ہی سورت کو یا آیت کو دوبارہ پڑھ دے تو کیا قیامت آجاتی ہے ؟ کیا ہم نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت ونبوت کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی رسالت ونبوت کو جاری وساری کیا ہوا ہے ؟ جس کی ہدایات کے مطابق عمل پیرا ہیں کیا رسول کی پیروی اسی چیز کا نام ہے ؟ آج ان سارے سوالوں کا آخر جواب کیا ہے ؟ یہی کہ جب لوگ ایسا کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ طریقہ وہی صحیح ہے جو سب کر رہے ہیں کتنے بڑے علامہ حضرات ہیں اور نامور قراء حضرات اسی طرح پڑھتے ہیں کی ان میں سے کسی کو بھی یہ بات معلوم نہیں ہے جو یہ کہا جا رہا ہے دراصل ایسا کہنے والوں کی اپنی مت ماری گئی ہے ۔ ان کو تو بس مخالفت کرنا ہے گویا ان کا باوا آدم ہی نرالا ہے ، ساون کے اندھے کو بس ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے یہ اور اس طرح کی کتنی باتیں ہیں جو بنائی جائیں گی لیکن حقیقت کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔
Top