Tafseer-al-Kitaab - Al-Hijr : 22
وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ
وَاَرْسَلْنَا : اور ہم نے بھیجیں الرِّيٰحَ : ہوائیں لَوَاقِحَ : بھری ہوئی فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : پھر ہم نے وہ تمہیں پلایا وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم لَهٗ : اس کے بِخٰزِنِيْنَ : خزانہ کرنے والے
اور ہم ہی بار آور ہواؤں کو بھیجتے ہیں، پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر ہم ہی وہ (پانی) تمہیں پلاتے ہیں اور تم نے اسے ذخیرہ کر کے نہیں رکھا تھا۔
[8] اصل میں لفظ لواحقہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حمل آور۔ پس الریاح لواقحہ کے معنی ہوئے حاملہ کردینے والی ہوائیں۔ آج سے تقریباً دو سو سال پہلے اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ تمام پھول والے پودوں میں جن کی انواع ڈھائی لاکھ کے قریب ہیں کچھ نر ہوتے ہیں اور کچھ مادہ۔ نر میں زرد رنگ کے ذرات ہوتے ہیں جو پولن (Pollen) کہلاتے ہیں۔ اگر یہ ذرات مادہ تک نہ پہنچیں تو بیج اور پھل نہیں لگتے۔ قدرت ان ذرات کو مادہ تک پہنچانے کے لئے کئی طریقے استعمال کرتی ہے۔ عموماً ہواؤں سے کام لیا جاتا ہے جو پولن کو اڑا کر مادہ پھولوں پر ڈال دیتی ہیں۔ کیونکہ پولن کی تقسیم کا سب سے بڑا ذریعہ ہوائیں ہیں، اس لئے قرآن نے انہی کے ذکر پر اکتفا کی ہے۔ قرآن میں ایک ایسی حقیقت کا ذکر جس کا انکشاف صرف دو سو سال پہلے ہوا تھا، قرآن کے منجانب اللہ ہونے کا صریح ثبوت ہے۔
Top