Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 29
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب سَوَّيْتُهٗ : میں اسے درست کرلوں وَنَفَخْتُ : اور پھونکوں فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِيْ : اپنی روح سے فَقَعُوْا : تو گر پڑو تم لَهٗ : اس کے لیے سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرتے ہوئے
تو جب میں اسے درست کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو چاہیے کہ تم سب اس کے (خلیفہ بننے کے) لیے سربسجود ہو جاؤ
جب میں اس کو درست کر دوں تو تم اس کیلئے سربسجود ہوجانا : 29۔ تخلیق انسانی کے متعلق بہت کچھ بیان کیا گیا ہے ہم نے اس کے متعلق پوری تفصیل سورة البقرہ میں بیان کردی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں ، روح کیا ہے ؟ قرآن کریم نے اس کے متعلق دوسری جگہ وضاحت فرما دی کہ یہ احاطہ عقل انسانی سے ماوراء چیز ہے اس لئے اس کا آسان اور جامع جواب یہی ہے کہ وہ امر الہی ہے ، اللہ کا روح انسانی کی اضافت اپنی جانب کرنا اس کے اظہار قدرومنزلت کے لئے ہے اور اس نفخ روح کا نتیجہ ہے کہ روح انسانی میں خلافت الہی کی استعداد پیدا ہوگئی ہے ، اس کی کیفیت وماہیت پر مفسرین نے بڑے عجیب عجیب مناظر پیش کئے ہیں ممکن ہے کہ ان کو کوئی الہام ہوا یا کسی طریقہ سے ان کو مشاہدہ کرایا گیا ہو ، لیکن جب کتاب وسنت میں ایسی کوئی بات نہین تو ہم اپنی طرف سے کچھ کہنا نہیں چاہتے اور یہ بھی کہ ان باتوں کا ہماری زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور جو چیز ہمارے زندگی کے متعلق ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی خواہ وہ کون ہے ‘ امیر ہو یا غریب ‘ عالم ہو یا جاہل ‘ پیر ہو یا فقیر ‘ ولی ہو یا نبی ورسول اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آیا اور نہ ہی یہاں سے کوئی اپنی مرضی سے گیا اور نہ ہی رہتی دنیا تک کوئی اپنی مرضی سے آئے گا یا جائے گا ، لیکن جب ہم آنے والے موجود ہیں تو یقینا ہمارا لانے والا بھی کوئی ہے اور اسی طرح لے جانے والا بھی ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام جس کا ہے اس کا نام ” اللہ “ ہے ۔ اللہ ہی کے لانے سے ہم آئے اور اسی کے لے جانے سے ہم چلے جاتے ہیں اور اس آنے اور جانے پر مجبور محض ہیں ، اگر ہم نیک اعمال کریں اور اخلاق وکردار کو سنواریں تو فرشتے یقینا ہماری گرد کو بھی نہیں پاسکتے لیکن اگر معاملہ دوسرا ہو تو ہم سے زیادہ گیا گزرا اس دنیا میں کوئی جانور کتا اور بلا بھی نہیں ۔ انسان بلاشبہ مسجود الیہ ہے اگرچہ ہم سے بہت ہی کم ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں ۔
Top