Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 79
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ١ۘ وَ اِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍؕ۠   ۧ
فَانْتَقَمْنَا : ہم نے بدلہ لیا مِنْهُمْ : ان سے وَاِنَّهُمَا : اور بیشک وہ دونوں لَبِاِمَامٍ : راستہ پر مُّبِيْنٍ : کھلے
انہیں بھی ہم نے سزا دی اور یہ دونوں بستیاں شارع عام پر ہیں
ان لوگوں کو بھی سزا دی گئی اور ان بستیوں کو تباہ وبرباد کردیا گیا : 79۔ یہ لوگ شام کے متصل ایک ایسی جگہ آباد تھے جس کا عرض البلد افریقہ کے جنوبی صحرا کے عرض البلد کے مطابق پڑتا ہے اور بعض کے نزدیک شام کے متصل معانی کے حصہ زمین پر آباد تھا ، قرآن کریم نے اس قبیلہ کی آبادی کے متعلق ہم کو دو باتوں سے تعارف کرایا ہے ایک یہ کہ وہ ” امام مبین “ پر آباد تھا ” اور لوط (علیہ السلام) کی قوم اور مدین دونوں بڑی شاہراہ پر آباد تھے ۔ “ دوسرے یہ کہ وہ ” اصحاب ایکہ “ گھنے درختوں والے تھے ، عربی میں ایکہ ان سرسبز و شاداب جھاڑیوں کو کہتے ہیں جو ہرے بھرے درختوں کی کثرت کی وجہ سے جنگلوں اور بنوں میں اگی رہتی ہیں اور جھاندے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں ، ان دونوں باتوں کی جان لینے کے بعد مدین کی آبادی کا پتہ آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے وہ یہ کہ مدین کا قبیلہ بحر قلزم کے مشرقی کنارہ اور عرب کے مغرب شمال میں ایسی جگہ آباد تھے جو شام کے متصل حجاز کا آخری حصہ کہا جاسکتا ہے اور حجاز والوں کو شام ‘ فلسطین بلکہ مصر تک جانے میں اس کے کھنڈر راہ پر پڑتے ہیں جو تبوک کے بالمقابل واقع ہے ۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رح) کا یہ خیال ہے کہ یہاں ” ایکہ “ نام کا ایک درخت تھا ، اہل قبیلہ چونکہ اس کی پرستش کرتے تھے لہذا اس کی نسبت سے ” مدین “ کو ” اصحاب ایکہ “ کہا گیا نیز چونکہ یہ نسبت نسبی نہ تھی بلکہ مذہبی تھی اس لئے جن آیات کریمات میں ان کو اس لقب سے یاد کیا گیا ہے ان حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ” اخوھم “ ان کا بھائی یا اس قوم کے نسبی علاقہ سے یاد نہیں کیا گیا البتہ جن آیات کریمات میں قوم شعیب (علیہ السلام) کو مدین کہہ کر یاد کیا گیا ہے ان حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی انکے نسبی رشتہ میں منسلک ظاہر کیا گیا ہے اور مختصر یہ کہ مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قبیلہ ہے جو باپ کی نسبت سے مدین کہلایا اور زمین کی طبعی اور خفرانی حیثیت سے اصحاب ایکہ کے لقب سے مشہور ہوا ۔
Top