Taiseer-ul-Quran - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
ہم نے یہ بات مختلف طریقوں سے ان کے سامنے بیان کی ہے تاکہ وہ کچھ سبق حاصل کریں 63 ۔ لیکن اکثر لوگ کے سوا کوئی اور بات تسلیم ہی نہیں کرتے
63 یعنی جنتی بھی اللہ کی نشانیاں اوپر مذکور ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ان سے سبق حاصل کرنے کے لئے تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہیں۔ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان باتوں پر دھیان دیتی ہے اور نہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکر بجا لاتی ہے۔ اور بعض انسان تو ایسے غلط عقائد میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بارش فلاں ستارہ کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔ آپ کے زمانہ میں بھی ایسے عقائد عام تھے اور ہر اچھی اور بری بات کو سیاروں کی گردش سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ حدیبیہ کے مقام پر جہاں آپ چودہ سو صحابہ سمیت عمرہ کی عرض سے تشریف لائے۔ ایک رات بارش ہوئی جو عرب جیسے بےآب وگیاہ ملک میں ایک عظیم نعمت متصور ہوتی تھی تو صبح آپ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندوں میں میں سے کچھ لوگ مجھ پر ایمان لائے اور ستاروں کے منکر ہوئے۔ یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور سیاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں سیارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی تو وہ میرا منکر ہوا اور سیاروں پر ایمان لایا ( بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم ( 1 lrm گویا ستاروں کے اثرات کو تسلیم کرنا اور اللہ پر ایمان لانا دو متضاد باتیں ہیں ان میں سے صرف ایک ہی چیز قبول کی جاسکتی ہے جو سیاروں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ ان اثرات کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
Top