Tafseer-al-Kitaab - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
(اے پیغمبر، ان لوگوں سے) کہو کہ اگر میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے اختیار میں ہوتے تو ضرور تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے انھیں روکے رکھتے اور (حقیقت یہ ہے کہ) انسان بڑا ہی تنگ دل (واقع ہوا) ہے۔
[64] مشرکین نبی ﷺ کی نبوت کے لئے جو بےسروپا اور بےہودہ مطالبات کر رہے تھے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اگر آپ کو بلا حیل و حجت نبی مان لیتے تو ساتھ ہی آپ کی برتری بھی تسلیم کرنا پڑتی جس کے لئے وہ آمادہ نہ تھے۔ لہذا فرمایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا یہ حال ہے کہ کسی کی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا دل دکھتا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے خزانے ان کے حوالے کردیئے ہوتے تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے۔
Top