Tafseer-al-Kitaab - Al-Israa : 60
وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ نُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لَكَ : تم سے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب اَحَاطَ : احاطہ کیے ہوئے بِالنَّاسِ : لوگوں کو وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں کیا الرُّءْيَا : نمائش الَّتِيْٓ : وہ جو کہ اَرَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دکھائی اِلَّا : مگر فِتْنَةً : آزمائش لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّجَرَةَ : ور (تھوہر) کا درخت الْمَلْعُوْنَةَ : جس پر لعنت کی گئی فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَنُخَوِّفُهُمْ : اور ہم ڈراتے ہیں انہیں فَمَا يَزِيْدُهُمْ : تو نہیں بڑھتی انہیں اِلَّا : مگر (صرف) طُغْيَانًا : سرکشی كَبِيْرًا : بڑی
اور (اے پیغمبر، وہ وقت یاد کرو کہ) جب ہم نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے رب نے (اپنے احاطہ علم سے) لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھائی تھی اسے ہم نے لوگوں (کے ایمان) کی آزمائش (کا ذریعہ) ٹھہرا دیا اور اس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ اور (باوجودیکہ) ہم لوگوں کو (طرح طرح سے) ڈراتے ہیں لیکن (ہمارا ڈرانا) ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کئے جاتا ہے۔
[46] اشارہ ہے معراج کی طرف۔ یہاں لفظ رؤیا خواب کے معنی میں نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھنے کے معنی میں ہے۔ [47] یعنی کسی نے تصدیق اور کسی نے تکذیب کی۔ [48] یعنی زقوم کا درخت جس کے متعلق قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دوزخ میں پیدا ہوگا اور دوزخیوں کو اسے کھانا پڑے گا۔ اس پر لعنت کرنے سے مراد اس کا اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔
Top