بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Taiseer-ul-Quran - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ہم نے نوح کو اس کی قوم 1 کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا کہ اپنی قوم کو (برے انجام سے) ڈراؤ۔ پیشتر اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے
1 سیدنا نوح (علیہ السلام) کا ذکر :۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں پہلے بہت سے مقامات پر گزر چکا ہے۔ یہ سورت پوری کی پوری آپ کے ذکر پر مشتمل ہے۔ اس سورت میں آپ کی زندگی کے پورے واقعات مذکور نہیں ہیں۔ بلکہ اس کا اکثر حصہ سیدنا نوح کی اپنے پروردگار سے فریاد اور دعاؤں پر مشتمل ہے۔ آپ کی شبانہ روز کی تبلیغ اور پورے ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں قوم نے آپ کی تبلیغ سے جیسا اثر قبول کیا، اسی کا شکوہ سیدنا نوح اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے بیان فرماتے ہیں۔ آپ کا مرکز تبلیغ عراق میں دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ تھا۔ سیدنا آدم اور سیدنا نوح کے درمیان پانچ ہزار سال کا طویل عرصہ حائل ہے اور اس طویل درمیانی عرصہ میں صرف ایک ہی قابل ذکر نبی سیدنا ادریس (علیہ السلام) کا ذکر ہمیں قرآن میں ملتا ہے۔ لیکن وہ بھی صاحب شریعت نبی نہیں تھے۔ جب سیدنا نوح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو اس وقت ان کی قوم میں شرک کا مرض ایک وبا کی طرح پھیل چکا تھا۔ چناچہ ان ابتدائی آیات میں ہی سیدنا نوح (علیہ السلام) کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ اپنی قوم کو شرک کے برے انجام سے وارننگ دے دیجئے اور اگر وہ باز نہ آئے تو یقیناً انہیں دردناک سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔
Top