Taiseer-ul-Quran - Al-Israa : 79
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
وَمِنَ : اور کچھ حصہ الَّيْلِ : رات فَتَهَجَّدْ : سو بیدار رہیں بِهٖ : اس (قرآن) کے ساتھ نَافِلَةً : نفل (زائد) لَّكَ : تمہارے لیے عَسٰٓي : قریب اَنْ يَّبْعَثَكَ : کہ تمہیں کھڑا کرے رَبُّكَ : تمہارا رب مَقَامًا مَّحْمُوْدًا : مقام محمود
اور رات کو آپ تہجد (کی نماز) ادا 98 کیجئے یہ آپ کے لئے زائد 99 (نماز) ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود 100 پر فائز کردے۔
98 نماز تہجد کی رکعات :۔ تہجد کے لغوی معنی تو صرف رات کو ایک دفعہ سونے کے بعد رات کے ہی کسی حصہ میں بیدار ہونا ہے اور اس سے شرعاً وہ نماز مراد ہے جو رات کو سونے کے بعد طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کے کسی حصہ میں نصف شب کے بعد ادا کی جائے۔ اس نماز کی تعداد رکعات اور وقت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ 1۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہ (بنت حارث) کے ہاں سویا میں تو بچھونے کی چوڑان میں لیٹا اور آپ اور آپ کی بیوی لمبے رخ میں آپ نے کچھ آرام فرمایا۔ اور کم و بیش آدھی رات کے وقت آپ اٹھے۔ بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ پھر اچھی طرح وضو کرکے نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی اٹھ کر وضو کیا اور آپ کے بائیں جانب ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دایاں کان پکڑ کر مجھے اپنے (پیچھے سے لاکر) دائیں طرف کردیا۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر دو ، پھر دو ، پھر دو ، پھر دو اور پھر دو (کل بارہ رکعات) پھر وتر پڑھا پھر لیٹ رہے تاآنکہ موذن آپ کے پاس آیا : پھر آپ نے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں۔ پھر باہر نکلے اور صبح کی نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الوضوء باب قراءۃ القرآن نیز کتاب العلم۔ باب السمر بالعلم) 2۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے رات (تہجد) کی نماز کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : دو ، دو رکعت کرکے پڑھو۔ پھر جب کسی کو صبح ہوجانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے وہ ساری نماز کو طاق بنا دے گی عبداللہ بن عمر ؓ کہا کرتے کہ آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ رات کی نماز کے اخیر میں وتر پڑھا کرو۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ باب الحلق والجلوس فی المسجد) 99 یعنی نماز تہجد آپ پر تازیست فرض رہی۔ واقعہ معراج اور پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے نماز تہجد مسلمانوں پر فرض تھی جیسا کہ سورة مزمل کے پہلے رکوع میں اس کی وضاحت ہے۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو عام مسلمانوں پر نماز تہجد فرض نہ رہی جیسا کہ سورة مزمل کے دوسرے رکوع میں (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ 20؀ ) 73 ۔ المزمل :20) سے واضح ہوتا ہے اور آپ پر یہ نماز اسی آیت کی رو سے فرض ہوئی۔ جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں سورة فتح نازل ہوئی اور اس میں آپ کو اللہ نے یہ خوشخبری دی کہ اللہ نے آپ کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ تو آپ اس نماز میں پہلے سے بھی زیادہ قیام فرمانے لگے۔ چناچہ بروایت بخاری نماز تہجد میں لمبے قیام کی وجہ سے آپ کے پاؤں متورم ہوجاتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اللہ نے تو آپ کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا : ( اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًاشَکُوْرًا۔ ) یعنی کیا پھر میں اللہ کے اس احسان اور فضل کے عوض اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (بخاری، کتاب التہجد۔ باب قیام النبی اللیل حتی ترم قدماہ۔۔ ) امت کے لیے اگرچہ یہ نماز نفل ہے اور امت پر مشقت کی وجہ سے اس کی فرضیت ساقط کردی گئی ہے۔ تاہم اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ گویا ہماری مروجہ شرعی اصطلاح میں سنت مؤکدہ ہے۔ نماز تراویح یا قیام اللیل :۔ واضح رہے کہ نماز تہجد ہی کا دوسرا نام قیام اللیل ہے جیسا کہ بخاری کے عنوان باب سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ اور ماہ رمضان میں قیام اللیل کو نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے جو ماہ رمضان میں عموماً نماز عشاء کے بعد متصل ہی باجماعت نماز ادا کرلی جاتی ہے۔ رسول اللہ نے ماہ رمضان میں یہ نماز تہجد (یا قیام اللیل یا تراویح) صرف دو دن باجماعت پڑھائی تھی۔ پھر تیسرے یا چوتھے دن پھر لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے تو آپ جماعت کے لیے نکلے ہی نہیں اور صبح کی نماز کے بعد آپ نے صحابہ سے جماعت کے لیے نہ آنے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ (بخاری، کتاب التہجد باب تحریض النبی علی قیام اللیل، نیز کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان) اور یہ نماز آپ نے ہمیشہ گیارہ رکعت ہی ادا کی۔ آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے ؟ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان آپ گیارہ رکعت سے زیادہ لبھی نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعت پڑھتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں آپ نے فرمایا : عائشہ ؓ ! آنکھیں (ظاہر میں) سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا ۔ (بخاری، کتاب التہجد، باب قیام النبی باللیل فی رمضان وغیرہ) اب باجماعت نماز تراویح کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : عبدالرحمن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں سیدنا عمر کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) مسجد نبوی میں گیا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ کوئی تو اکیلا ہی پڑھ رہا ہے۔ اور کچھ ٹولیاں ایک امام کے پیچھے نماز ادا کر رہی ہیں۔ سیدنا عمر کہنے لگے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کردوں تو یہ بہتر ہوگا۔ یہ ارادہ کرنے کے بعد آپ نے سیدنا ابی بن کعب کو سب لوگوں کا امام بنادیا۔ پھر اس کے بعد کسی دوسری رات میں سیدنا عمر کے ہمراہ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ سب لوگ اپنے قاری (ابی بن کعبص) کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ سیدنا عمر نے کہا نعم البدعۃ ھذہ یعنی یہ بدعت تو اچھی ہے نیز لوگوں سے کہا کہ رات کا وہ حصہ جس میں تم سوتے رہتے ہو اس حصے سے افضل ہے جس میں تم نماز پڑھتے ہو اور لوگ شروع رات میں تراویح پڑھ لیتے۔ (قیام اللیل کرلیتے) بخاری، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان) سیدنا عمر اور باجماعت نماز تراویح :۔ اس حدیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے : 1۔ سیدنا عمر نے جب تراویح کی نماز باجماعت کا حکم دیا تو نہ آپ خود اس میں شامل ہوئے نہ آپ کے ساتھی عبدالرحمن بن عبد قاری۔ اسی طرح جب کسی دوسری رات معائنہ کیا تو جماعت دیکھ کر بھی نہ آپ خود اس میں شامل ہوئے اور نہ آپ کے ساتھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جماعت کو نہ ضروری سمجھتے تھے اور نہ بہتر ورنہ آپ خود اس میں شامل ہوجاتے۔ 2۔ سیدنا عمر نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قیام اللیل یا نماز تراویح کے لیے رات کا پہلا حصہ افضل نہیں جس میں یہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے بلکہ رات کا آخری حصہ افضل ہے اور سیدنا عمر خود رات کے آخری حصہ میں ہی اکیلے نماز ادا کرتے تھے۔ 3۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ یہ اچھی بدعت ہے تو اس سے آپ کی مراد صرف موجودہ شکل تھی۔ یعنی متفرق طور پر پڑھنے سے اکٹھے نماز پڑھنا بہتر ہے۔ ورنہ یہ شرعی اور اصطلاحی معنوں میں بدعت نہیں تھی۔ (جو بہرصورت گمراہی ہوتی ہے) کیونکہ قیام اللیل رسول اللہ نے خود بھی کیا اور صحابہ کرام نے بھی۔ علاوہ ازیں کم از کم تین دن آپ نے جماعت بھی کرائی تھی گویا اس کی دو بنیادیں سنت نبوی سے ثابت تھیں۔ لہذا اسے معروف معنوں میں بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور موطا امام مالک کی روایت کے مطابق آپ نے جب نماز تراویح کی جماعت کا حکم دیا تو گیارہ رکعت (وتر سمیت) کا ہی حکم دیا تھا۔ ہمارے ہاں عشاء کے بعد نماز تراویح باجماعت رائج ہے۔ اس میں دو مصلحتیں ضرور ہیں ایک تو حفاظ کرام کو اس بہانے دہرائی کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی سہولت بھی اسی وقت میں ہے ورنہ افضل وقت وہی ہے جس کی سیدنا عمر نے وضاحت کردی ہے۔ 100 مقام محمود کی مختلف توجیہات :۔ مقام محمود سے مراد ایسا مرتبہ ہے کہ سب لوگ آپ کی حمد و ثنا کرنے لگیں۔ اور اس کی کئی توجیہات ہیں مثلاً ایک یہ کہ ایسا مقام قدر و منزلت اور حمد و ستائش آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی آپ کی آخری زندگی میں عطا فرما دیا تھا، دوسری یہ کہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جس کا نام ہی مقام محمود ہے وہ آپ کو عطا کیا جائے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن کی ہولناکیوں کو دیکھ کر سب لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے وہ چاہیں گے کہ اللہ کے حضور ان کی کوئی سفارش کرے وہ سیدنا آدم اور پھر ان کے بعد باری باری سب انبیاء سے سفارش کی التجا کریں گے مگر ہر نبی اپنی کوئی نہ کوئی تقصیر یاد کرکے معذرت کر دے گا۔ بالآخر سب لوگ رسول اللہ کے پاس آئیں گے تو آپ لوگوں کی یہ التجا قبول کرکے اللہ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة بقرہ کی آیت نمبر 255 کے حواشی) اس توجیہ کے لحاظ سے مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے جیسا کہ آپ نے خود بھی یہی وضاحت فرمائی ہے۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ کسی نے آپ سے مقام محمود کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد مقام شفاعت ہے (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس وقت سب لوگوں کی زبان پر آپ کی حمد و ستائش جاری ہوجائے گی۔ نیز ہمیں اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر شخص آپ کے لیے مقام محمود پر کھڑا ہونے کی دعا کرتا ہے جس میں ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی بلند مرتبہ بزرگ اپنے سے چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کو اپنے حق میں دعا کے لیے کہہ سکتا ہے اور چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کی دعا اپنے سے بلند مرتبہ بزرگ کے حق میں قبول ہوسکتی ہے۔
Top