Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 105
وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ
وَبِالْحَقِّ : اور حق کے ساتھ اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے نازل کیا وَبِالْحَقِّ : اور سچائی کے ساتھ نَزَلَ : نازل ہوا وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا اِلَّا : مگر مُبَشِّرًا : خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اور ہم نے قرآن کریم کو سچائی کے ساتھ اتارا اور وہ سچائی ہی کے ساتھ اترا اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا
قرآن کریم کا نزول حق کے ساتھ ہوا اور حق ہی اس میں بیان کیا گیا : 123۔ نبی ورسول کی تعلیم کی حفاظت اس کے صحیفہ الہی کی حفاظت پر موقوف ہے ، قرآن کریم سے پہلے کوئی کتاب الہی دانستہ اور نادانستہ لفظی تحریفات اور تصرفات سے پوری طرح ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہی لاکھوں پیغمبروں میں سے چند کے سوا کسی کا کوئی صحیفہ آج دنیا میں باقی نہیں اور جو باقی ہے وہ فنا ہو کر نئے نئے قالب میں بدلتا رہا ہے ، تورات جل جل کر خاک ہوئی پھر ان سوختہ اوراق اور یادداشتوں سے تحریر کی گئی اور ترجموں کی تحریفات سے اپنی اصل کھو بیٹھی ، انجیل میں تحریف وجعل تو اس وقت شروع ہوچکا تھا پھر مترجموں کی کتروبیونیت نے حقیقت بالکل مشتبہ کردی زردشت کا صحیفہ سکندر کی نذر ہوا اب صرف گا تھا کا ایک حصہ بچا کھچا رہ گیا ، ان کتابوں کا یہ حال اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دائمی اور آخری کتابیں بنا کر نہیں بھیجا تھا لہذا ان کتابوں کی دائمی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا لیکن قرآن کریم کی نسبت یہ وعدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لئے باقی اور محفوظ رہے گا ، اس کی بقا اور حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی اور فرمایا اور کس وثوق سے فرمایا ۔ (آیت) ” انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون “۔ (الحجر 15 : 9) ہم نے اس نصیحت (کی کتاب) کو اتارا اور بلاشبہ ہم ہیں اس کی حفاظت کرنے والے ۔ یہ وعدہ الہی ایک اور آیت میں ان الفاظ میں دہرایا گیا ہے : (آیت) ” ان علینا جمعہ وقرانہ فاذا قرانہ فاتبع قرانہ ثم ان علینا بیانہ “۔ (القیامہ 75 : 17 تا 19) بیشک ہمارے ذمہ ہے اس (قرآن) کو سمیٹ کر رکھنا اور اس کا پڑھنا پھر جب ہم پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کے ساتھ رہ ‘ پھر بلاشبہ ہم پر ہے اس کو کھول کر بتانا ۔ اس آیت میں قرآن کی قرات یعنی لفظ وعبارت اور بیان یعنی معنی دونوں کی ذمہ داری خدائے تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لی ہے تیسری آیت میں اس کی تصریح ہے کہ اس حق میں باطل کی آمیزش کبھی راہ نہ پا سکے گی ، فرمایا : (آیت) ” وانہ لکتب عزیز لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمیدہ “۔ (حم السجدہ 41 : 41 ، 42) اور بیشک یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو غالب ہے ‘ باطل نہ اس کے سامنے سے اور نہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آئے گا ‘ ایک حکمت والے اور خوبیوں والے کی طرف سے اترا۔ اس کتاب کو غالب فرمایا گیا یعنی جو اپنے ہر حریف کو اپنے دلائل کے زور سے پست کرے گی ‘ باطل نہ اس کے سامنے سے اس میں مل سکتا ہے اور نہ پیچھے سے یعنی نہ لفظ وعبارت کی طرف سے اور نہ حقیقت ومعنی کی جہت سے کیونکہ وہ ایک حکمت والے کی طرف سے اتری ہے ‘ اس لئے وہ اپنی حکمت و دانائی کی تعلیم سے غالب رہے گی اور چونکہ وہ ایک سراسر خوبیوں والے کی جانب سے عطا ہوئی ہے اس لئے ہر باطل کے عیب سے پاک رہے گی ۔ یہ قرآن کا اپنا دعوی ہے اور ساڑھے چودھے سو برس کی تاریخ اس کی صداقت پر گواہ ہے ۔ ختم نبوت : مقدمات بالاکا نتیجہ گو خود یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی نبی کی قرآن کے بعد کسی صحیفہ کی اور اسلام کے بعد کسی دین کی ضرورت نہ ہو لیکن وحی محمدی نے ہر شک کے ازالہ کے لئے آگے بڑھ کر یہ تصریح بھی کردی کہ اب نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اب آپ کے بعد کسی نبی کی حاجت نہیں کہ دین کامل اور صحیفہ الہی محفوظ ہوچکا اور ہدایت ربانی کے دروازہ کے بند ہونے کا خطرہ دور ہوگیا ‘ چناچہ خود تاریخ انسانی گواہ ہے کہ بعثت محمدی کے بعد دنیا کی حالت بدل گئی ‘ متفرق قومیں پیوستہ ہوگئیں ‘ زمین کے کونے ایک دوسرے سے مل گئے اور توحید کامل کا غلغلہ عرش سے فرش تک بلند ہوگیا اور خدا کے تمام رسولوں کو سچا اور صادق ماننے کا ولولہ آہستہ آہستہ ترقی پانے لگا یہاں تک کہ ان قوموں نے بھی جو مسلمان نہیں ہوئیں ان دونوں صداقتوں کو اصولا تسلیم کرلیا ۔ وحدت ادیان اور دین اسلام : تفصیل بالا کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ وحدت ادیان کا منشا کیا ہے یعنی یہ کہ اصل میں ایک ہی دین ہے جو تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا مذہب رہا لیکن وہ بعد کو ان کے پیروں کے صحائف میں تحریف و تصرف کے سبب بگڑتا رہا ‘ اسی دین ازلی کو لے کر محمد رسول اللہ ﷺ آئے اور اسی کا نام اسلام ہے جو اپنے صحیفہ کی بقاء و حفاظت اور دین کی تکمیل اور نبوت کے اتمام کے سبب سے ہمیشہ قائم و باقی رہے گا ، اگر تمام مذاہب سابقہ اپنے اپنے اس اصل دین پر آجائیں ‘ جس کی تعلیم ان کے پیغمبروں نے دی تھی تو وہ وہی دین ازلی ہوگا جس کا نام اسلام ہے اور نوحی ، ابراہیمی ، عیسوی ، اور محمدی دینوں میں سوائے اجمال کے کوئی فرق نہ رہے گا ‘ اسی لئے فرمایا گیا : (آیت) ” یا ایھا الذین اوتوا ال کتاب امنوا بما نزلنا مصدقالما معکم من قبل ان نطمس وجوھا فنردھا علی ادبارھا اونعلعنھم کما لعنا اصحب السبت “۔ (النساء : 4 : 47) اے وہ لوگو جن کو پہلے کتاب دی گئی اس سے پہلے کہ ہم چہروں کا بگاڑ دیں اور ان کو پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا سبت کے گنہگاروں پر جس طرح لعنت کی تھی ‘ ہم ان پر لعنت کریں اس وحی پر ایمان لاؤ جو ہم نے اب اتاری (قرآن) جو ان تعلیمات کی جو تمہارے پاس ہیں تصدیق کرتی ہے ۔ مشرکین عرب سے زیادہ اہل کتاب کو اس حقیقت کے سمجھنے کا استحقاق تھا ‘ اس لئے انہی کو سب سے پہلے اس کا منکر نہ ہو چاہئے ۔ (آیت) ” وامنوا بما انزلت مصدقالما معکم ولا تکونوا اول کافر بہ “۔ (البقرہ : 2 : 41) اور جو کتاب ہم نے اب اتاری جو تمہارے پاس والی کتاب کو سچا بتاتی ہے اس پر ایمان لاؤ اور تم ہی پہلے کافر نہ بنو۔ لیکن ان کی حالت یہ ہوئی کہ : (آیت) ” واذاقیل لھم امنوا بما انزل اللہ قالوا نؤمن بما انزل علینا ویکفرون بما ورآء ہ وھو الحق مصدقالما معھم “۔ (البقرہ : 2 : 91) اور جب ان سے کہا گیا کہ خدا نے جو بھی اتارا اس پر ایمان لاؤ تو جواب دیا کہ جو ہم پر اترا ہم اس کو مانتے ہیں اور وہ اس کے سوا کا انکار کرتے ہیں حالانکہ یہی (قرآن) حق ہے اور جو ان کے پاس ہے اس کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس کے برخلاف محمد رسول اللہ ﷺ نے جس دن کو پیش کیا اس کی بنیاد تمام اگلی نبوتوں اور کتابوں کی صداقت کے تسلیم کرنے پر رکھی گئی ۔ یہی سبب ہے کہ اسلام نے مسلمان ہونے کے لئے صرف یہی ضروری نہیں قرار دیا کہ وہ تنہا محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان لائے بلکہ یہ بھی قرار دیا کہ وہ تمام اگلی نبوتوں اور صحیفوں پر بھی ایمان لائے چناچہ خود قرآن کی شہادت ہے کہ آنحضرت ﷺ کو صرف اسی کی تکلیف نہ تھی کہ آپ ﷺ کے ہم وطن آپ ﷺ کے صحیفہ کو نہیں مانتے تھے بلکہ اس کی بھی تھی کہ وہ اگلے صحیفون کو بھی نہیں مانتے تھے ، سورة سباء میں ہے : (آیت) ” وقال الذین کفروا لن نؤمن بھذا القران ولا بالذی بین یدیہ “۔ (سباء 34 : 31) اور منکروں نے کہا کہ ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے اور نہ اس سے اگلی کتاب پر (یعنی تورات پر) اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے تصریح کے ساتھ فرمایا کہ جو میری عبدیت اور رسالت کے ساتھ عیسیٰ بن مریم کو بھی اللہ کا بندہ اور اس کا رسول اور کلمہ اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی روح تسلیم کرے گا ‘ وہ جنت میں جائے گا (بخاری کتاب الانبیاء ذکر عیسیٰ ) الغرض وہ ازلی ‘ ابدی دین صرف ایک ہی تھا اور تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) اسی ایک پیغام کو لے دنیا میں آئے تھے ‘ یہی وحدت دین کی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن نے اپنے الفاظ میں ادا کیا ہے : (آیت) ” یایھا الرسل کلو من الطیبت واعملوا صالحا انی بما تعملون علیم وانہ ھذہ امتکم امۃ واھدۃ وانا ربکم فاتقون فتقطعوا امرھم بینھم زبرا کل حزب بما لدیھم فرحون “۔ (المؤمنوں 23 : 51 تا 53) اے پیغمبر ! ستھری چیزیں کھاؤ اور بھلا کام کرو میں تمہارے کاموں سے آگاہ ہوں اور بیشک تم سب کی امت ایک امت ہے اور میں تم سب کا (ایک) پروردگار ہوں تو مجھ سے ڈرتے رہو ‘ تو ان کے پیروں نے اپنے مذہب کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ‘ ہر فرقہ اپنے پاس کے خیال پر نازاں ہے ۔ اس حقیقت کی مزید تشریح آنحضرت ﷺ نے اپنے ان الفاظ میں فرمائی ہے : (الانبیا اخوۃ لعلات امھاتھم شی ودینھم واحد) (بخاری کتاب الانبیاء ‘ ذکر عیسیٰ علیہ السلام) تمام انبیاء ایسے بھائی ہیں جن کا باپ ایک ہے اور مائیں مختلف ہیں اور انکا دین ایک ہے ۔
Top