Taiseer-ul-Quran - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور جو دعا کرتے ہیں کہ : پروردگار ! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد (92) کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔
92 یہ بھی دعاء کا اگلا حصہ ہے۔ یعنی ہماری بیویوں اور اولاد کو نیک اور پرہیز بنا اور پھر ان سے بڑھ کر پرہیزگار بنا کہ ہم خود ان کے امام اور پیش رو ثابت ہوں۔ پھر یہ دعا صرف ازواج و اولاد تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ ہمیں اتنا نیک اور پرہیزگار بنادے کہ ہم دوسرے متقین کے لئے رہبر اور نمونہ بن جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیکی اور پرہیزگاری کے میان میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی آرزو اور اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس مقصد کے لئے اور اس میدان میں امت یا حکومت تک کے لئے آرزو کرنا یا دعا کرنا صرف جائز ہی نہیں تھا بلکہ ضروری ہے۔ جبکہ حب مال یا حب جاء کی غرض سے طلب امارت بیشمار صحیح احادیث کی رو سے ممنوع ہے لیکن موجودہ جمہوری دور کے بعض سیاسی لیڈر اسی آیتی سے طلب امارت کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ متقی حضرات تو ان کی رعیت بنیں اور یہ سیاسی لیڈر، جیسے بھی کردار کے وہ مالک ہوں، ان کے حاکم بن جائیں۔ ایسی کج فکری خالصتاً کسی پکے دنیا دار کے ذہن کا نتیجہ ہی ہوسکتی ہے۔
Top