Tafheem-ul-Quran - As-Saff : 10
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ : اے لوگو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے ہو هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں رہنمائی کروں تمہاری عَلٰي تِجَارَةٍ : اوپر ایک تجارت کے تُنْجِيْكُمْ : بچائے تم کو مِّنْ عَذَابٍ : عذاب سے اَلِيْمٍ : دردناک
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں  تم کو وہ تجارت 14 جو تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے؟
سورة الصَّف 13 " مشرکین " کو ناگوار ہو، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے۔ ایسے سب لوگوں کے علی الرغم یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کا رسول ان کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے۔ یہ کام اسے بہرحال کر کے رہنا ہے۔ کافر اور مشرک مان لیں تو، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہوچکا ہے۔ ایک، سورة توبہ آیت 33 میں۔ دوسرے، سورة فتح آیت 28 میں۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جا رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 32۔ جلد پنجم، الفتح، حاشیہ 51)۔ سورة الصَّف 14 تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال، وقت، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہوگا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ یہی مضمون سورة توبہ آیت 111 میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 106
Top