Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 20
وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِیْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَعَايِشَ : سامانِ معیشت وَمَنْ : اور جو۔ جس لَّسْتُمْ : تم نہیں لَهٗ : اس کے لیے بِرٰزِقِيْنَ : رزق دینے والے
اور تمہارے لیے معیشت کا سارا سامان مہیا کردیا اور ان مخلوقات کیلئے بھی کردیا جن کیلئے تم روزی مہیا کرنے والے نہیں ہو
تمہارے لئے معیشت کا انتظام اور ہر اس مخلوق کیلئے بھی جس کو تم روزی نہیں دے سکتے : 20۔ زیر نظر آیت نظام ربوبیت سے متعلق ہے اس کا مطالعہ بھی اس روشنی میں کرو اور دیکھو کتنے مختصر اور کیسے سیدھے سادے لفظوں میں کتنی بڑی حقیقت بیان کردی گئی ہے ؟ فرمایا (آیت) ” جعلنا لکم فیھا معایش “۔ ہم نے زمین میں تمہارے لئے زندگی ومعیشت کے سارے سروسامان مہیا کردیئے لیکن کس طرح مہیا کئے ؟ اس طرح کہ اگرچہ ہرچیز کے ہمارے پاس ذخیرے ہیں لیکن ان کی بخشش ایک مقررہ اندازے ہی کے ساتھ ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ بغیر کسی اندازہ اور نظام کے تمام چیزیں بکھیر دی ہوں اور یہ جو ایک مقررہ اندازہ کا نظام ہے یعنی ” تقدیر اشیاء “ کا تو یہی ہے جو بتلا رہا ہے کہ یہاں کوئی اندازہ مقرر کرنے والی اور اسے قائم رکھنے والی ہستی ضرور ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس شناسی اور انضباط کے ساتھ ہر ضروری چیز کی بخشش کا نظام قائم ہوجاتا ۔ غور کرو کہ یہ کیا بات ہے کہ دنیا میں صرف یہی نہیں کہ پانی موجود ہے بلکہ ایک خاص نظم وترتیب کے ساتھ موجود ہے ؟ یہ کیوں ہے کہ پہلے سورج کی شعاعیں سمندر سے ڈول بھر بھر کر فضا میں پانی کی چادریں بچھا دیں ‘ پھر ہواؤں کے جھونکے انہیں حرکت میں لائیں اور پانی کی بوندیں بنا بنا کر ایک خاص وقت اور خاص محل میں برسا دیں ؟ پھر یہ کیوں ہے کہ جب کبھی پانی برسے تو ایک خاص ترتیب اور مقدار ہی سے برسے اور اس طرح برسے کہ زمین کی بلائی سطح پر اس کی ایک خاص مقدار بہنے لگے اور اندرونی حصوں تک ایک خاص مقدار میں نمی پہنچے ؟ کیوں ایسا ہوا کہ پہلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے تودے جمتے ہیں ‘ پھر موسم کی تبدیلی سے پگھلنے لگتے ہیں ، پھر ان کے پگھلنے سے پانی کے چشمے ابلنے لگتے ہیں ، پھر چشموں سے دریا کی جدولیں بہنے لگتی ہیں ‘ پھر یہ جدولیں پیچ وخم کھاتی ہوئی دور دور تک دوڑ جاتی ہیں ، اور سینکڑوں ‘ ہزاروں ‘ میلوں تک اپنی وادیاں شاداب کردیتی ہیں کیوں یہ سب کچھ ایسا ہی ہوا ؟ کیوں ایسا نہ ہوا کہ پانی موجود ہوتا مگر اس نظام اور ترتیب کے ساتھ نہ ہوتا ؟ قرآن کریم کہتا ہے اس لئے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت الہی کار فرما ہے اور ربوبیت کا مقتضاء یہی تھا کہ پانی اس ترتیب سے بنے اور اس ترتیب ومقدار سے تقسیم ہو ، یہ رحمت و حکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا مگر یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں ، پھر اس حقیقت کی ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں ، پھر اس حقیقت کی طرف غور کرو کہ زندگی کیلئے جن چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی انہی کی بخشائش سب سے زیادہ اور عام ہے اور جن کی ضرورت خاص خاص حالتوں اور گوشوں کیلئے تھی انہی میں اختصاص اور مقامیت پائی جاتی ہے ، ہوا سب سے زیادہ ضروری تھی کیونکہ پانی اور غذا کے بغیر کچھ عرصہ تک زندگی ممکن ہے مگر ہوا کے بغیر ممکن نہیں پس اس کا سامان اتنا وافر اور عام ہے کہ کوئی جگہ ، کوئی گوشہ ‘ کوئی وقت نہیں جو اس سے خالی ہو ۔ فضاء میں ہوا کا بیحد وکنار سمندر پھیلا ہوا ہے ، جب کبھی اور جہاں کہیں سانس لو ‘ زندگی کا یہ سب سے زیادہ ضروری جو ہر تمہارے لئے خود بخود مہیا ہوجائے گا ہوا کے بعد دوسرے درجے پر پانی ہے ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” وجعلنا من الماء کل شیء حی “۔ اس لئے اس کی بخشائش کی فراوانی اور عمومیت ہوا سے کم ہے مگر ہرچیز سے زیادہ ہے زمین کے نیچے آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں ، زمین کے اوپر بھی ہر طرف دریا رواں دواں ہیں پھر ان دونوں ذخیروں کے علاوہ فضائے آسمانی کا بھی کارخانہ ہے جو شب وروز سرگرم کار رہتا ہے ، وہ سمندر کا شورابہ کھینچتا ہے اسے صاف و شیریں بنا کر جمع کرتا رہتا ہے پھر حسب ضرورت زمین کے حوالے کردیتا ہے ، پانی کے بعد غذا کی ضرورت تھی لہذا ہوا اور پانی سے کم مگر اور تمام چیزوں سے زیادہ اس کا دسترخوان کرم بھی خشکی وتری میں بچھا ہوگا کہ یہ ” نظام ربوبیت “ کے اتنے گوشے ہیں کہ اگر ان کا احصاء کرنا شروع کردیں تو بہت مشکل ہے کہ احصاء ہوسکے ۔
Top