Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
کہہ دے اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے اختیار میں ہوتے تو تم ضرور خرچ ہوجانے کے ڈر سے انہیں روکے رکھتے ، انسان بڑا ہی تنگ دل ہے
حیات اخروی پر رحمت الہی کی وسعت سے استدلال کیا ہے اس کی حقیقت ؟ : 118۔ انسان کی زندگی کیا ہے ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ کی رحمت کا فیضان ہے ، یہ رحمت ہے جو چاہتی تھی کہ وجود ہو ‘ بناؤ ہو ‘ حسن ہو ‘ کمال ہو ‘ اور اس لئے سب کچھ ظہور میں آگیا ۔ اچھا اگر رحمت الہی کا یہ مقتضی ہوا کہ انسان کو زندگی ملی تو کیا اس رحمت کا مقتضی یہ نہ ہونا چاہئے تھا کہ زندگی صرف اتنی ہی نہ ہو اس کے بعد بھی ہو اور رحمت کا فیضان برابر جاری وساری رہے ؟ اس کی رحمت ابدی ہے پھر کیا اس کا فیضان رحمت دائمی نہ ہوگا ؟ اگر دائمی ہونا چاہئے تو کیوں انسانی زندگی اس سے محروم رہ جائے ؟ کیوں اس گوشہ میں کہ مخلوقات ارضی کا سب سے بلند گوشہ ہے وہ ایک بہت ہی محدود اور حقیر حد سے محروم رہ جائے ؟ کیوں اس گوشہ میں کہ مخلوقات ارضی کا سب سے بلند گوشہ ہے وہ ایک بہت ہی محدود اور حقیر حد سے آگے نہ بڑھے ؟ انسان کی دنیوی زندگی کی مقدار کیا ہے ؟ محض چند گنے ہوئے دنوں کی زندگی پھر کیا اللہ کی رحمت کا فیضان اتنا ہی تھا کہ چار دن کی زندگی پیدا کر دے اور وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے ؟ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں دے سکتی تھی ؟ چناچہ زیر نظر آیت میں فرمایا (آیت) ” قل لوانتم تملکون خزآئن رحمۃ ربی اذا ال مسکنتم خشیۃ الانفاق “۔ ” ان منکروں سے کہہ دو اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو ضرور تم ہاتھ روک کر خرچ کرتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائیں ۔ “ لیکن وہ تمہارے قبضہ میں نہیں ہیں وہ اس کے قبضہ میں ہیں جس کی بخشش کی کوئی انتہا نہیں ‘ جس کے خزانے کبھی ختم ہونے والے نہیں جس کا فیضان دائمی اور لگا تار ہے ۔
Top