Taiseer-ul-Quran - Al-An'aam : 115
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا١ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَتَمَّتْ : اور پوری ہے كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب صِدْقًا : سچ وَّعَدْلًا : اور انصاف لَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کے کلمات وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور آپ کے پروردگار کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے اس کے فرامین کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں 120 اور سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے
120 قرآن پاک کی تمام تر خبریں سچی اور احکام معتدل ہیں :۔ یعنی اس کتاب میں توحید باری تعالیٰ پر اتنے دلائل دیئے جا چکے ہیں کہ جن سے حق نکھر کر سامنے آچکا ہے۔ آپ کے پروردگار کے فرامین سچائی اور انصاف کے ساتھ پورے ہوچکے۔ اس کتاب کی تمام تر خبریں سچی ہیں اور اس کے احکام معتدل اور منصفانہ ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ ان احکام و فرامین میں کسی طرح کا رد و بدل کرسکے یا اس میں سے کسی آیت کو چھپا سکے یا اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرسکے۔ واضح رہے کہ کسی بھی الہامی کتاب کو سرسری طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق اخبار یا خبر دینے سے ہوتا ہے جو وہ گزشتہ قوموں اور انبیاء کے حالات ہوں یا آئندہ کے متعلق پیش گوئیاں ہوں مثلاً قیامت سے پیشتر کون کون سے فتنے یا حوادث پیش آنے ہیں اور خواہ ان کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہو جیسے دوبارہ زندہ ہونا، اللہ کے حضور پیشی اور اپنے اپنے اعمال کی باز پرس اور جنت اور دوزخ وغیرہ کے حالات کا بیان اور دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اوامرو نواہی بیان کیے جاتے ہیں خواہ اللہ کے حقوق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حقوق سے یا خواہ معاشرتی اور تمدنی احکام ہوں یا معاشی یا سیاسی ہو یا عائلی زندگی سے متعلق ہوں۔ قرآن کریم میں پہلی قسم سے متعلق جو خبریں دی گئی ہیں وہ مکمل اور ٹھوس حقائق پر مبنی اور سچی ہیں۔ اور دوسرے حصہ میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ افراط وتفریط سے پاک اور نہایت معتدل اور متوازن ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کی خود باتیں سننے والا اور ان کے ہر طرح کے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔
Top