Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 66
وَ قَضَیْنَاۤ اِلَیْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ هٰۤؤُلَآءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ
وَقَضَيْنَآ : اور ہم نے فیصلہ بھیجا اِلَيْهِ : اس کی طرف ذٰلِكَ : اس الْاَمْرَ : بات اَنَّ : کہ دَابِرَ : جڑ هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ مَقْطُوْعٌ : کٹی ہوئی مُّصْبِحِيْنَ : صبح ہوتے
غرض کہ ہم نے لوط (علیہ السلام) پر حقیقت حال واضح کردی کہ ہلاکت کا ظہور ہونے والا ہے اور باشندگان شہر کی بیخ و بنیاد صبح ہوتے ہوتے اکھڑ جانے والی ہے
تفسیر : لوط (علیہ السلام) پر فرستادگان نے حقیقت حال واضح کردی : 66۔ آخر جب عذاب الہی کا وقت بالکل قریب آگیا تو ابتدائے شب میں لوط (علیہ السلام) کو اپنے لوگوں سمیت یہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا اور لوط (علیہ السلام) اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر سدوم سے رخصت ہوگئے اور ازیں بعد آپ کی پوری قوم کی سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ تھے جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی ۔ قرآن کریم جب بھی کوئی قصہ بیان کرتا ہے تو واقعات کو ترتیب دے کر بیان نہیں کرتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم کے نزدیک قصہ گوئی نہیں بلکہ نصیحت آموزی ہے ۔ یہ بات اس لئے کہی گئی کہ زیر نظر آیت میں جو کام ہونا تھا وہ تو معرض وجود میں لا کر بیان کردیا گیا لیکن بطور قصہ لوط (علیہ السلام) کے پاس آپ کے مہمانوں کے آنے کے بعد جو حالات وہاں ہوئے ان کا بیان ابھی باقی ہے جو آنے والی آیت سے شروع ہو رہا ہے حالانکہ قصہ کی رفتار تو یہ تھی کہ مہمانوں کی آمد کے بعد قوم کے بدبختوں نے لوط (علیہ السلام) کو تنگ کرنا شروع کردیا اور لوط (علیہ السلام) نے ان سے کتنی معذرت کی اور اپنی رسوائی نہ کرنے کے متعلق ان کو باور کرایا اور جب وہ باز نہ آئے تو لوط (علیہ السلام) کو بستی سے نکل جانے کا حکم دیا اور پھر جب آپ وہاں سے نکل گئے تو ان کو عذاب الہی نے آگھیرا۔ اس طرف آپ کی توجہ اس لئے مبذول کرائی گئی کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی جب دوسری بار غلہ لینے کیلئے آئے اور مصر میں بنیامین کے ساتھ ایک اتفاقی واقعہ پیش آگیا اور بنیامین اس الزام میں روک لئے گئے تو وہاں ارشاد الہی ہوا کہ ہم نے ” یہ تدبیر یوسف (علیہ السلام) کو سکھائی تھی ۔ “ (آیت) ” کذالک کدنا لیوسف “۔ اور مفسرین نے اس سے یہ سمجھا کہ بنیامین کی بوری میں پیالہ رکھ کر جو بنیامین کو روک لیا گیا تو یہ تدبیر ہم نے یوسف کو سکھائی تھی کہ تم اس طرح چوری کا الزام لگاؤ اور پھر اس الزام میں بنیامین کو روک لو حالانکہ یہ جھوٹ اور بہتان تھا جس کو نہ یوسف کرسکتے تھے اور نہ ہی اللہ آپ سے اس طرح جھوٹ بلوا سکتا تھا ۔ دراصل بات وہی تھی جو ہم نے بیان کردی کہ چونکہ بنیامین پر الزام لگ گیا تھا لہذا اس واقعہ کی اللہ نے یوسف (علیہ السلام) کو یہ تدبیر سکھائی کہ آپ ” کن کن دلائل سے یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ کام بنیامین نے نہیں کیا بلکہ کارندوں سے اتفاقا ہوگیا اور جان بوجھ کر انہوں نے بھی نہیں کیا اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مشیت ایزدی میں جو کام ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے اور کوئی کچھ بھی کرلے لیکن تقدیر کا لکھا نہیں مٹایا جاسکتا اور جس کو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے اور یہ وہی بات ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو سکھائی گئی تدبیر کا ذکر پہلے ہی کردیا جیسا کہ اس جگہ لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا پہلے ہی ذکر کردیا ۔
Top