Taiseer-ul-Quran - Al-Furqaan : 23
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا
وَقَدِمْنَآ : اور ہم آئے (متوجہ ہونگے) اِلٰى : طرف مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیے مِنْ عَمَلٍ : کوئی کام فَجَعَلْنٰهُ : تو ہم کردینگے نہیں هَبَآءً : غبار مَّنْثُوْرًا : بکھرا ہوا (پراگندہ)
اور جو کچھ انہوں نے کیا دھرا ہوگا ہم ادھر توجہ کریں گے تو اسے اڑتا ہوا غبار 33 بنادیں گے۔
33 کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ گر تم کچھ اچھے کام کرتے ہو تو ہم بھی بہت سے اچھے کام کرتے ہیں۔ ہم حاجیوں کی خبرگیری کرتے ہیں۔ انھیں پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کی امداد کرتے ہیں۔ غریبوں مسکینوں اور بیواؤں کے لئے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں وظیفے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں کافروں کے ایسے ہی اچھے اعمال کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم ان کے ایسے اعمال کی طرف بڑھیں گے تو انھیں اڑتا غبار بنادیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ اعمال اس غرض سے تو کئے ہی نہیں تھے کہ ان کو آخرت میں ان کا بدلہ ملے۔ کیونکہ وہ آخرت پر تو یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے اعمال کی کچھ بنیاد ہی نہ تھی۔ جس پر وہ قائم رہ سکتے۔ دنیا میں اگر انہوں نے کچھ اچھے اعمال کئے تھے۔ تو صرف اس غرض سے کہ لوگ انھیں اچھا سمجھیں اور اچھا کہیں اور یہ کام دنیا میں ہوچکا۔ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا میں مل چکا۔ آخرت میں ان کو اب کیا ملے گا ؟ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورة کہف میں یوں بیان فرمایا : (فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا 105۔ ) 18 ۔ الكهف :105) یعنی ہم ایسے لوگوں کے لئے میزان الاعمال رکھیں گے ہی نہیں وجہ یہ ہے کہ ان کے اچھے عمل تو اڑتا ہوا غبار بن گئے۔ اب نیکیوں کے پلڑے میں رکھنے کے لئے کیا چیز باقی رہ گئی کہ ان کے لئے میزان رکھی جائے۔
Top