Tafseer-al-Kitaab - Al-An'aam : 121
وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ١ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ١ۚ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَاْكُلُوْا : اور نہ کھاؤ مِمَّا : اس سے جو لَمْ يُذْكَرِ : نہیں لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِسْقٌ : البتہ گناہ وَاِنَّ : اور بیشک الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) لَيُوْحُوْنَ : ڈالتے ہیں اِلٰٓي : طرف (میں) اَوْلِيٰٓئِهِمْ : اپنے دوست لِيُجَادِلُوْكُمْ : تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں وَاِنْ : اور اگر اَطَعْتُمُوْهُمْ : تم نے ان کا کہا مانا اِنَّكُمْ : تو بیشک لَمُشْرِكُوْنَ : مشرک ہوگے
اور جس (جانور) پر (ذبح ہوتے ہوئے) اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس میں سے نہ کھاؤ۔ بلاشبہ یہ نافرمانی ہے (اگر تم اس سے کھاؤ) ، اور شیاطین تو اپنے دوستوں کے دلوں میں (شکوک و اعتراضات) القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے کج بحثی کریں۔ اور اگر تم نے ان کا کہا مان لیا تو یقینا تم (بھی) مشرک ہوجاؤ گے۔
[45] ملاحظہ ہو سورة بقرہ حاشیہ 108 صفحہ 106 [46] عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ علمائے یہود جہلائے عرب کو نبی ﷺ پر اعتراض کرنے کے لیے گھڑ گھڑ کر سوالات سنایا کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شبہات ڈالیں اور انہیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کریں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے جسے اللہ مارے وہ تو حرام ہے اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہوجائے۔
Top