Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
مگر ان ظالموں نے وہ بات ہی بدل دی جو ان سے کہی گئی تھی۔ سو ہم نے ان ظالموں پر ان کی نافرمانیوں کی بنا پر آسمان 75 سے عذاب نازل کیا
75 بنی اسرائیل کا فتح کے وقت تکبر :۔ مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر اس کے بالکل الٹ کام کیے۔ بستی میں داخل ہوتے وقت سجدہ ریز ہونے کے بجائے اکڑتے ہوئے اور سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، اور توبہ و استغفار کرنے کے بجائے دنیوی مال و دولت کے پیچھے پڑگئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھک کر داخل ہونا اور زبان سے (حطۃ) (یعنی گناہوں کی بخشش مانگنا) لیکن وہ اپنی سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کے بجائے حَبَّۃٌ فی شعرۃ (دانہ بالی کے اندر) کہنے لگے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور مسلم میں حبۃ فی شعرۃ کے بجائے حنطۃ فی شعرۃ (گندم اپنی بالی کے اندر) کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب التفسیر) طاعون کا عذاب :۔ بنی اسرائیل جب شہر پر قابض ہوئے وہاں بدکاریاں شروع کردیں جس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ آسمان سے عذاب (طاعون کی وبا کی صورت میں) نازل فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک روایت کے مطابق ستر ہزار یہود مرگئے۔
Top