Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور دیکھو یہ ہماری ہی کارفرمائی ہے کہ آسمان میں برج بنا دیئے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے خوشنما بنا دیا
آسمانوں میں ہم نے برج بنائے اور ستاروں سے انکو مزین کردیا : 16۔ بروج کیا ہیں ؟ برج کی جمع ہے اور اس سے مراد ستارے ہیں اور قرآن کریم نے خود اس کی وضاحت دوسری جگہ کردی ہے ۔ چناچہ فرمایا ہے کہ (آیت) ” انا زینا السمآء الدنیا بزینۃ الکواکب ۔ وحفظا من کل شیطان مارد “۔ (الصفت : 37 : 7) اور ایک جگہ انہی کو اکب کو مصابیح کہا ہے جیسا ارشاد فرمایا ہے کہ (آیت) ” ولقدزینا السمآالدنیا بمصابیح وجعلنھا رجوما للشیاطین “۔ (الملک 67 : 5) مختصر یہ کہ ” بروج ” سے مراد ستاروں ہی سے ہے لیکن دور اول کے بعد ” برج “ کا لفظ ستاروں کے ان بارہ فرضی اشکال کیلئے مستعمل ہوگیا جو قدماء نے دورہ شمسی کیا نضباط کیلئے قرار دی تھیں اس لئے سوال پیدا ہوا کہ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اسی مصطلح معنی میں بولا گیا ہے اور مقصود اس سے بارہ برج ہیں ؟ یا لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور مقصود بڑے بڑے روشن ستارے ہیں جو بحر وبر کی ظلمتوں میں مسافروں کی راہنمائی کرتے ہیں ۔ بارہ برجوں کی تقسیم سب سے پہلے اہل بابل نے کی پھر سریانی اقوام ان سے آشنا ہوئیں ، اور بالاخر یونانیوں نے اختیار کرلیا ، عربی زبان اپنی ابتدائی شکلوں میں عراق ، مصر اور شام کی حکمران زبان رہ چکی ہے اور ان ممالک کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات بھی معلوم ومسلم ہیں پس اگر چاند کی منزلوں کی طرح سورج کے بارہ برجوں سے بھی عربی زبان آشنا ہوچکی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہ ہوگی لیکن اس میں شک نہیں کہ عرب جاہلیت کے کلام سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ، بس زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہاں برج سے مقصود روشن کو اکب ہیں اور ابن مسعود ؓ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور یہ قابل ترجیح ہے ، چناچہ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا گیا کہ (آیت) ” وزینھا للناظرین “۔ ہم نے اس فضا کو جو تمہارے اور اوپر پھیلی ہوئی ہے اس طرح بنا دیا کہ دیکھنے والوں کیلئے اس میں خوشنمائی پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ مقام بھی من جملہ ان مقدمات کے ہے جہاں قرآن کریم نے جمال فطرت سے استدلال کیا ہے یعنی اس بات سے استدلال کیا ہے کہ کائنات ہستی کے تمام مظاہر اس طرح واقعہ ہوتے ہیں کہ ان میں حسن و جمال کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ رحمت وفیضان کا کوئی ارادہ یہاں ضرور کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے حسن و خوبی کے ساتھ بنے اور اس میں روحوں کیلئے مسرور اور نگاہوں کیلئے عیش ونشاط ہو ، اگر ایک صاحب رحمت ہستی کی یہ کارفرمائی نہیں ہے تو پھر کس کی ہے ؟ نہیں تمہاری فطرت کہہ رہی ہے کہ یہ سب کچھ کسی ایسی ہستی کی کاری گری ہے جو حسن و جمال ہے اور جس نے چاہا ہے کہ حسن و جمال کا فیضان ہو۔ یہاں فرمایا کہ آسمانوں کو دیکھو عربی میں ” سماء “ کے معنی بلندی کے ہیں مکان کیلئے اس کی چھت اس کی سماء ہوتی ہے پس یہ جو بلندی تمہیں نظر آرہی ہے کس طرح دیکھنے کیلئے حسین و جمیل بنا دی گئی ہے ؟ چاندنی راتوں میں چاند کی شب افروزیان دیکھو اور اندھیری راتوں میں ستاروں کی جلوہ ریزیوں کا نظارہ کرو اور دیکھو کہ صبح جب اپنی ساری دل فریبیوں کے ساتھ آتی ہے اور شام جب اپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ چھپتی ہے ۔ گرمیوں میں صاف شفاف آسمان کا نکھرنا ، بارش میں بادلوں کا ہر طرف سے امنڈنا شفق کی لالہ گونی ‘ قوس قزح کی بوقلمونی ‘ سورج کی زرافشانی ‘ غرضیکہ آسمان کا کونسا منظر ہے جس میں نگاہوں کیلئے زینت نہیں ، جس میں دلوں کیلئے راحت و سکون نہیں ؟
Top