Tafseer-al-Kitaab - Al-Israa : 46
وَّ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا
وَّجَعَلْنَا : اور ہم نے ڈال دئیے عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اَكِنَّةً : پردے اَنْ : کہ يَّفْقَهُوْهُ : وہ نہ سمجھیں اسے وَ : اور فِيْٓ : میں اٰذَانِهِمْ : ان کے کان وَقْرًا : گرانی وَاِذَا : اور جب ذَكَرْتَ : تم ذکر کرتے ہو رَبَّكَ : اپنا رب فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَحْدَهٗ : یکتا وَلَّوْا : وہ بھاگتے ہیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِهِمْ : اپنی پیٹھ ٠ جمع) نُفُوْرًا : نفرت کرتے ہوئے
اور ان کے دلوں پر غلاف ڈال دیتے ہیں کہ سمجھ کام نہیں دیتی، اور ان کے کانوں میں (ایک طرح کی) گرانی پیدا کردیتے ہیں (کہ کچھ سنائی نہیں دیتا) ۔ اور جب تم قرآن میں تن تنہا صرف اپنے پروردگار کا ذکر کرتے ہو تو وہ پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔
[37] یہ آخرت سے انکار کا قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کے دل پر غلاف چڑھ جائیں اور اس کے کان اس دعوت کے لئے بند ہوجائیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ اور وہ دعوت یہ ہے کہ حق و باطل کے فیصلے اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ہوں گے۔ نیک انسان وہ ہے جو آخرت میں فوز و فلاح سے ہمکنار ہو، چاہے دنیا میں اسے کتنی ہی تکلیفیں اٹھانا پڑی ہوں اور برا آدمی وہ ہے جو آخرت میں نامراد و ناکام ہو گرچہ دنیا میں وہ کتنے ہی عیش و آرام میں رہا ہو۔ لہذا جو شخص آخرت پر یقین نہیں رکھتا وہ قرآن کی دعوت پر کیسے توجہ دے سکتا ہے۔
Top