سورة الصَّف 6
یہ بنی اسرائیل کی دوسری نافرمانی کا ذکر ہے۔ ایک نافرمانی وہ تھی جو انہوں نے اپنے دور عروج کے آغاز میں کی۔ اور دوسری نافرمانی یہ ہے جو اس دور کے آخری اور قطعی اختتام پر انہوں نے کی جس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان پر خدا کی پھٹکار پڑگئی۔ مدعا ان دونوں واقعات کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا کے رسول کے ساتھ بنی اسرائیل کا سا طرز عمل اختیار کرنے کے نتائج سے خبردار کیا جائے۔
سورة الصَّف 7
اس فقرے کے تین معنی ہیں اور تینوں صحیح ہیں
ایک یہ کہ میں کوئی الگ اور نرالا دین نہیں لایا ہوں بلکہ وہی دین لایا ہوں جو موسیٰ ؑ لائے تھے۔ میں توراۃ کی تردید کرتا ہوا نہیں آیا ہوں بلکہ اس کی تصدیق کر رہا ہوں، جس طرح ہمیشہ سے خدا کے رسول اپنے سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تم میری رسالت کو تسلیم کرنے میں تامل کرو۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق توراۃ میں موجود ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ تم میری مخالفت کرو، تمہیں تو اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ جس کے آنے کی خبر پچھلے انبیاء نے دی تھی وہ آگیا۔
اور اس فقرے کو بعد والے فقرے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمد ﷺ کی آمد کے متعلق توراۃ کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں۔ اس تیسرے معنی کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ ؑ کے اس قول کا اشارہ اس بشارت کی طرف ہے جو رسول اللہ ﷺ کے متعلق حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے دی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں
" خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔
(استثناء، باب 18۔ آیات 15۔ 19)
یہ توراۃ کی صریح پیشن گوئی ہے جو محمد ﷺ کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے تیرے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ایک قوم " بھائیوں " سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہوسکتا بلکہ کوئی دوسری ایسی قوم ہی ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ ہو۔ اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی نبی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے کہ میں تمہارے لیے خود تم ہی میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لا محالہ بنی اسماعیل ہی ہو سکتے ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی بنا پر ان کے نسبی رشتہ دار ہیں۔ مزید براں اس پیشن گوئی کا مصداق بنی اسرائیل کا کوئی نبی اس وجہ سے بھی نہیں ہوسکتا کہ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں کوئی ایک نبی نہیں، بہت سارے نبی آئے ہیں جن کے ذکر سے بائیبل بھری پڑی ہے۔
دوسری بات اس بشارت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کے مانند ہوگا۔ اس سے مراد ظاہر ہے کہ شکل صورت یا حالات زندگی میں مشابہ ہونا تو نہیں ہے، کیونکہ اس لحاظ سے کوئی فرد بھی کسی دوسرے فرد کے مانند نہیں ہوا کرتا۔ اور اس سے مراد محض وصف نبوت میں مماثلت بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ وصف ان تمام انبیاء میں مشترک ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد آئے ہیں، اس لیے کسی ایک نبی کی یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وصف میں ان کے مانند ہو۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے مشابہت کے خارج از بحث ہوجانے کے بعد کوئی اور وجہ مماثلت، جس کی بنا پر آنے والے ایک نبی کی تخصیص قابل رحم ہو، اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ وہ نبی ایک مستقل شریعت لانے کے اعتبار سے حضرت موسیٰ کے مانند ہو۔ اور یہ خصوصیت محمد ﷺ کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ آپ سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نبی بھی آئے تھے وہ شریعت موسوی کے پیرو تھے، ان میں سے کوئی بھی ایک مستقل شریعت لے کر نہ آیا تھا۔
اس تعبیر کو مزید تقویت پیشین گوئی کے ان الفاظ سے ملتی ہے کہ " یہ تیری (یعنی بنی اسرائیل کی) اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا "۔ اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ کو پہلی مرتبہ احکام شریعت دیے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل کی جس درخواست کا اس میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی شریعت ہم کو دی جائے تو ان خوفناک حالات میں نہ دی جائے جو حورب پہاڑ کے دامن میں شریعت دیتے وقت پیدا کیے گئے تھے۔ ان حالات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور بائیبل میں بھی۔ (ملاحظہ ہو البقرہ، آیات 55۔ 56۔ 63۔ الاعراف، آیات 155۔ 171۔ بائیبل، کتاب خروج 1719۔ 18)۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ درخواست قبول کرلی ہے، اس کا ارشاد ہے کہ میں ان کے لیے ایک ایسا نبی برپا کروں گا جس کے منہ میں میں اپنا کلام ڈالوں گا۔ یعنی آئندہ شریعت دینے کے اس وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہ کیے جائیں گے جو حورب پہاڑ کے دامن میں پیدا کیے گئے تھے، بلکہ اب جو نبی اس منصب پر مامور کیا جائے گا اس کے منہ میں بس اللہ کا کلام ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے خلق خدا کو سنا دے گا۔ اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمد ﷺ کے سوا اس کا مصداق کوئی اور نہیں ہے ؟ حضرت موسیٰ کے بعد مستقل شریعت صرف آپ ہی کو دی گئی، اس کے عطا کرنے کے وقت کوئی ایسا مجمع نہیں ہوا جیسا حورب پہاڑ کے دامن میں بنی اسرائیل کو ہوا تھا، اور کسی وقت بھی احکام شریعت دینے کے موقع پر وہ حالات پیدا نہیں کیے گئے جو وہاں پیدا کیے گئے تھے۔
سورة الصَّف 8
یہ قرآن مجید کی ایک بڑی اہم آیت ہے، جس پر مخالفین اسلام کی طرف سے بڑی لے دے بھی کی گئ ہے اور بدترین خیانت مجرمانہ سے بھی کام لیا ہے، کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے رسول اللہ ﷺ کا صاف صاف نام لے کر آپ کی آمد کی بشارت دی تھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے۔
1۔ اس میں نبی کریم ﷺ کا اسم گرامی احمد بتایا گیا ہے۔ احمد کے دو معنی ہیں۔ ایک، وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو۔ دوسرے، وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو، یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ بھی حضور ﷺ کا ایک نام تھا۔ مسلم اور ابو داؤد طیالِسی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا انا محمد و انا احمد والحاشر۔۔۔۔۔ " میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں۔۔۔۔۔ " اسی مضمون کی روایات حضرت جبیر بن مطعم سے امام مالک، بخاری، مسلم، دارمی، ترمذی اور نسائی نے نقل کی ہیں۔ حضور ﷺ کا یہ اسم گرامی صحابہ میں معروف تھا، چناچہ حضرت حصان بن ثابت کا شعر ہے
صلی الالٰہ و من یحف بعرشہ والطیبون علی المبارک احمد
" اللہ نے اور اس کے عرش کے گرد جمگھٹا لگائے ہوئے فرشتوں نے اور سب پاکیزہ ہستیوں نے بابرکت احمد پر درود بھیجا ہے "۔
تاریخ سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضور ﷺ کا نام مبارک صرف محمد ہی نہ تھا بلکہ احمد بھی تھا۔ عرب کا پورا لٹریچر اس بات سے خالی ہے کہ حضور ﷺ سے پہلے کسی کا نام احمد رکھا گیا ہو۔ اور حضور ﷺ کے بعد احمد اور غلام احمد اتنے لوگوں کے نام رکھے گئے ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ زمانہ نبوت سے لے کر آج تک تمام امت میں آپ کا یہ اسم گرامی معلوم و معروف رہا ہے۔ اگر حضور کا یہ اسم گرامی نہ ہوتا تو اپنے بچوں کے نام غلام احمد رکھنے والوں نے آخر کس احمد کا غلام ان کو قرار دیا تھا ؟
2۔ انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد کے زمانے میں بنی اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے۔ ایک مسیح، دوسرے ایلیاہ (یعنی حضرت الیاس کی آمد ثانی) ، اور تیسرے " وہ نبی " انجیل کے الفاظ یہ ہیں
" اور یوحنا (حضرت یحییٰ علیہ السلام) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے، تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟۔۔۔۔ اس نے کہا میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو۔۔۔۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے، نہ ایلیا نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے ؟ " (باب 1۔ آیات 19۔ 25)
یہ الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت مسیح اور حضرت الیاس کے علاوہ ایک اور نبی کے بھی منتظر تھے، اور وہ حضرت یحییٰ نہ تھے، اس نبی کی آمد کا عقیدہ بنی اسرائیل کے ہاں اس قدر مشہور و معروف تھا کہ " وہ نبی " کہہ دینا گویا اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بالکل کافی تھا، یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ " جس کی خبر توراۃ میں دی گئی ہے " مزید برآں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نبی کی طرف وہ اشارہ کر رہے تھے اس کا آنا قطعی طور پر ثابت تھا، کیونکہ جب حضرت یحییٰ سے یہ سوالات کیے گئے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے، تم کس نبی کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟
3۔ اب وہ پیشین گوئیاں دیکھیے جو انجیل یوحنا میں مسلسل باب 14 سے 16 تک منقول ہوئی ہیں
" اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے، یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہے " (1416۔ 17)۔
" میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔ " (2514۔ 26)
" اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں " (3014)۔
" لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے، تو وہ میری گواہی دے گا " (2615)۔
" لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا " (716)۔
" مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔ اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے۔ اس لیے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا " (1216۔ 15)۔
4۔ ان عبارتوں کے معنی متعین کرنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ مسیح ؑ اور ان کے ہم عصر اہل فلسطین کی عام زبان آرامی زبان کی وہ بولی تھی جسے سریانی (Syriac) کہا جاتا ہے۔ مسیح کی پیدائش سے دو ڈھائی سو برس پہلے ہی سلوقی (Seleu cide) اقتدار کے زمانے میں اس علاقے سے عبرانی رخصت ہوچکی تھی اور سریانی نے اس کی جگہ لے لی تھی۔ اگرچہ سلوقی اور پھر رومی سلطنتوں کے اثر سے یونانی زبان بھی اس علاقے میں پہنچ گئی تھی، مگر وہ صرف اس طبقے تک محدود رہی جو سرکار دربار میں رسائی پاکر، یا رسائی حاصل کرنے کی خاطر یونانیت زدہ ہوگیا تھا۔ فلسطین کے عام لوگ سریانی کی ایک خاص بولی (Dialect) استعمال کرتے تھے جس کے لہجے اور تلفظات اور محاورات دمشق کے علاقے میں بولی جانے والی سریانی سے مختلف تھے، اور اس ملک کے عوام یونانی سے اس قدر ناواقف تھے کہ جب 70 ء میں یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد رومی جنرل تیتس (Titus) نے اہل یروشلم کو یونانی میں خطاب کیا تو اس کا ترجمہ سریانی زبان میں کرنا پڑا۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے جو کچھ کہا تھا وہ لامحالہ سریانی زبان ہی میں ہوگا۔
دوسری بات یہ جاننی ضروری ہے کہ بائیبل کی چاروں انجیلیں ان یونانی بولنے والے عیسائیوں کی لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے تھے۔ ان تک حضرت عیسیٰ ؑ کے اقوال و اعمال کی تفصیلات سریانی بولنے والے عیسائیوں کے ذریعہ سے کسی تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی روایات کی شکل میں پہنچی تھیں اور ان سریانی روایات کو انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے درج کیا تھا۔ ان میں سے کوئی انجیل بھی 70 ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے، اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد غالباً ایشیائے کوچک کے شہر افسس میں لکھی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ان انجیلوں کا بھی کوئی اصل نسخہ اس یونانی زبان میں محفوظ نہیں ہے جس میں ابتداءً یہ لکھی گئی تھیں۔ مطبع کی ایجاد سے پہلے کے جتنے یونانی مسودات جگہ جگہ سے تلاش کر کے جمع کیے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی سے پہلے کا نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تین صدیوں کے دوران میں ان کے اندر کیا کچھ رد و بدل ہوئے ہوں گے۔ اس معاملہ کو جو چیز خاص طور پر مشتبہ بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق دانستہ تغیر و تبدل کرنے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (ایڈیشن 1946) کے مضمون " بائیبل " کا مصنف لکھتا ہے
" اناجیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پوری پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتاب میں شامل کردینا۔ ……… یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنہیں اصل کتاب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا، اور وہ اپنے آپ کو اس کا مجاز سمجھتے رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنانے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کردیں ……… بہت سے اضافے دوسری صدی ہی میں ہوگئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا ماخذ کیا تھا "۔
اس صورت حال میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ ؑ کے جو اقوال ہمیں ملتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک نقل ہوئے ہیں اور ان کے اندر کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے۔
تیسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی تقریباً تین صدیوں تک فلسطین کے عیسائی باشندوں کی زبان سریانی رہی اور کہیں نویں صدی عیسوی میں جا کر عربی زبان نے اس کی جگہ لی ان سریانی بولنے والے اہل فلسطین کے ذریعہ سے عیسائی روایات کے متعلق جو معلومات ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان علماء کو حاصل ہوئیں وہ ان لوگوں کی معلومات کی بہ نسبت زیادہ معتبر ہونی چاہییں جنہیں سریانی سے یونانی اور پھر یونانی سے لاطینی زبانوں میں ترجمہ در ترجمہ ہو کر یہ معلومات پہنچیں۔ کیونکہ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے اصل سریانی الفاظ ان کے ہاں محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات تھے۔
5۔ ان ناقابل انکار تاریخی حقائق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ انجیل یوحنا کی مذکورہ بالا عبارات میں حضرت عیسیٰ ؑ اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ " دنیا کا سردار " (سرور عالم) ہوگا، " ابد تک " رہے گا، " سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا، " اور خود ان کی (یعنی حضرت عیسیٰ کی) " گواہی دے گا "۔ یوحنا کی ان عبارتوں میں " روح القدس " اور " سچائی کی روح " وغیرہ الفاظ شامل کر کے مدعا کو خبط کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے، مگر اس کے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے وہ کوئی روح نہیں بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے جس کی تعلیم عالمگیر، ہمہ گیر، اور قیامت تک باقی رہنے والی ہوگی۔ اس شخص خاص کے لیے اردو ترجمے میں " مددگار " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یوحنا کی اصل انجیل میں یونانی زبان کا جو لفظ استعمال کیا گیا تھا، اس کے بارے میں عیسائیوں کو اصرار ہے کہ وہ Para Cletus تھا۔ مگر اس کے معنی متعین کرنے میں خود عیسائی علماء کو سخت زحمت پیش آئی ہے۔ اصل یونانی زبان میں Para Clate کے کئی معنی ہیں کسی جگہ کی طرف بلانا، مدد کے لیے پکارنا، انذار و تنیہ، ترغیب، اکسانا، التجا کرنا، دعا مانگنا۔ پھر یہ لفظ ہی بینی مفہوم میں یہ معنی دیتا ہے تسلی دینا، تسکین بخشنا، ہمت افزائی کرنا۔ بائیبل میں اس لفظ کو جہاں جہاں استعمال کیا گیا ہے، ان سب مقامات پر اس کے کوئی معنی بھی ٹھیک نہیں بیٹھتے۔ اور ائجن (Origen) نے کہیں اس کا ترجمہ Consolator کیا ہے اور کہیں Deprecator مگر دوسرے مفسرین نے ان دونوں ترجموں کو رد کردیا کیونکہ اول تو یہ یونانی گرامر کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں، دوسرے تمام عبارتوں میں جہاں یہ لفظ آیا ہے، یہ معنی نہیں چلتے۔ بعض اور مترجمین نے اس کا ترجمہ ؓ eacher کیا ہے، مگر یونانی زبان کے استعمالات سے یہ معنی بھی اخذ نہیں کیے جاسکتے۔ ترتولیان اور آگسٹائن نے لفظ Advocate کو ترجیح دی ہے، اور بعض اور لوگوں نے Assistant, اور Comforter, اور Consoler وغیرہ الفاظ اختیار کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ پیریکلیٹس)۔
اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان ہی میں ایک دوسرا لفظ Periclytos موجود ہے جس کے معنی ہیں " تعریف کیا ہوا "۔ یہ لفظ بالکل " محمد ‘’ کا ہم معنی ہے، اور تلفظ میں اس کے اور Paracletus کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ کیا بعید ہے کہ جو مسیحی حضرات اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق بےتکلف رد و بدل کرلینے کے خوگر رہے ہیں انہوں نے یوحنا کی نقل کردہ پیشین گوئی کے اس لفظ کو اپنے عقیدے کے خلاف پڑتا دیکھ کر اس کے املا میں یہ ذرا سا تغیر کردیا ہو۔ اس کی پڑتال کرنے کے لیے یوحنا کی لکھی ہوئی ابتدائی یونانی انجیل بھی کہیں موجود نہیں ہے جس سے یہ تحقیق کیا جاسکے کہ وہاں ان دونوں الفاظ میں سے دراصل کونسا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔
7۔ لیکن فیصلہ اس پر بھی موقوف نہیں ہے کہ یوحنا نے یونانی زبان میں دراصل کونسا لفظ لکھا تھا، کیونکہ بہرحال وہ بھی ترجمہ ہی تھا اور حضرت مسیح کی زبان، جیسا کہ اوپر بیان کرچکے ہیں فلسطین کی سریانی تھی، اس لیے انہوں نے اپنی بشارت میں جو لفظ استعمال کیا ہوگا وہ لا محالہ کوئی سریانی لفظ ہی ہونا چاہیے۔ خوش قسمتی سے وہ اصل سریانی لفظ ہمیں ابن ہشام کی سیرت میں مل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اسی کتاب سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا ہم معنی یونانی لفظ کیا ہے۔ محمد بن اسحاق کے حوالہ سے ابن ہشام نے یُحَنّس (یوحنا) کی انجیل کے باب 15، آیات 23 تا 27، اور باب 16 آیت 1 کا پورا ترجمہ نقل کیا ہے اور اس میں یونانی " فارقلیط " کے بجائے سریانی زبان کا لفظ منحَمَنَّا استعمال کیا گیا ہے۔ پھر ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ " مُنحَمَنَّا کے معنی سریانی میں محمد اور یونانی میں برقلیطس ہیں " (ابن ہشام، جلد اول، ص 248)۔
اب دیکھیے کہ تاریخی طور پر فلسطین کے عام عیسائی باشندوں کی زبان نویں صدی عیسوی تک سریانی تھی، یہ علاقہ ساتویں صدی کے نصف اول سے اسلامی مقبوضات میں شامل تھا۔ ابن اسحاق نے 768 ء میں اور ابن ہشام نے 868 ء میں وفات پائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی بولتے تھے، اور ان دونوں کے لیے اپنے ملک کی عیسائی رعایا سے ربط پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ نیز اس زمانے میں یونانی بولنے والے عیسائی بھی لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مقبوضات کے اندر رہتے تھے، اس لیے ان کے لیے یہ معلوم کرنا بھی مشکل نہ تھا کہ سریانی کے کس لفظ کا ہم معنی یونانی زبان کا کونسا لفظ ہے۔ اب اگر ابن اسحاق کے نقل کردہ ترجمے میں سریانی لفظ منحَمَنّا استعمال ہوا ہے، اور ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ عربی میں اس کا ہم معنی لفظ محمد اور یونانی میں بر قلیطس ہے، تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ حضرت عیسیٰ نے حضور ﷺ کا نام مبارک لے کر آپ ہی کے آنے کی بشارت دی تھی، اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یوحنا کی یونانی انجیل میں دراصل لفظ Periclytos استعمال ہوا تھا جسے عیسائی حضرات نے بعد میں کسی وقت Para Cletus سے بدل دیا۔
8۔ اس سے بھی قدیم تر تاریخی شہادت حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا، اور حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا مَرحَباً بِکُم وَبِمَن جِئتُم مِن عندِہ، اَشھَدُ اَنَّہ رَسُول اللہِ وَاَنَّہُ الَّذِی نَجِدُ فِی الاِنجِیل، وَ اَنَّہ الَّذِی بَشَّرَ بِہ عیسَی بن مریَمَ۔ (مسند احمد)۔ یعنی " مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی "۔ یہ قصہ احادیث میں خود حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے بھی منقول ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کے آغاز میں نجاشی کو یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ ایک نبی کی پیشین گوئی کر گئے ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نبی کی ایسی صاف نشاندہی انجیل میں موجود تھی جس کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ محمد ﷺ ہی وہ نبی ہیں۔ البتہ اس روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰ کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اس وقت موجود تھا۔
9۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے بارے میں حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کو نہیں، خود حضرت عیسیٰ کے اپنے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کا جاننے کا بھی معتبر ذریعہ وہ چار انجیلیں نہیں ہیں جن کو مسیحی کلیسا نے معتبر و مسلم اناجیل (Canonical Gospels) قرار دے رکھا ہے، بلکہ اس کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ وہ انجیل برناباس ہے جسے کلیسا غیر قانونی اور مشکوک الصحت (Apocryphal) کہتا ہے۔ عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس (Sixtus) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اس کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا 1738 ء میں ویانا کی امپریل لائبریری میں پہنچ گیا۔ 1907 ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہوگیا تھا مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے مطبوعہ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کردیے گئے اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آسکی۔ دوسرا ایک نسخہ اسی اطالوی ترجمہ سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہو اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کردیا گیا اور آج اس کا بھی کہیں پتہ نشان نہیں ملتا۔ مجھے آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ کا پی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اسے لفظ بہ لفظ ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے۔
مسیحی لٹریچر میں انجیل کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے، اسے یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ ایک جعلی انجیل ہے جسے شاید کسی مسلمان نے تصنیف کر کے برنا باس کی طرف منسوب کردیا ہے۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے، جو صرف اس بنا پر بول دیا گیا کہ اس میں جگہ جگہ بہ صراحت نبی ﷺ کے متعلق پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ اول تو اس انجیل کو پڑھنے ہی سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب کسی مسلمان کی تصنیف کردہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے، اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں یہ کثرت سے پھیلی ہوئی ہوتی اور علمائے اسلام کی تصنیفات میں بہ کثرت اس کا ذکر پایا جاتا۔ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ جارج سیل کے انگریزی مقدمہ قرآن سے پہلے مسلمانوں کو سرے سے اس کے وجود تک کا علم نہ تھا۔ گبری، یعقوبی، مسعودی، البیرونی، ابن حذم اور دوسرے مصنفین، جو مسلمانوں میں مسیحی لٹریچر وسیع اطلاع رکھنے والے تھے، ان میں سے کسی کے ہاں بھی مسیحی مذہب پر بحث کرتے ہوئے انجیل برناباس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ دنیائے اسلام کے کتب خانوں میں جو کتابیں پائی جاتی تھیں ان کی بہترین فہرستیں ابن ندیم کی الفہرست اور حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ہیں، اور وہ بھی اس کے ذکر سے خالی ہیں۔ انیسویں صدی سے پہلے کسی مسلمان عالم نے انجیل برناباس کا نام تک نہیں لیا ہے۔ تیسری اور سب سے بڑی دلیل اس بات کے جھوٹ ہونے کی یہ ہے کہ نبی ﷺ کی پیدائش سے بھی 75 سال پہلے پوپ گلاسیس اول (Gelasius) کے زمانے میں بد عقیدہ اور گمراہ کن (Heretical) کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعہ سے جن کا پڑھنا ممنوع کردیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (evangelium Barnabe) بھی شامل تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی ؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام، اسپین، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برنا باس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
10۔ قبل اس کے کہ اس انجیل سے نبی ﷺ کے متعلق حضرت عیسیٰ ؑ کی بشارتیں نقل کی جائیں، اس کا مختصر تعارف کرا دینا ضروری ہے، تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہوجائے اور یہ بھی سمجھ میں آجائے کہ عیسائی حضرات اس سے اتنے ناراض کیوں ہیں۔
بائیبل میں جو چار انجیلیں قانونی اور معتبر قرار دے کر شامل کی گئی ہیں، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰ کا صحابی نہ تھا۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا ہے کہ اس نے آنحضرت کے صحابیوں سے حاصل کردہ معلومات اپنی انجیل میں درج کی ہیں۔ جن ذرائع سے ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں ان کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ راوی نے آیا خود وہ واقعات دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں۔ یہی نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت حضرت مسیح نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں ان کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمہ داری ہے۔
یہ برناباس کون تھا ؟ بائیبل کی کتاب اعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروان مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دین مسیح میں داخل ہوا، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست تین انجیلوں میں دی گئی ہے اس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برناباس ہے یا کوئی اور۔ متی، اور مرقس نے حواریوں (Apostles) کی جو فہرست دی ہے، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے۔ ایک تو ما، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے، دوسرا شمعون قنانی، جس کی جگہ وہ یہو واہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام بھی موجود ہے۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہوگا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے تو ما کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جاسکے، اور اس طرح کے تغیرات اپنی مذہبی کتابوں میں کرلینا ان حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے۔
اس انجیل کو اگر کوئی شخص تعصب کے بغیر کھلی آنکھوں سے پڑھے اور نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں سے اس کا مقابلہ کرے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ان چاروں سے بدرجہا برتر ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اس طرح بیان ہوئے ہیں جیسے کوئی شخص فی الواقع وہاں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ان واقعات میں خود شریک تھا۔ چاروں انجیلوں کی بےربط داستانوں کے مقابلہ میں یہ تاریخی بیان زیادہ مربوط بھی ہے اور اس سے سلسلہ واقعات بھی زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اس میں چاروں انجیلوں کی بہ نسبت زیادہ واضح اور مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں۔ توحید کی تعلیم، شرک کی ترید، صفات باری تعالیٰ ، عبادات کی روح، اور اخلاق فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پر زور اور مدلل اور مفصل ہیں۔ جن آموز تمثیلات کے پیرایہ میں مسیح نے یہ مضامین بیان کیے ہیں ان کا عشر عشیر بھی چاروں انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے۔ حضرت عیسیٰ کی زبان، طرز بیان اور طبیعت و مزاج سے کوئی شخص اگر کچھ بھی آشنا ہو تو وہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ یہ کوئی جعلی داستاں نہیں ہے جو بعد میں کسی نے گھڑ لی ہو، بلکہ اس میں حضرت مسیح اناجیل اربعہ کی بہ نسبت اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں، اور اس میں ان تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو اناجیل اربعہ میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اس انجیل میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور آپ کی تفصیلات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ صاف کہتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیمات کے سوا معرفت حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے، اور جو انبیاء کو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے۔ نماز، روزے اور زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برناباس نے کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤد و سلیمان کو نبی قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے۔ حضرت اسماعیل کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیل ہی تھے اور بنی اسرائیل نے زبر دستی کھینچ تان کر کے حضرت اسحاق کو ذبیح بنا رکھا ہے۔ آخرت اور قیامت اور جنت و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔
11۔ عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخالف ہیں، وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں، کیونکہ وہ تو حضور ﷺ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے اس انجیل کو رد کرچکے تھے۔ ان کی ناراضی کی اصل وجہ کو سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے، موسوی شریعت کا اتباع کرتے تھے، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے، اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں، یونانیوں، اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کردی، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ ؑ نے پیش کیا تھا۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہو کر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ کے کسی قول کی سند نہیں پیش کی بلکہ اپنے کشف والہام کو بنیاد بنایا۔ اس نئے دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی (Gentile) دنیا قبول کرلے۔ اس نے اعلان کردیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری قیود ختم کردیں۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کردیا جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ اس نے مسیح کی الوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدم کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔ مسیح کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی، مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہوگیا جس کے مقابلے میں وہ مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھہر سکے۔ تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت لوگ ایسے موجود تھے جو مسیح کی الوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھے۔ مگر چوتھی صدی کے آغاز (325 ء) میں نیقیہ (Nicaea) کی کونسل نے پولوسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم مذہب قرار دے دیا۔ پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہوگئی اور قیصر تھیوڈو سِس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا۔ اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں، مردود قرار دے دی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھہرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں۔ 367 میں پہلی مرتبہ اتھانا سیوس (Athanasius) کے ایک خط کے ذریعہ معتبر و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا، پھر اس کی توثیق 382 ء میں پوپ ڈیمیسس (Damasius) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی، اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسس (Gelasius) نے اس مجموعہ کو مسلم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں ایک فہرست مرتب کردی جو غیر مسلم تھیں۔ حالانکہ جن پولوسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں، خود ان میں بھی حضرت عیسیٰ کے اپنے کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا۔
انجیل برناباس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لیے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرداری عقیدے کے بالکل خلاف تھی۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصد تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ " ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو شیطان کے دھوکے میں آ کر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں، ختنہ کو غیر ضروری ٹھہراتے ہیں اور حرام کھانوں کو حلال کردیتے ہیں، جن میں سے ایک دھوکہ کھانے والا پولوس بھی ہے "۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ دنیا میں موجود تھے اس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا، پھر یہ چھوت بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی۔ اس پر حضرت عیسیٰ سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے شا گردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے بھیجا اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰ سے صادر ہوتے تھے، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آجائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہو رہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عیسیٰ کی مفصل تقریریں نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی، اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ آنجناب اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے۔ مزید براں وہ اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح ؑ نے صلیب پر جان دی تھی۔ وہ اپنے چشم دید حالات یہ بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکریوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجناب کو اٹھا لے گئے، اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کردی گئی جو حضرت عیسیٰ کی تھی۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ۔ اس طرح یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے۔ حالانکہ نزول قرآن سے 115 سال پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادری اسے رد کرچکے تھے۔
12۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انجیل برناباس درحقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے، مسیح ؑ کی تعلیمات اور سیرت اور اقوال کی صحیح ترجمانی کرتی ہے، اور یہ عیسائیوں کی اپنی بد قسمتی ہے کہ اس انجیل کے ذریعہ سے اپنے عقائد کی تصحیح اور حضرت مسیح کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ان کو ملا تھا اسے محض ضد کی بنا پر انہوں نے کھو دیا۔ اس کے بعد ہم پورے اطمینان کے ساتھ وہ بشارتیں نقل کرسکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بارے میں برناباس نے حضرت عیسیٰ سے روایت کی ہیں۔ ان بشارتوں میں کہیں حضرت عیسیٰ حضور ﷺ کا نام لیتے ہیں، کہیں " رسول اللہ " کہتے ہیں، کہیں آپ کے لیے " مسیح " کا لفظ استعمال کرتے ہیں، کہیں " قابل تعریف " (Admirable) کہتے ہیں، اور کہیں صاف صاف ایسے فقرے ارشاد فرماتے ہیں جو بالکل لٓا اِلٰہٰ الَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے ہم معنی ہیں۔ ہمارے لیے ان ساری بشارتوں کو نقل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اتنی زیادہ ہیں، اور جگہ جگہ مختلف پیرایوں اور سیاق وسباق میں آئی ہیں کہ ان سے ایک اچھا خاصا رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔ یہاں ہم محض بطور نمونہ ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں
" تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا، جن کی تعداد ایک لاکھ 44 ہزار تھی، انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی۔ مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہوئی باتوں، کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے " (باب 17)
" فریسیوں اور لاویوں نے کہا اگر تو نہ مسیح ہے، نہ الیاس، نہ کوئی اور نبی، تو کیوں تو نئی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا کر پیش کرتا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھاتا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے، ورنہ در حقیقت میں اپنے آپ کو اس (مسیح) سے بڑا شمار کیے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو۔ میں تو اس خدا کے رسول کے موزے کے بند یا اس کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئے گا اور صداقت کی باتیں لے کر آئے گا تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو " (باب 42)۔
" بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لیے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے۔ اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے۔ مگر خدا کا رسول جب آئے گا، خدا کو یا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے دے گا، یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گی، نجات اور رحمت پہنچا دے گا۔ وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بت پرستی کا ایسا قلع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہوجائے گا "۔ اس کے آگے شاگردوں کے ساتھ ایک طویل مکالمہ میں حضرت عیسیٰ تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسماعیل میں سے ہوگا (باب 43)۔
" اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا رسول وہ رونق ہے جس سے خدا کی پیدا کی ہوئی قریب قریب تمام چیزوں کو خوشی نصیب ہوگی کیونکہ وہ فہم اور نصیحت، حکمت اور طاقت، خشیت اور محبت، حزم اور درع کی روح سے آراستہ ہے۔ وہ فیاضی اور رحمت، عدل اور تقویٰ ، شرافت اور صبر کی روح سے مزین ہے جو اس نے خدا سے ان تمام چیزوں کی بہ نسبت تین گنی پائی ہے جنہیں خدا نے اپنی مخلوق میں سے یہ روح بخشی ہے۔ کیسا مبارک وقت ہوگا جب وہ دنیا میں آئے گا۔ یقین جانو، میں نے اس کو دیکھا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے جس طرح ہر نبی نے اس کو دیکھا تو میری روح سکینت سے بھر گئی یہ کہتے ہوئے کہ اے محمد، خدا تمہارے ساتھ ہو، اور وہ مجھے تمہاری جوتی کے تسمے باندھنے کے قابل بنا دے، کیونکہ یہ مرتبہ بھی پالوں تو میں ایک بڑا نبی اور خدا کی ایک مقدس ہستی ہوجاؤں گا "۔ (باب 44)۔
" (میرے جانے سے) تمہارا دل پریشان نہ ہو، نہ تم خوف کرو، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ خدا ہمارا خالق، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔ رہا میں، تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا کے لیے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لیے نجات لے کر آئے گا ……… اندر یاس نے کہا، استاد ہمیں اس کی نشانی بتادے تاکہ ہم اسے پہچان لیں۔ یسوع نے جواب دیا، وہ تمہارے زمانے میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جبکہ میری انجیل ایسی مسخ ہوچکی ہوگی مشکل سے کوئی 30 آدمی مومن باقی رہ جائیں گے۔ اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنے رسول کو بھیجے گا جس کے سر پر سفید بادل کا سایہ ہوگا جس سے وہ خدا کا برگزیدہ جانا جائے گا اور اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت دنیا کو حاصل ہوگی۔ وہ بے خدا لوگوں کے خلاف بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر بت پرستی کو مٹا دے گا۔ اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہمارا خدا پہچانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہوگی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہوگی اور وہ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے ……… وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہوگی " (باب 72)۔
" خدا کا عہد یروشلم میں، معبد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور۔ مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی، اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز کو قبول فرمائے گا ……… میں دراصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں، مگر میرے بعد مسیح آئے گا، خدا کا بھیجا ہوا تمام دنیا کی طرف، جس کے لیے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہوگی، اور اس کی رحمت نازل ہوگی " (باب 83)۔
" یسوع نے سردار کاہن سے کہا، زندہ خدا کی قسم جس کے حضور میری جان حاضر ہے، میں وہ مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا تمام دنیا کی قومیں انتظار کر رہی ہیں، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہیم سے یہ کہہ کر کیا تھا کہ " تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی " (پیدائش، 1822)۔ مگر جب خدا مجھے دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر یہ بغاوت برپا کرے گا کہ نا پرہیزگار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں۔ اس کی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کردیا جائے گا یہاں تک کہ بمشکل 30 صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے۔ اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا جس کے لیے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں، جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کر دے گا، جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کرلیا ہے۔ وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لیے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے، اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے " (باب 96)۔
سردار کاہن نے پوچھا کہ وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟ یسوع نے جواب دیا اس مسیح کا نام " قابل تعریف " ہے، کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان میں رکھا گیا تھا۔ خدا نے کہا " اے محمد، انتظار کر، کیونکہ تیری ہی خاطر میں جنت، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پر دوں گا، یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی۔ جب میں تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو اپنے پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا۔ تیری بات سچی ہوگی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا۔ سو اس کا مبارک نام محمد ہے "۔ (باب، 9)۔
برنا باس لکھتا ہے ایک موقع پر شاگردوں کے سامنے حضرت عیسیٰ نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک (جو بعد میں یہو واہ اسکریوتی نکلا) مجھے 30 سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے گا، پھر فرمایا
" اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا، کیونکہ خدا مجھے زمین سے اوپر اٹھا لے گا اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ ہر شخص یہ سمجھے گا کہ وہ میں ہی ہوں۔ تاہم جب وہ ایک بڑی موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی۔ مگر جب محمد، خدا کا مقدس رسول آئے گا تو میری وہ بدنامی دور کردی جائے گی۔ اور خدا یہ اس لیے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے۔ وہ مجھے اس کا یہ انعام دے گا کہ لوگ یہ جان لیں گے کہ میں زندہ ہوں اور اس ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے " (باب 113)۔
" (شاگردوں سے حضرت عیسیٰ نے کہا) بیشک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر موسیٰ کی کتاب سے صداقت مسخ نہ کردی گئی ہوتی تو خدا ہمارے باپ داؤد کو ایک دوسری کتاب نہ دیتا۔ اور اگر داؤد کی کتاب میں تحریف نہ کی گئی ہوتی تو خدا مجھے انجیل نہ دیتا، کیونکہ خداوند ہمارا خدا بدلنے والا نہیں ہے اور اس نے سب انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے۔ لہٰذا جب اللہ کا رسول آئے گا تو وہ اس لیے آئے گا کہ ان ساری چیزوں کو صاف کر دے جن سے بے خدا لوگوں نے میری کتاب کو آلودہ کردیا ہے " (باب 124)۔
ان صاف اور مفصل پیشین گوئیوں میں صرف تین چیزیں ایسی ہیں جو بادی النظر میں نگاہ کو کھٹکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں اور انجیل برناباس کی متعدد دوسری عبارتوں میں حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے مسیح ہونے کا انکار کیا ہے۔ دوسری یہ کہ صرف ان ہی عبارتوں میں نہیں بلکہ اس انجیل کے بہت سے مقامات پر رسول ﷺ کا اصل عربی نام " محمد " لکھا گیا ہے، حالانکہ یہ انبیاء کی پیشین گوئیوں کا یہ عام طریقہ نہیں ہے کہ بعد کی آنے والی کسی ہستی کا اصل نام لیا جائے۔ تیسری یہ کہ اس میں آنحضرت ﷺ کو مسیح کہا گیا ہے۔
پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ صرف انجیل برناباس ہی میں نہیں بلکہ لوقا کی انجیل میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ آپ کو مسیح کہیں۔ لُوقا کے الفاظ یہ ہیں " اس نے ان سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو ؟ پطرس نے جواب میں کہا خدا کا مسیح۔ اس نے ان کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا " (209۔ 21)۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل جس مسیح کے منتظر تھے اس کے متعلق ان کا خیال یہ تھا کہ وہ تلوار کے زور سے دشمنان حق کو مغلوب کرے گا، اس لیے حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا کہ وہ مسیح میں نہیں ہوں بلکہ وہ میرے بعد آنے والا ہے۔
دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ برناباس کا جو اطالوی ترجمہ اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کے اندر تو حضور ﷺ کا نام بیشک محمد لکھا ہوا ہے، مگر یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ کتاب کن کن زبانوں سے ترجمہ ہوتی ہوئی اطالوی زبان میں پہنچی ہے۔ ظاہر ہے کہ اصل انجیل برناباس سریانی زبان میں ہوگی، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی زبان تھی۔ اگر وہ اصل کتاب دستیاب ہوتی تو دیکھا جاسکتا تھا کہ اس میں آنحضرت ﷺ کا اسم گرامی کیا لکھا گیا تھا۔ اب جو کچھ قیاس کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ اصل میں تو حضرت عیسیٰ نے لفظ مُنْحَمنَّا استعمال کیا ہوگا، جیسا کہ ہم ابن اسحاق کے دیے ہوئے انجیل یوحنا کے حوالہ سے بتا چکے ہیں۔ پھر مختلف مترجموں نے اپنی اپنی زبانوں میں اس کے ترجمے کردیے ہوں گے۔ اس کے بعد غالباً کسی مترجم نے یہ دیکھ کر کہ پیشن گوئی میں آنے والے کا جو نام بتایا گیا ہے وہ بالکل لفظ " محمد " کا ہم معنی ہے، آپ کا یہی اسم گرامی لکھ دیا ہوگا۔ اس لیے صرف اس نام کی تصریح یہ شبہ پیدا کردینے کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے کہ پوری انجیل برناباس کسی مسلمان نے جعلی تصنیف کردی ہے۔
تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ لفظ " مسیح " درحقیقت ایک اسرائیلی اصطلاح ہے جسے قرآن مجید میں مخصوص طور پر حضرت عیسیٰ کے لیے صرف اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ یہودی ان کے مسیح ہونے کا انکار کرتے تھے اور نہ یہ قرآن کی اصطلاح ہے نہ قرآن میں کہیں اس کو اسرائیلی اصطلاح کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کے حق میں اگر حضرت عیسیٰ ؑ نے لفظ مسیح استعمال کیا ہو اور قرآن میں آپ کے لیے یہ لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ انجیل برنا باس آپ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرتی ہے جس سے قرآن انکار کرتا ہے۔ دراصل بنی اسرائیل کے ہاں قدیم طریقہ یہ تھا کہ کسی چیز یا کسی شخص کو جب کسی مقدس مقصد کے لیے مختص کیا جاتا تھا تو اس چیز پر یا اس شخص کے سر پر تیل مل کر اسے متبرک (Consecrate) کردیا جاتا تھا۔ عبرانی زبان میں تیل ملنے کے اس فعل کو مسح کہتے تھے اور جس پر یہ ملا جاتا تھا اسے مسیح کہا جاتا تھا۔ عبادت گاہ کے ظروف اسی طریقہ سے مسح کر کے عبادت کے لیے وقف کیے جاتے تھے۔ کاہنوں کو کہانت (Priesthood) کے منصب پر مامور کرتے وقت بھی مسح کیا جاتا تھا۔ بادشاہ اور نبی بھی جب خدا کی طرف سے بادشاہت یا نبوت کے لیے نامزد کیے جاتے تو انہیں مسح کیا جاتا۔ چناچہ بائیبل کی رو سے بنی اسرائیل کی تاریخ میں بہ کثرت مسیح پائے جاتے ہیں۔ حضرت ہارون کاہن کی حیثیت سے مسیح تھے۔ حضرت موسیٰ کاہن اور نبی کی حیثیت سے، طالوت بادشاہ کی حیثیت سے، حضرت داؤد بادشاہ اور نبی کی حیثیت سے، ملکِ صَدَق بادشاہ اور کاہن کی حیثیت سے، اور حضرت اَلْیَسْع نبی کی حیثیت سے مسیح تھے۔ بعد میں یہ بھی ضروری نہ رہا تھا کہ تیل مل کر ہی کسی کو مامور کیا جائے، بلکہ محض کسی کا مامور من اللہ ہونا ہی مسیح ہونے کا ہم معنی بن گیا تھا۔ مثال کے طور پر دیکھیے 1۔ سلاطین، باب 19 میں ذکر آیا ہے کہ خدا نے حضرت الیاس (ایلیاہ) کو حکم دیا کہ حزائیل کو مسح کر کہ آرام (دمشق) کا بادشاہ ہو، اور نمسی کے بیٹے یا ہو کو مسح کر کہ اسرائیل کا بادشاہ ہو، اور الیشع (الْیَسْع) کو مسح کر کہ تیری جگہ نبی ہو۔ ان میں سے کسی کے سر پر بھی تیل نہیں ملا گیا۔ بس خدا کی طرف سے ان کی ماموریت کا فیصلہ سنا دینا ہی گویا انہیں مسح کردینا تھا۔ پس اسرائیلی تصور کے مطابق لفظ مسیح درحقیقت " مامور من اللہ " کا ہم معنی تھا اور اسی معنی میں حضرت عیسیٰ ؑ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے اس لفظ کو استعمال کیا تھا۔ (لفظ " مسیح " کے اسرائیلی مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سائکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ " میْسیاہ ")۔
سورة الصَّف 9
اصل میں لفظ سِحْر استعمال ہوا ہے۔ سحر یہاں جادو کے نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی لغت میں جادو کی طرح اس کے یہ معنی بھی معروف ہیں۔ کہتے ہیں سَحَرَہ ای خَدَعَہ " اس نے فلاں شخص پر سحر کیا، یعنی اس کو فریب دیا "۔ دل چھین لینے والی آنکھ کو عین ساحرۃ کہا جاتا ہے، یعنی " ساحر آنکھ "۔ جس زمین میں ہر طرف سراب ہی سراب نظر آئے اس کو ارض ساحرۃ کہتے ہیں۔ چاندی کو ملمع کر کے سونے جیسا کردیا جائے تو کہتے ہیں سحرت الفضّۃُ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ نبی، جس کے آنے کی بشارت عیسیٰ ؑ نے دی تھی، اپنے نبی ہونے کی بین نشانیوں کے ساتھ آگیا تو بنی اسرائیل اور امت عیسیٰ نے اس کے دعوائے نبوت کو صریح فریب قرار دیا۔