1 تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم :۔ قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے (اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم) ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے آیت ( فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ 98 ) 16 ۔ النحل :98) جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے
اور یہ تو ظاہر ہے کہ پناہ کسی نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والے دشمن سے زیادہ طاقتور ہو۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذا یہ دعا دراصل قرآن کی تلاوت کے دوران کج فکری سے بچنے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا ہے۔ نیز یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔
(1) فضائل سورة فاتحہ :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے اوپر ایک زور دار آواز سنی انہوں نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر فرمایا : یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا پھر فرمایا : یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نازل نہیں ہوا۔ پھر اس فرشتے نے آپ کو سلام کیا اور دو نوروں کی خوشخبری دی اور کہا : یہ دو نور آپ ہی کو دیے جا رہے ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ ایک سورة فاتحہ اور دوسرا سورة البقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو طلب کردہ چیز ضرور عطا کی جائے گی (صحیح مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل الفاتحہ)
(2) سورة فاتحہ کے مختلف نام :۔ سیدنا ابو سعید بن معلی ؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا : میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے آیت ( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) وہی (سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ ) اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا (بخاری : کتاب التفسیر، ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24 ) 8 ۔ الانفال :24) نیز تفسیر سورة فاتحہ)
(3) سیدنا ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سورة الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور دہرائی ہوئی سات آیتیں ہیں۔ (ترمذی : ابواب التفسیر، تفسیر سورة محمد)
اس سورة کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحہ ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ۔ اس کے متعلق علماء کی دو آرا ہیں : ایک یہ کہ یہ سورة ایک دعا ہے جو بندوں کو سکھائی گئی ہے کہ وہ اس انداز سے اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی سارا قرآن اس دعا کا جواب ہے۔ ان حضرات کی توجیہ یہ ہے کہ اس سورة کا ایک نام سورة الدعاء بھی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سورة سارے مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورة کا خلاصہ آیت ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے ہی راجح ہے اور اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں :
1 ۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اس سورة کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سورة سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔
2۔ اس سورة کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں :
(1) تذکیر بالآء اللہ : یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا بیان جو انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور اس میں زمین، آسمان، چاند، سورج اور ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا ذکر سب کچھ آجاتا ہے۔
(2) تذکیر بایام اللہ : یعنی مخلوق کے ساتھ واقعات اور حوادث کا بیان اس میں قصص الانبیاء اور نافرمانی کی بنا پر ہلاک شدہ قوموں کا ذکر شامل ہے۔
(3) تذکیر بالموت و مابعدہ : یعنی موت کے بعد آخرت کے احوال۔ اس میں اللہ کے ہاں باز پرس اور جنت و دوزخ کے سب احوال شامل ہیں۔
(4) علم الاحکام یعنی احکام شریعت : تذکیر بالآء اللہ، تذکیر بایام اللہ اور تذکیر بالموت، سب کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ ان کے ذکر سے انسان کو برضاء ورغبت احکام شریعت کی بجا آوری پر آمادہ کیا جائے۔
(5) علم المخاصمہ : یعنی گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد۔
اب دیکھئے اس سورة کی پہلی تین آیات میں یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے لے کر دوسری بار الرحمن الرحیم تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ اور رحمت کی وسعت کا ذکر ہے اور یہ تذکیر بالآء اللہ کے ذیل میں آتی ہیں اور چوتھی آیت ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :4) تذکیر بالموت کے ذیل میں۔ پانچویں آیت ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) علم الاحکام کا نچوڑ ہے۔ اور چھٹی آیت اللہ سے دعا اور تعلق باللہ پر مشتمل ہے اور یہ علم الاحکام ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ اور ساتویں آیت میں تذکیر بایام اللہ بھی ہے اور علم المخاصمہ بھی۔ اس لحاظ سے یہ سورة فی الواقع قرآن کی اجمالی فہرست ہے اور اس ساری سورة کا خلاصہ آیت ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) ہے۔ یعنی انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کرے جس میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔
اس سورة کا نام الشفاء اور الرقیہ بھی ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ درج ذیل حدیث ہے :
سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ جنہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اتفاق سے ان کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا۔ وہ صحابہ ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم میں سے کسی کے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ہے۔ مگر چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لیے ہم اس کا معاوضہ لیں گے انہوں نے چند بکریاں (ایک دوسری روایت کے مطابق 30 بکریاں) دینا قبول کیں۔ ایک صحابی (خود ابو سعید ؓ نے سورة فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورة فاتحہ پڑھ کر پھونک مار دیا کرتے۔ چند دنوں میں وہ سردار اچھا ہوگیا۔ (حسب وعدہ) قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے تو صحابہ ؓ کو تردد ہوا (کہ آیا یہ معاوضہ لینا بھی چاہئے یا نہیں) اور کہنے لگے کہ جب تک ہم نبی ﷺ سے پوچھ نہ لیں یہ بکریاں نہ لینا چاہئیں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ منتر بھی ہے ؟ وہ بکریاں لے لو اور (ان میں سے) میرا حصہ بھی نکالو اور ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے کہ جب صحابہ ؓ مدینہ پہنچے تو کسی نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ اس شخص (ابو سعید خدری ؓ نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے آپ ﷺ نے فرمایا :إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللہ (تمہارے اجرت لینے کی سب سے زیادہ مستحق تو کتاب اللہ ہی ہے) (بخاری۔ کتاب الطب والرقی۔ باب الرقی بفاتحۃ الکتاب)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں :
1 ۔ صحابہ ؓ نے اجرت کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کردیا تھا۔ بالخصوص ان دنوں میں جبکہ وسائل سفر محدود، سست رفتار اور ہوٹل وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور ملکی دستور یہ تھا کہ مہمانی سے انکار کو قتل کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔
2۔ اگر دم جھاڑ کی ضرورت پیش آئے تو صرف کتاب اللہ سے ہی کرنا چاہئے یا کم از کم دم جھاڑ کرنے والا شرکیہ یا مہمل الفاظ نہ پڑھے
3۔ ضرورت مند لوگ دم جھاڑ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں۔
رہا علی الاطلاق دم جھاڑ کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً ناجائز ہیں اور اس کی تفصیل سورة القیامۃ میں آئے گی۔ نیز اس سورة کا نام سورة الصلوۃ اور سورة الدعا اور تعلیم المسئلہ (مانگنے کے آداب) بھی ہے۔
قراۃ فاتحہ خلف الامام :۔ چناچہ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص، ناقص، ناقص اور ناتمام ہے ابوہریرہ ؓ سے پوچھا گیا : ابوہریرہ ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں ؟ وہ کہنے لگے : فارسی کے بیٹے دل میں (چپکے چپکے) پڑھ لو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز ( سورة فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا ہے۔ آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے جو کچھ وہ سوال کرے۔ میرا بندہ (نماز میں) کھڑا ہوتا اور کہتا ہے (آیت اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) الفاتحه "1) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کہتا ہے۔ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) الفاتحه "2) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ پھر وہ کہتا ہے ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :4) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ کچھ ملے گا جو اس نے مانگا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوۃ۔ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔ ترمذی۔ ابواب التفسیر۔ سورة الفاتحۃ)
سیدنا عبادہ بن صامت ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا : لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ (بخاری کتاب الاذان) اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔ ( وجوب القرأۃ للامام والمأموم فی الصلوۃ کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت) اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
اور ترمذی، ابوداؤد، احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہم سے پوچھا : تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے رہتے ہو ؟ ہم نے کہا : ہاں آپ نے فرمایا : فاتحہ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (سبل السلام۔ کتاب الصلوۃ۔ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر 13)
گویا سورة فاتحہ کے کل دس نام معلوم ہوئے۔ سورة الفاتحة، الحمد، سبعا من المثانی، أم القرآن، أم الکتاب، الشفاء، الرقیۃ، الدعاء، تعلیم المسئلۃ اور الصلوۃ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔
اس سورة کا ترتیب نزول کے لحاظ سے پانچواں نمبر ہے۔ گویا یہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی اور یہی پہلی سورت ہے جو پوری کی پوری یکبارگی نازل ہوئی۔
2 کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة فاتحہ کا جز ہے ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے زمانہ نزول میں بتایا جاچکا ہے کہ اس میں اقرا یا ابدا محذوف ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں (شروع) کا لفظ بڑھایا ہے۔ اب یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ آیا یہ آیت سورة فاتحہ کا جز ہے یا نہیں۔ اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ آیا جہری نمازوں میں امام کو اس کی قراءت بلند آواز سے کرنی چاہئے یا خفی آواز سے ؟
زمانہ نزول :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورت کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نازل نہ ہوتی (ابوداؤد۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ماجاء من جھر بھا) جس کا مطلب یہ ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورتوں کی تعداد کے برابر (ماسوائے سورة التوبہ) یعنی 113 بار نازل ہوئی۔
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر ایک غنودگی سی طاری ہوئی۔ پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ ﷺ ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ؟ فرمایا : مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ چناچہ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر ( اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۭ ) 108 ۔ الکوثر :1) پوری سورت پڑھی۔ (مسلم : کتاب الصلوۃ، باب حجۃ من قال البسملۃ آیۃ من اول کل سورة سواء براء ۃ)
کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة فاتحہ کا جزو ہے ؟ امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں اس کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے سورة توبہ کے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل اس دلیل کی رو سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم صرف سورة فاتحہ کا ہی جز نہیں بلکہ ہر سورت کا جز قرار پاتی ہے۔
نیز یہ آیت سورة نمل کی ایک مستقل آیت بھی ہے۔ (27: 30) علاوہ ازیں قرآن کی تصریح کے مطابق سورة فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اور یہ سات آیات تب ہی بنتی ہیں جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو سورة فاتحہ کی پہلی آیت شمار کیا جائے۔ یہ سب وجوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس آیت کی قرات جہری ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں سب سے زیادہ مشہور سیدنا انس ؓ سے مروی وہ حدیث ہے جسے بخاری، مسلم اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اور سیدنا ابوبکر ؓ اور سیدنا عمر ؓ (اَلْحَمْدُ اللہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) سے نماز شروع کیا کرتے تھے اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نہ قرات کی ابتدا میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں
اب یہ تو واضح ہے کہ مسلم میں مروی جملہ میں فی نفسہ مبالغہ میں زیادتی ہے ورنہ سورة فاتحہ کے آخر میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہے کب ؟ اور جو لوگ بسم اللہ بالجہر پڑھنے کے قائل ہیں وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ سورة فاتحہ کے بعد جو سورة پڑھتے تھے اس کی ابتدا میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔
اب اس کے برعکس نسائی کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :
نعیم مجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھی۔ پھر ام القرآن پڑھی تاآنکہ وہ (وَلاَالضَّالِیْنَ ) تک پہنچے تو آمین کہا۔ پھر جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہے (نسائی۔ کتاب الصلوۃ۔ باب قراءۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم)
صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے اور یہ اصل کی تائید کرتی ہے جو یہ ہے کہ قرات میں جو حکم فاتحہ کا ہے وہی بسملہ کا ہے۔ خواہ یہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ کیونکہ ابوہریرہ ؓ کے اس قول کہ میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہے سے واضح ہے کہ آپ بسملہ کی قرأت فرماتے تھے۔ اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ابوہریرہ ؓ کی مراد رسول اللہ ﷺ کی نماز کے اکثر افعال و اقوال سے ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے اور کسی صحابی سے یہ بعید ہے کہ اس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا نیا کام کیا ہو جسے رسول اللہ ﷺ نے نہ کیا ہو۔ (سبل السلام مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ۔ شیش محل روڈ لاہور۔ الجزء الاول ص 173)
نیز صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ : اس مسئلہ میں علماء نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بعض نامور شخصیات نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ اور یہ وضاحت کی ہے کہ سیدنا انس ؓ کی مندرجہ بالا حدیث مضطرب ہے۔ ابن عبدالبر الاستذکار میں کہتے ہیں کہ سیدنا انس ؓ کی تمام روایات کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اس اضطراب کی وجہ سے کسی بھی فقیہ کے لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی، نہ اس کے لیے جو بسملہ کی قرات کرتے ہیں اور نہ ان کے لیے جو نہیں کرتے۔ اس کے متعلق سیدنا انس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور بھول جاتا ہوں، لہذا اس میں کوئی حجت نہیں (ایضاً ، ص 172)
بعض علماء نہ اس آیت کی جہری قرات کے قائل ہیں اور نہ ہی اس آیت کو سورة فاتحہ کا جز قرار دیتے ہیں اور سات آیات کی تعداد پورا کرنے کے لیے ( صِرَاطَ الَّذِيْنَ ۧ) 1 ۔ الفاتحة :7) کے آگے 5 کا ہندسہ لکھ دیتے ہیں۔ جو کو فیوں کے نزدیک آیت کی علامت ہے لیکن یہ متفق علیہ آیت نہیں ہوتی۔ پھر لطف یہ کہ اس 5 پر لا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وقف ممنوع ہے اور یہ تکلف صرف اس لیے کیا گیا کہ بسم اللہ کو نہ فاتحہ کا جزء سمجھا جائے اور نہ اسے جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے۔
مجمع ملک فہد نے عرب ممالک کے لیے جو قرآن طبع کیا ہے ہمارے خیال میں اس میں معتدل رویہ اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ سورة فاتحہ میں تو اس آیت کو سورة کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اس پر ایک کا نمبر لکھا گیا ہے۔ (اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 9 ۧ) 1 ۔ الفاتحة :7) کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ باقی سورتوں میں اس آیت کو سورة کا جز قرار نہیں دیا گیا جس سے از خود یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ سورة فاتحہ سے پہلے یہ آیت جہری نمازوں میں جہر سے پڑھنا بہتر ہے اور دوسری سورتوں میں سر سے۔
3 رحمن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور ر ح م سے مشتق ہیں۔ لیکن لفظ رحمان میں رحیم کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہے کہ رحمن کا لفظ دوسرے نمبر پر اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بیشمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً (الرحمن عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۭ ) 55 ۔ الرحمن :2) ( اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى ) 20 ۔ طه :5) ( قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا 110۔ ) 17 ۔ الإسراء :110) اس لحاظ سے اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جاسکتی ہیں سوائے رحمن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر رحمن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبداللہ، دوسرا عبدالرحمن۔ (ترمذی : ابواب الادب، باب ماجاء ما یستحب من الاسماء) اکثر علماء نے رحمن اور رحیم کے فرق کو رحمت کی کیفیت اور کمیت کی کمی بیشی کی مختلف صورتوں سے واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ایک عام قول یہ ہے رحمٰن فی الدنیا رحیم فی الاخرۃ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمان ہے جو مسلمان، کافر، مشرک سب پر ایک جیسی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور رحیم آخرت میں ہے۔ جو صرف ایمانداروں پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صفت رحمانیت کا تقاضا ایسی نعمتیں اور رحمتیں ہیں جو حیات کے وجود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں صرف انسان ہی نہیں جملہ جاندار مخلوقات شامل ہیں۔ جیسے سورج، چاند، نور و ظلمت، ہوا، پانی اور زمین کی تخلیق جو زندگی کی جملہ ضروریات کی کفیل ہے نیز ماں کی مامتا اور فطری محبت کے تقاضے بھی اس میں شامل ہیں اور رحیم سے مراد وہ رحمت ہے کہ کسی مصیبت یا ضرورت کے وقت پہنچ کر سہارا دیتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب