Tafseer-al-Kitaab - Al-Israa : 54
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يَرْحَمْكُمْ : تم پر رحم کرے وہ اَوْ : یا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے تمہیں بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر وَكِيْلًا : داروغہ
(لوگو، ) تمہارا رب تم سب کا حال خوب جانتا ہے۔ وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تم کو عذاب دے۔ اور (اے پیغمبر، ) ہم نے تمہیں لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔
[40] بعض مسلمانوں نے مشرکین سے کہا تھا کہ تم جہنمی ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا گیا کہ تعین کے ساتھ کسی انسان یا جماعت کو کہیں کہ تم جہنمی ہو کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کس کا خاتمہ کس پر ہونے والا ہے۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بات حق ہے اور یہ حق نہیں لیکن کسی خاص جماعت یا فرد کی نسبت حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ یہ ضرور جہنمی ہے۔ اس چیز کا فیصلہ کرنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن سے واقف ہے۔ [41] یعنی نبی کا کام لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانا ہے۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ کسی کے حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نبی ﷺ سے اس قسم کی کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تنبیہہ فرمائی بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ جب نبی تک کو یہ منصب حاصل نہیں تو اور کسی کے لئے کب جائز ہوسکتا ہے کہ اپنے کو جنت و دوزخ کا داروغہ سمجھ لے۔
Top