Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 14
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر فَتَحْنَا : ہم کھول دیں عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : کوئی دروازہ مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَظَلُّوْا : وہ رہیں فِيْهِ : اس میں يَعْرُجُوْنَ : چڑھتے
اگر ہم ان پر آسمان کا دروازہ کھول دیں اور یہ دن دہاڑے اس پر چڑھنے لگیں تب بھی یہ لوگ نہیں مانیں گے
اگر ہم آسمان کے دروازے کھول دیں اور یہ ان میں چڑھنے لگیں تو بھی ماننے والے نہیں : 14۔ ” یعرجون “ وہ چڑھ جائیں اور اس سے کفار مراد لئے گئے ہیں کہ وہ آسمان کے دروازے کھل جانے پر خود وہاں چڑھ جائیں تو بھی وہ یقین کرنے والے بلکہ وہ اس کے متعلق کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیں گے گویا وہ اس قدر ہٹ دھرم ہیں کہ کفر انکے دلوں میں یوں جڑ پکڑ چکا ہے یا زنگ کی طرح ان پر جم چکا ہے کہ اگر ان کیلئے آسمان کے دروازے کھول بھی دیئے جائیں اور یہ دن دہاڑے وہاں چڑھ بھی جائیں جیسا کہ ان کا مطالبہ ہے اور پھر وہاں یہ لوگ ہماری نشانیوں کا سارا حال معلوم کرلیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں پھر بھی یہ حق کو قبول کرنے کے لئے نہیں یہ دراصل بار بار ایک بات کی تاکید کی جارہی ہے اور ان کی ہٹ دھرمی کو استعارات وامثال سے بیان کیا جارہا ہے اور لب لباب یہ ہے کہ ” لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی نہیں مانتے ۔ “ ان کے سامنے دلائل پیش کرنا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے اس لئے نہ ماننے کی سوگند کھانے والوں کو کون منائے گا اور کس طرح منائے گا ؟ ان کو لاکھ دلائل دے دے کر سمجھاؤ وہ دلیل کی ایک ہی دلیل رکھتے ہیں ، وہ کیا ہے ؟ فرمایا یہی کہ ” میں نہ مانوں۔ “
Top