Tafseer-al-Kitaab - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا
[10] یعنی انسان اول آدم (علیہ السلام) ۔ [11] اصل الفاظ ہیں حماً مسنون۔ حماً عربی زبان میں اس سیاہ کیچڑ یا گارے کو کہتے ہیں جس میں بو پیدا ہوگئی ہو اور خمیر اٹھ آیا ہو۔ مسنون کے دو معنی ہیں : (1) ایسی سڑی ہوئی مٹی جس میں لیس پیدا ہوگیا ہو۔ (2) قالب میں ڈھلی ہوئی مٹی۔ [12] اصل لفظ صلصال استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بجنے والی خشک مٹی۔ [13] آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان اول کا پتلا سڑی ہوئی لیس دار مٹی سے بنایا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اسی خشک بجنے والی مٹی کے پتلے میں روح پھونکی گئی جیسا کہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔ بالفاظ دیگر انسان اول کی براہ راست تخلیق (Direct Creation) کی گئی تھی۔ پھر اسی ابو البشر سے انسانی نسل چلی۔ قرآن کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کی حدود میں نہیں آیا ہے جیسا کہ آج کل کے مفسرین قرآن ڈارون (Darwin) کے نظریہ ارتقاء سے متاثر ہو کر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ اس کی تخلیق براہ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے۔
Top