Tafheem-ul-Quran - As-Saff : 3
كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
كَبُرَ مَقْتًا : بڑا ہے بغض میں۔ ناراضگی میں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں اَنْ تَقُوْلُوْا : کہ تم کہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ 2
سورة الصَّف 2 اس ارشاد کا ایک مدعا تو عام ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اور ایک مدعا خاص ہے جو بعد والی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا۔ پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہئے۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے، اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں، کجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا ایٰۃ المنافق ثلاث (زاد مسلم وان صام و صلی و زعم انہ مسلم) اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف واذا أتمن خان (بخاری و مسلم) منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ جب بولے جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ ایک اور حدیث میں آپ کا ارشاد ہے اربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، اذا اتمن خان واذا حدث کذب۔ واذا عاھد غدر، واذا خاصم فجر۔ (بخاری و مسلم) چار صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائیں جائیں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے، جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب بولے تو جھوٹ بولے، اور عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کر جائے، اور لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالیں۔ فقہائے اسلام کا اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ کوئی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرے (مثلاً کسی چیز کی نذر مانیں) یا بندوں سے کوئی معاہدہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وفا کرنا لازم ہے، الا یہ کہ کام بجائے خود گناہ ہو جس کا اس نے عہد یا وعدہ کیا ہو۔ اور گناہ ہونے کی صورت میں وہ فعل تو نہیں کرنا چاہئے جس کا عہد یا وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کی پابندی سے آزاد ہونے کے لیے کفارہ یمین ادا کرنا چاہئے، جو سورة المائدہ آیت 89 میں بیان کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص وابن عربی) یہ تو ہے ان آیات کا مدعا۔ رہا وہ خاص مدعا جس کے لیے اس موقع پر یہ آیات ارشاد فرمائی گئی ہیں تو بعد والی آیت کو ان کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ مقصود ان لوگوں کو ملامت کرنا ہے جو اسلام کے لیے سرفروشی و جانبازی کے لمبے چوڑے وعدے کرتے تھے، مگر جب آزمائش کا وقت آتا تھا تو بھاگ نکلتے تھے۔ ضعیف الایمان لوگوں کی اس کمزوری پر قرآن مجید میں کئی جگہ گرفت کی گئی ہے۔ مثلاً سورة نساء آیت 77 میں فرمایا " تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے، یا اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی "۔ اور سورة محمد آیت 20 میں فرمایا " جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی صورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک محکم سورت نازل کی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو "۔ جنگ احد کے موقع پر یہ کمزوریاں خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جن کی طرف سورة آل عمران میں 13 ویں رکوع سے 17 ویں رکوع تک اشارات کئے گئے ہیں۔ مفسرین نے ان آیات کی شان نزول میں ان کمزوریوں کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جہاد فرض ہونے سے پہلے مسلمانوں میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ کاش ہمیں وہ عمل معلوم ہوجائے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم وہی کریں۔ مگر جب بتایا گیا کہ وہ عمل ہے جہاد، تو ان پر اپنی اس بات کو پورا کرنا بہت شاق ہوگیا۔ مقاتِل بن حیّان کہتے ہیں کہ احد کی جنگ میں ان لوگوں کو آزمائش سے سابقہ پیش آیا اور یہ حضور کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ابن زید کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ نبی ﷺ کو یقین دلاتے تھے کہ آپ کو دشمنوں کے مقابلہ کے لیے نکلنا پڑے تو ہم آپ کے ساتھ نکلیں گے۔ مگر جب وقت آیا تو ان کے وعدے جھوٹے نکلے۔ قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ بعض لوگ جنگ میں شریک ہوتے بھی تھے تو کوئی کارنامہ انجام نہ دیتے تھے مگر آ کر یہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں مارا۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آیات میں ملامت کی ہے۔
Top