Taiseer-ul-Quran - Al-An'aam : 41
بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
بَلْ : بلکہ اِيَّاهُ : اسی کو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو فَيَكْشِفُ : پس کھول دیتا ہے (دور کردیتا ہے) مَا تَدْعُوْنَ : جسے پکارتے ہو اِلَيْهِ : اس کے لیے اِنْ : اگر شَآءَ : وہ چاہے وَتَنْسَوْنَ : اور تم بھول جاتے ہو مَا : جو۔ جس تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
بلکہ اس وقت تم صرف 46 اللہ ہی کو پکارو گے۔ پھر جس تکلیف کے لئے تم اسے پکارتے ہو اگر وہ چاہے تو اسے دور بھی کردیتا ہے۔ اس وقت تو جنہیں تم شریک بناتے ہو، انہیں بھول جاتے ہو
46 عکرمہ بن ابو جہل کا اسلام لانا :۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ مصیبت کے وقت اور بالخصوص جب ان کا جہاز طوفان کی زد میں آجاتا تو اپنے معبودوں کو پکارنا شروع کردیتے پھر جب وہ مصیبت نہ ٹلتی اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی تو کہتے اب صرف ایک اللہ ہی کو پکارو۔ ان کی اسی عادت کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے اور ایک انسان کو ہدایت کی راہ پانے کے لیے یہی ایک بات کافی ہے۔ چناچہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل اس خیال سے مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ مفتوحین سے پتہ نہیں کیسا سلوک کیا جائے گا۔ جدہ پہنچے اور وہاں سے کشتی پر سوار ہو کر حبشہ کی راہ لی۔ راستہ میں کشتی طوفان میں گھر گئی تو مشرکوں نے اپنی عادت کے مطابق اپنے دیوی دیوتاؤں کو پکارنا شروع کردیا طوفان بڑھتا ہی گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کشتی اب ڈوبی کہ ڈوبی۔ خ مصیبت میں صرف اللہ ہی کام آتا ہے ؟ اس وقت مشرک کہنے لگے : اب صرف اللہ ہی کو پکارو۔ وہی ہمیں اس مصیبت سے اور موت سے نجات دے سکتا ہے۔ ایسے نازک وقت میں یہ جملہ سن کر عکرمہ کی آنکھیں کھل گئیں وہ سوچنے لگے کہ اگر سمندر میں مصیبت کے وقت اللہ ہی کام آتا ہے تو خشکی میں بھی اللہ ہی کام آنا چاہیے۔ وہ سوچنے لگے کہ بیس سال ہم محمد ﷺ سے اسی بات پر لڑتے رہے وہ کہتے تھے مصیبت میں کام آنے والا صرف اللہ ہے اور تمہارے معبود نہ تمہار کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں چناچہ اس نے عہد کیا کہ اگر آج زندگی بچ گئی تو سیدھا محمد ﷺ کے پاس جا کر ان کی بیعت کرلوں گا۔ اللہ کا کرنا ہوا کہ طوفان تھم گیا اور کشتی والوں کی زندگیاں بچ گئیں۔ عکرمہ واپس آگئے اور آ کر اسلام قبول کرلیا اور باقی عمر خدمت اسلام میں صرف کردی۔ خ حق پرستی کا جذبہ انسان میں موجود ہے :۔ یہ بات صرف عکرمہ تک ہی محدود نہیں بلکہ جب موت سامنے نظر آنے لگتی ہے تو دہریہ قسم کے لوگوں کی زبان پر بھی بےاختیار اللہ کا نام آجاتا ہے اور اسے فریاد کے طور پر پکارنے لگتے ہیں۔ جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ انسان خواہ کتنی ہی ضد اور ہٹ دھرمی کرتا رہے اس کے اندر فطری طور پر حق پرستی کا داعیہ رکھ دیا گیا ہے وہ آڑے وقتوں میں بےاختیار کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
Top