Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے 250 ہیں مگر زیادتی 251 نہ کرنا۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو قطعاً پسند نہیں کرتا
250 مکہ میں مسلمانوں کو مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہی ہدایت کی جاتی رہی۔ مدینہ آ کر جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی تو مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت مل گئی اور اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورة حج کی یہ آیت تھی۔ ( اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ 39؀ۙ ) 22 ۔ الحج :39) جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی رہی اب انہیں (بھی لڑنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم ہوتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ تاکید کی گئی کہ صرف انہیں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں۔ کیونکہ جنگ سے تمہاری کوئی مادی غرض وابستہ نہیں اور اس آیت سے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی۔ 251 یعنی نہ تو ان لوگوں سے جنگ کرو جو دین حق کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتے اور نہ لڑائی میں جاہلی طریقے استعمال کرو، یعنی عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور زخمیوں پر دست درازی نہ کرو۔ دشمن کی لاشوں کا مثلہ نہ کرو اور خواہ مخواہ کھیتوں اور مویشیوں کو برباد نہ کرو وغیرہ وغیرہ جن کی احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ یعنی قوت وہاں استعمال کرو جہاں ضرورت ہو اور اتنی ہی کرو جتنی ضرورت ہو۔
Top