Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 103
فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًاۙ
فَاَرَادَ : پس اس نے ارادہ کیا اَنْ : کہ يَّسْتَفِزَّهُمْ : انہیں نکال دے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین فَاَغْرَقْنٰهُ : تو ہم نے اسے غرق کردیا وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ جَمِيْعًا : سب
فرعون نے چاہا تھا کہ بنی اسرائیل پر ملک میں رہنا دشوار کر دے لیکن ہم نے اسے اور ان سب کو جو اس کے ساتھ تھے سمندر میں غرق کر دیا
فرعون نے موسیٰ اور اسکے ماننے والوں سے ملک کو پاک کردینا چاہا تو ہم نے اسکو غرق کردیا : 121۔ جب فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اور دوسرے بنی اسرائیل کو ملک سے نکل جانے کی اجازت بھی نہ دی اور ان کو اپنے ملک کے اندر ہی رکھ کر مجبور محض بنا دینا چاہا تو ہمارا قانون غیرت جاگ پڑا جس کا نتجہ یہ ہوا کہ ہم نے اس کے اور اس کے ماننے والوں کے غرق کردینے کا پختہ ارادہ کرلیا پھر کوئی نہ ہوا جو ہمارے ارادہ کو روک سکتا ، اسی طرح ہم نے بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے فرعون کو مع اس کے لاؤلشکر کے آن کی آن میں غرق کرکے رکھ دیا اور ہمارے قانون کی گرفت جب آتی ہے تو وہ بہت ہی سخت آتی ہے اس طرح فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر ذکر کرکے مکہ والوں کو یہ بات سمجھا دی گئی کہ اگر تم نے بھی وہی روشن اختیار کی جو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اختیار کی تھی تو یاد رکھو تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو فرعون اور اس کے لوگوں کا ہوا اور پھر جو بات اس جگہ بطور پیش کی گئی اس بات نے مکہ والوں کو آگھیرا اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی ہجرت کا وقت آیا تو آپ ﷺ کو ہجرت کا حکم دے کر مدینہ طیبہ میں محفوظ جگہ پہنچا دیا اور آپ ﷺ کے نکلنے کی دیر تھی کہ ہم نے مکہ والوں کو قحط اور میدان جنگ میں نہتوں سے ہتھوں والوں کو مروا کر ثابت کردیا کہ مکہ والے عذاب الہی کی زد میں ہیں ۔ مکہ والوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کی مخالفت کے باوجود اس پیش گوئی کو مان لیا اور آپ ﷺ سے قحط اٹھائے جانے کی عرض رب العزت کی بارگاہ میں پہنچانے کی درخواست کردی اور آپ ﷺ نے ان کی یہ درخواست رب ذوالجلال والا کرام کی خدمت میں پیش کردی اور مکہ والوں کی مدد واعانت بھی فرمائی ۔
Top