Tafseer-al-Kitaab - Al-Faatiha : 2
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
سورة فاتحہ کے مضمون پر ایک اجمالی نظر۔ سورة فاتحہ ایک دعا ہے جو اللہ نے ہر اس انسان کو سکھا دی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ کر رہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے۔ اس سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورة فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمہ کا سا نہیں بلکہ دعا اور جواب دعا کا سا ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار میری رہنمائی فرما اور جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے آگے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی دعا تو نے مجھ سے کی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس حیرت انگیز جامعیت کے ساتھ سورة فاتحہ کی سات مختصر آیات میں توحید الٰہی اور صفات کمالیہ کا بیان آیا ہے اس کی نظیر سے مذاہب عالم کے دفتر خالی ہیں۔ اس سے بڑھ کر تو کیا اس کے برابر بھی مثال پیش کرنے سے دنیا کے مذاہب عاجز ہیں۔ مسیحی دنیا کو اپنی انجیلی دعا (Lord's Prayer) پر بڑا ناز ہے۔ یہاں اسے درج کیا جاتا ہے۔ ہر منصف مزاج آدمی خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ سورة فاتحہ اور اس انجیلی دعا کے درمیان کیا نسبت ہے۔ انجیلی دعا (متی 6: 9: 41) 1۔ اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ 2۔ تیری بادشاہت آئے۔ تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ 3۔ ہماری روز کی روٹی ہمیں آج دے۔ 4۔ جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے تو ہمارے قرض ہم کو معاف کر۔ 5۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔ 1۔ کہاں رب العالمین کی لا محدود وسعت و ہمہ گیری اور کہاں آسمان پر محدود اور پھر باپ جیسی مادی تعلق رکھنے والی ہستی۔ 2۔ ایک طرف اعلان ہو رہا ہے ہمہ گیر صفات روبیت، رحمانیت، رحیمیت و مالکیت کا اور دوسری طرف ذکر ہے صرف زمین پر آسمانی بادشاہت آنے کا۔ 3۔ قرآنی عبارت میں جو زور توحید خالص اور غیر اللہ سے مدد نہ مانگنے پر ہے انجیلی دعا میں اس کا پتہ تک نہیں۔ 4۔ انجیلی دعا کی آیت نمبر 3 میں روٹی کی اس درجہ اہمیت، مادیت کی انتہا ہے۔ 5۔ محض برائی سے بچنے کی دعا، صراط مستقیم پر قائم رہنے کی نسبت سے کہیں زیادہ ہلکی ہے۔ [7] تعریف کسی کی بھی ہو، کسی نام سے بھی ہو درحقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوتی ہے اور اسی کو پہنچتی ہے۔ حاکم اگر عادل ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے صفت عدل اس کے اندر رکھ دی ہے۔ کسی کی شکل خوبصورت ہے اور کسی کی سیرت پاکیزہ ہے تو تعریف و ستائش کی اصل مستحق ذات باری تعالیٰ ہے۔ [8] '' رب '' کا لفظ عربی زبان میں تین معنوں میں بولا جاتا ہے : (1) مالک اور آقا۔ (2) پرورش اور خبرگیری کرنے والا۔ (3) فرمانروا اور حاکم۔ اللہ تعالیٰ ان سب معنوں میں کائنات کا رب ہے۔ سورة فاتحہ کی اہمیت اور اس کی خصوصیات یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے۔ اس لئے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے، قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس لئے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے ہی میں قرار پائی، چناچہ خود قرآن نے اس کا ذکر ایسے لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ ( وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ 87؀) 15 ۔ الحجر :87) اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سات آیات دی ہیں جو (نماز میں) دہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم (عطا کیا ہے) ۔ احادیث و آثار سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس آیت میں '' دہرائی جانے والی آیات '' سے مقصود یہی سورت ہے، کیونکہ یہ سات آیات کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو '' سبع المثانی '' بھی کہتے ہیں۔ علاوہ بریں ایک سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے یہ اوصاف عہد نبوت میں عام طور پر مشہور تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ابی بن کعب ؓ کو یہ سورت پڑھنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اس کے مثل کوئی سورت نہیں۔ سورة فاتحہ میں دین حق کے تمام مقاصد کا خلاصہ موجود ہے، چناچہ اس سورت کے مطالب پر نظر ڈالتے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصہ میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہوگیا ہے، یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کئے گئے ہیں، سورة فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال بیان موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے، صرف اس سورت کے مطالب ذہن نشین کرلے، تب بھی وہ دین حق اور توحید پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کرلے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے۔ علاوہ بریں جب اس پہلو پر غور کیا جائے کہ سورت کا پیرا یہ دعائیہ ہے اور اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جز قرار دیا گیا ہے، تو اس کی یہ خصوصیت اور زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے، اور واضح ہوجاتا ہے کہ اس اجمال و تفصیل میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادہ خلاصہ بھی ہو جسے ہر انسان بہ آسانی ذہن نشین کرلے، اور پھر ہمیشہ اپنی دعاؤں اور عبادتوں میں دہراتا رہے۔ یہ اس کی دینی زندگی کا دستور العمل، توحید پرستی کے عقائد کا خلاصہ اور روحانی تصورات کا نصب العین ہوگا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت کے قریب ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ سہل اور دلنشین بھی، اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے، بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے، پس جو بات سچی اور حقیقی ہوگی، ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دلنشین ہو، دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات آپ کے سامنے آجائے تو ذہن کو کسی طرح اجنبیت محسوس نہ ہو، وہ اسی طرح سے قبول کرے گویا پیشتر سے سمجھی، بوجھی ہوئی بات تھی۔ اب غور کریں کہ جہاں تک انسان کا تصور توحید پرستی کا تعلق ہے، اس سے زیادہ سیدھی سادی باتیں اور کیا ہوسکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، اور پھر اس سے زیادہ سہل اور دلنشین اسلوب بیان کیا ہوسکتا ہے ؟ سات چھوٹے چھوٹے جملے ہیں۔ ہر جملہ چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں، اور ہر لفظ صاف اور دلنشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کر کے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی جہالت و غفلت سے ان میں غور و تفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار ہے، اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے، اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ پر چلنے کی طلبگاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ جب کہ ہم بار بار یہ سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے، لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی، اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کا یہی حال ہے، جب تک سامنے نہیں آتی، معلوم ہوتا ہے، اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ جب سامنے آجاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے، اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ دنیا میں جب کبھی وحی الٰہی کی ہدایت نمودار ہوئی ہے، اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں، کیونکہ توحید پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جاسکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتادے اور یہی سورة فاتحہ کی خصوصیت ہے۔ (1) اللہ کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلطی یہ رہی ہے کہ وہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورة فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کردیا۔ اس کی ابتدا حمد کے اعتراف سے ہوتی ہے۔ حمد ثناء جمیل کو کہتے ہیں، یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو۔ ثناء جمیل اسی کی کی جاسکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس حمد کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہوسکتا۔ جو ذات محمود ہوگی، وہ خوفناک نہیں ہوسکتی۔ پھر حمد کے بعد اللہ کی عالمگیر ربوبیت، رحمت اور عدالت کا ذکر کیا ہے، اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشو و ارتقا کے لئے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کردیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آسکتی ہیں۔ (2) رب العالمین میں اللہ کی عالمگیر ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد، ہر جماعت، ہر قوم، ہر ملک، ہر گوشہ اور ہر وجود کے لئے ہے، اور اس لئے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا خاتمہ کردیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہوگئی تھیں، اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگی تھی کہ اللہ کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لئے ہیں، کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔ (3) ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :4) میں '' الدِّیْنِ '' کا لفظ جزا کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو '' دین '' کے لفظ سے تعبیر کر کے یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ جزا انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں، یہ بات نہیں کہ اللہ کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتا ہو کیونکہ '' الدِّیْنِ '' کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔ (4) '' ربوبیت '' اور '' رحمت '' کے بعد ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :4) کے وصف نے یہ حقیقت بھی آشکارا کردی کہ اگر کائنات میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لئے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ عادل ہے، اور اس کی حکمت نے ہر چیز کے لئے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کردیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین ِ رحمت ہے۔ (5) عبادت کے لئے یہ نہیں کہا کہ '' نَعْبُدُکَ '' بلکہ ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) یعنی یہ نہیں کہ '' تیری عبادت کرتے ہیں '' بلکہ حصر کے ساتھ کہا '' صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں '' اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کردیئے، اور شرک کی ساری راہیں بند ہوگئیں۔ (6) سعادت و فلاح کی راہ کو '' صراط المستقیم '' یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا، جس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہوسکتی، کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہشمند نہ ہو۔ (7) پھر اس کے لئے ایک ایسی سیدھی سادی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بتادی جس کا یقین قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے، یعنی وہ راہ جو انعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ خواہ کوئی ملک، کوئی قوم، کوئی زمانہ، کوئی فرد ہو لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے، ایک ناکام انسانوں کی، پس ایک واضح اور آشکارا بات کیلئے سب سے بہتر علامت یہی ہوسکتی ہے کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا، ایک معلوم بات کو مجہول بنادینا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کیلئے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے، کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو توحید پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے، صدائے حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہئے ؟ یہ گویا توحید پرستی کے فکر و وجدان کا نچوڑ ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بےاختیار آجاتا ہے !
Top